Express News:
2025-07-26@21:18:05 GMT

آج کا نوجوان اور معاشرتی انحطاط

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

 ہمارے نوجوان ملک کا سرمایہ اور قومی اثاثہ ہیں۔ یہ ترقی کریں گے تو ملک ترقی کرے گا، معاشی حالات بہتر ہوں گے۔ علامہ اقبال نے انھیں شاہین سے تعبیرکیا ہے۔

تُو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
دنیا کی امامت کرنے کے لیے وہ صداقت کے سبق کا اعادہ کرتے ہیں ۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

آج کے حالات کے پس منظر میں جو منظرنامہ ہمارے سامنے ہے وہ ہے نوجوانوں کے اخلاق و کردار کی پستی کا، زوال کا اور تعلیم سے دوری کا۔ نوجوانوں کو بلندی سے کس نے نشیب میں گرانے کا جال بنا اور وہ کون سی طاقت تھی جو ان کے ہاتھوں سے کتابیں چھیننے کا باعث بنی۔

ماضی کی حکومتیں اور اہم قومی اداروں نے حقائق کا سامنا کرنے سے کیوں رخ بدل لیا؟ اپنے ہی ملک کے نوجوانوں کو دلدل میں اتارنے والے کون تھے، اور اپنے مذموم مقاصد سے انھوں نے کیا حاصل کیا؟ ان تمام سوالات کے جوابات سے ملک کے دانشور اور علما اچھی طرح واقف ہیں، صاحبان علم و فن گواہ ہیں کہ حالات و واقعات کل بھی پشیمانی کا باعث تھے اور آج بھی لوگ یاسیت کا شکار ہیں۔ جو چاہتے ہیں وہ ہوتا نہیں اور جو نہیں چاہتے وہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

کسی بھی ملک و قوم کی ترقی میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے اور کردار کو اعلیٰ بنانے میں والدین کی تعلیم و تربیت اس کے بعد باہر کا ماحول اور حکومت کی ذمے داریاں کہ وہ ان کے روشن مستقبل کے لیے کس حد تک کوشاں ہے؟ یا پھر خواب غفلت میں کھوئی ہوئی ہے اور اس کے پیش نظر صرف اور صرف اپنے اور اپنے حواریوں کے منافع بخش منصوبے ہیں۔

ہماری سابقہ و موجودہ حکومتوں نے کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ نوجوانوں کے مسائل اور ان کے حل پر توجہ نہیں دی ہے۔ بے شمار طلبا و طالبات مڈل یا میٹرک کے بعد تعلیم حاصل نہیں کرسکے اس کی وجہ والدین کی مفلوک الحالی ہے، یہ وہ والدین ہیں جن کے آبا و اجداد نے ہندوستان سے ہجرت کی تھی اور ایک خوب صورت خواب سجا کر پاکستان میں داخل ہوئے تھے لیکن امرا و وزرا، بیوروکریٹ، افسران بالا نے غریب اور کم آمدنی کمانے والوں کی سفید پوشی کو خوشحال گھرانوں میں بدلنے کے لیے کسی بھی طرح کے اقدامات نہیں کیے۔ 

کبھی انھیں غربا و مساکین کی زندگیوں کے بارے میں جاننے کی فرصت نہیں ملی اگر فرصت ہے تو صرف اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل کرنے کے لیے مصروف رہتے ہیں اور آئے دن تنخواہیں بڑھانے کا عمل جاری رہتا ہے اس طرح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لاکھوں کی مد میں تنخواہیں وہ لوگ وصول کرتے ہیں جو جھوٹ کو فروغ دیتے اور انصاف کی دھجیاں بکھیرنے میں ذرا دیر نہیں کرتے۔

جہاں انصاف نہ ہو، حکومت اپنے فرائض سے چشم پوشی کرے تو ان ملکوں میں بہت سے بے بسی تباہی کی طرف بڑھتے بڑھتے موت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔ آج بے شمار لوگ خودکشی کر چکے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو قرض میں جکڑے ہوئے تھے اور مرض میں مبتلا اور جن کی اولادیں گلی کوچوں میں رل رہی ہیں، چھوٹی موٹی چوری کرنے والے خطرناک ڈاکوؤں کی شکل میں سامنے آگئے ہیں۔ 

بے شمار چور، ڈاکو اور قاتلوں کو رقم دے کر خریدا جاتا ہے، یہ بے چارے نسل در نسل یہی کام کر رہے ہیں، ان کا تعلق گاؤں گوٹھ اور پسماندہ علاقوں سے ہوتا ہے جہاں یہ لوگ چرس و افیون استعمال کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں تاکہ بدحالی اور اولاد کے غم سے نجات پا سکیں۔ یہاں حکومتی ادارے اپنے حقوق و فرائض سے یکسر جانتے بوجھتے بے خبر رہتے ہیں۔

منشیات کا کاروبار اسی بے خبری کی وجہ سے خوب پنپ رہا ہے ملک اور نوجوانوں کا مستقبل داغ دار ہو چکا ہے۔ اگر قومی ادارے اپنی قوم کے بچوں سے ہمدردی ملک کی بہتری کے لیے کام کرتے تو ان کے لیے آج گلی محلوں میں بے شمار اسکول و مدارس قائم ہو جاتے، پارک اور جم وجود میں آ جاتے، تعلیمی زبوں حالی کے ذمے دار اعلیٰ افسران ہیں وہ ان غریب خاندانوں پر بے توجہی کے ساتھ ساتھ اہم اور دینی تعلیمی اداروں کی خبر گیری نہیں کرتے ہیں کہ اندر کے حالات کیسے ہیں۔ 

طلبا و طالبات اندرونی سازش اور پست کردار لوگوں کے ہتھے تو نہیں چڑھ گئے ہیں، پرنسپل صاحبان اور منتظم اعلیٰ اپنی ذمے داریوں سے دستبردار ہو کر کالج کی فضا میں زہر گھولنے کا باعث تو نہیں؟بعض اداروں کے سربراہ اور منتظم جو اپنی بیٹیوں کی عمروں کی طالبات کی عزت و ناموس کو دھبہ لگانے اور خاندان کو رسوا کرنے میں پیش پیش ہیں، مختلف یونیورسٹیوں میں ایسے ہی دل خراش واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ 

ان کے کرتوتوں سے انسانیت سر نگوں ہے، محض پاس کرنے کی شرائط اس قدر سنگین؟ ان کی اپنی بھی عزت اپنے گھروں اور اہل خانہ کے سامنے ختم ہو جاتی ہے اور پورے ملک اور دنیا میں علیحدہ رسوائی؟

اس قسم کی باتیں اور حقائق سال چھ ماہ بعد دنیا کے سامنے عیاں ہو جاتے ہیں۔ ان افسوس ناک حالات میں حکومت کو چاہیے کہ جہاں طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں تو وہاں خاتون سربراہ کی تقرری کو ناگزیر بنایا جائے، اگر مخلوط تعلیم ہے تو مرد اور خاتون کو وائس چانسلر یا پرنسپل کے عہدوں پر فائزکیا جائے، تعلیمی اداروں میں خواتین کی تقرری اہم عہدوں پر کرنے سے بہت سے فائدوں میں سے یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ خاتون ان طالب علموں کی عزت و عصمت کی محافظ ہوگی۔

آج کے نوجوانوں کا یہ المیہ ہے کہ اکثریت اپنا قیمتی وقت سوشل میڈیا کی نذر کرتی ہے، پڑھ لیا، کلاس لے لی یا دفاتر میں کام پر چلے گئے لیکن رات ان کی باہر ہی گزرتی ہے، اس طرح کے نوجوان والدین کے نافرمان ہوتے ہیں اور اپنے ماں باپ کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں، من مانی کرکے وہ والدین کو ناراض کرتے ہیں اور اپنے مستقبل کے ساتھ ساتھ اپنی عاقبت بھی خراب کر لیتے ہیں۔

موجودہ حالات کے باوجود ہزاروں طلبا نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے لیکن ملازمتوں کا فقدان اور ڈاکوؤں اور قاتلوں کو کھلا چھوڑ دینا بہت بڑی زیادتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قتل و غارت اور لوٹ مار کرنے والوں سے نجات کا واحد حل یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کو اپنی لیاقت اور صلاحیتوں سے فائدہ پہنچایا جائے اور بدلے میں عزت و تحفظ کے ساتھ شان دار تنخواہ بھی۔ یہ ایسے بدترین حالات ہیں کہ معاشرہ انحطاط کا شکار ہو چکا ہے۔
اقبال نے علم کی اہمیت و وسعت کے بارے میں کیا خوب کہا ہے:

علم بے عشق است از طاغوتیاں
علم باعشق است از لاہوتیاں
انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے اس حوالے سے حدیث مبارکہ بھی ہے علامہ بھی اسی بات کا درس دیتے ہیں:
لطفِ گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکرِ کامل ہم نشین
اقبال کا پیغام نوجوانوں کے لیے:
وہی ہے صاحبِ امروز جس کی اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا
 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

سہیلی کا شوہر چھین کر شادی کرنے والی اداکارہ کی طلاق کی خبریں

ممبئی(شوبز ڈیسک)بالی وڈ میں کئی ایسے فنکاروں نے چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر انٹری دی جنہوں نے وقت کے ساتھ اپنی محنت صلاحیت اور چمک سے مرکزی کرداروں تک کا سفر طے کیا۔ انہی میں سے ایک معصوم چہرے والی اداکارہ بھی ہیں، جنہوں نے محض 15 سال کی عمر میں بطور ہیروئن اسکرین پر جلوہ گر ہو کر سب کو چونکا دیا۔ آج وہ اپنے کیریئر سے زیادہ اپنی ذاتی زندگی کے تنازعات اور الجھنوں کے باعث سرخیوں میں ہیں۔

جی ہاں بات ہورہی ہے بالی وڈ اور ساؤتھ انڈین فلم انڈسٹری میں اپنی جاندار اداکاری اور معصوم چہرے سے لاکھوں دلوں کو جیتنے والی اداکارہ ہنسیکا موٹوانی کی جو کام کے ساتھ ساتھ کئی تنازعات کا شکار ہوچکی ہیں، کبھی مبینہ ایم ایم ایس لیک ہونے اور کبھی ہارمونل انجکشن لینے کی وجہ سے ۔ اب ان کی ذاتی زندگی میں اُٹھنے والے طوفان کی خبریں گرش کررہی ہیں۔

ہنسیکا موٹوانی ان فنکاراؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے بچپن سے شہرت کا ذائقہ چکھا اور جوانی میں کیریئر کو پروان چڑھایا۔ چاہے وہ اداکاری کی بلندی ہو یا ذاتی تنازعات کا دباؤ، ہنسیکا نے ہمیشہ خاموشی اور وقار سے اپنے سفر کو آگے بڑھایا۔

ہنسیکا نے محض 12 سال کی عمر میں 2003 میں ریلیز ہونے والی ہٹ بالی وڈ فلم ’کوئی مل گیا‘ (2003) سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا، جس میں انہوں نے ریتک روشن کے ساتھ اسکرین شیئر کی۔ اس کے صرف ایک سال بعد وہ امیتابھ بچن کی فلم ’ہم کون ہیں‘ میں بھی نظر آئیں۔

لیکن اصل حیرانی اس وقت ہوئی جب صرف 15 سال کی عمر میں ہنسیکا نے 2007 میں تیلگو فلم ’دیسمودورو‘ میں ہیروئن کے طور پر ڈیبیو کیا۔

ان کی اچانک بڑی عمر کی لڑکی کے روپ میں اسکرین پر واپسی نے سب کو چونکا دیا۔ اس پر سوشل میڈیا پر یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ ہنسیکا نے ہارمونی انجیکشنز کا سہارا لیا۔ حالانکہ ان افواہوں کی کبھی باقاعدہ تصدیق نہیں ہوئی، اوراداکارہ نے بھی ہمیشہ پیشہ ورانہ انداز میں اپنا سفر جاری رکھا اورخاموشی سے اپنی محنت سے جواب دیا۔

ہنسیکا نے تامل، تیلگو، اور کنڑا فلموں میں متعدد ہٹ فلمیں دیں، جن میں ’میپلائی‘ (دھنش کے ساتھ) اور ’انجیئم کدل‘ (جیام روی کے ساتھ) شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی خوبصورتی، ڈانس اسکلز اور چمکدار شخصیت کے باعث جلد ہی ایک کامیاب اداکارہ کا مقام حاصل کر لیا۔

سال 2022 میں ہنسیکا نے بزنس مین سہیل کدوریا سے شادی کر کے سب کو حیران کر دیا۔ شادی جے پور میں ایک شاندار تقریب کے دوران ہوئی۔

یہاں قابل ذکربات یہ ہے کہ سہیل، ہنسیکا کی قریبی دوست رنکی بجاج کے سابق شوہر تھے۔ ان کی شادی ختم ہونے کے بعد، سہیل اور ہنسیکا نے دوستی کو رشتہ داری میں بدل دیا اور شادی کر لی۔

اس وقت یہ شادی سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بنی، خصوصاً جب پرانی تصاویر وائرل ہوئیں جن میں ہنسیکا، رنکی کی شادی میں مہمان تھیں۔ بعد ازاں، ہنسیکا اور سہیل نے وضاحت دی کہ وہ ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے تھے اور ان کے درمیان تعلقات وقت کے ساتھ پروان چڑھے۔

حالیہ بھارتی میڈیارپورٹس کے مطابق، ہنسیکا اور سہیل کی ازدواجی زندگی میں تناؤ پیدا ہو گیا ہے۔ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ دونوں کے درمیان سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ اداکارہ اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہیں تو سہیل اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دسمبر 2022 میں شادی کے فوراً بعد وہ سہیل کے والدین کے ساتھ رہنے لگے، لیکن جوائنٹ فیملی میں ایڈجسٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ الگ فلیٹ میں شفٹ ہو گئے۔ بعد ازاں، اداکارہ نے اپنی والدہ کے ساتھ رہنا شروع کر دیا جبکہ سہیل اپنے والدین کے ساتھ ہیں۔

سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ دونوں کے درمیان اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔ تاہم، سہیل کدوریا نے ایک مختصر بیان میں تمام خبروں کو بے بنیاد قرار دیا، مگر اس کے بعد مزید کوئی وضاحت نہیں دی۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • یہ غلط ہو رہا ہے
  • سہیلی کا شوہر چھین کر شادی کرنے والی اداکارہ کی طلاق کی خبریں
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • ایک بھیانک جنگ کا سامنا
  • راولپنڈی میں بھی پسند کی شادی کرنے والی نوجوان لڑکی کو مبینہ طور پر جرگے کے فیصلے پر گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا
  • بلوچستان حکومت کے نوجوان پائلٹس کے تربیتی پروجیکٹ میں اہم پیشرفت
  • ملک سے باہر جانے والے نوجوانوں کے لیے حکومت کا بڑا اقدام کیا ہے؟
  • میٹا کا بچوں اور نوجوانوں کے تحفظ کیلیے نئے حفاظتی اقدامات کا اعلان
  • "پاکستان کا نوجوان باشعور ہے اور اب وہ کسی بھی فتنے کے جھانسے میں نہیں آئے گا: عظمیٰ بخاری
  •  نوجوان 2 گھنٹے تک موٹر سائیکل چلاتا رہا، پیٹرول ٹینک کے نیچے چھپا رہا زہریلا سانپ