’’ڈکی بھائی کی ویڈیوز شرمناک ہیں‘‘، مشی خان کی تنقید
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
اداکارہ مشی خان نے فیملی وی لاگنگ پر ہونے والی تنقید کے درمیان ڈکی بھائی کی ویڈیوز کو ’’شرمناک‘‘ قرار دے دیا ہے۔
مشی خان کا کہنا ہے کہ فیملی وی لاگنگ غلط نہیں ہے، لیکن اس میں بدتمیزی نہیں ہونی چاہیے۔ ڈکی بھائی کی ویڈیوز شرمناک ہوتی ہیں۔
مشی خان نے ایک پوڈ کاسٹ میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ یوٹیوبر شام ادریس اور زید علی کا کانٹینٹ بہت اچھا ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے زید علی کے ’’براؤن مام‘‘ اور ’’براؤن بوائے‘‘ کے کانسیپٹ کی تعریف کی، جو منفرد اور لوگوں میں مقبول تھا۔ تاہم، ان کے بعد آنے والے یوٹیوبرز نے وہ معیار برقرار نہیں رکھا۔
مشی خان نے ڈکی بھائی کی ویڈیوز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کئی سال پہلے ڈکی بھائی کی ایک ویڈیو دیکھی تھی، جس میں وہ گندی گالیاں دیتے ہوئے روسٹنگ کررہے تھے۔ انہوں نے کہا، ’’بچے بھی ان کی ویڈیوز دیکھتے ہیں۔ میں نے صرف 5 سیکنڈ بعد ہی ویڈیو دیکھنا بند کردی تھی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ڈکی بھائی نے شام ادریس کے خلاف جو مہم چلائی، اس میں شام ادریس کو شدید نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن مشی خان کے مطابق، ’’مکافات عمل تو ہوتا ہے، اور سات سال بعد ڈکی بھائی خود ایکسپوز ہو گئے۔‘‘
مشی خان نے کہا کہ فیملی وی لاگنگ لوگوں کو پسند ہے، کیونکہ ہمارے معاشرے میں دوسروں کے گھروں میں دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔ تاہم، انہوں نے زور دیا کہ فیملی وی لاگز میں بدتمیزی نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ لوگ اسے دیکھ کر اپنے گھروں میں بھی ایسا کرنا شروع کردیتے ہیں۔
مشی نے بتایا کہ وہ جلد یوٹیوب پر فعال ہونے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے بھارتی یوٹیوبر دھرو راٹھی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت اچھا کانٹینٹ بناتے ہیں۔
اداکارہ نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر بھی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اسی سلسلے میں بات کی کہ ’’ہمارے ہاں (پاکستان) بھی بہت سے یوٹیوبرز ہیں جو گندی زبان استعمال کرتے ہیں جو گندی گالیاں دے کر اپنا کیرئیر بنا کے بیٹھے ہیں اور اب وی لاگرز بن چکے ہیں، ان میں سب سے ٹاپ پر ڈکی بھائی ہیں جنہوں نے 13،14 سال کے بچوں کو گالیاں سکھائی ہیں، ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ پاکستان میں کوئی کھڑا ہوا ان کے خلاف؟’
A post common by Mishi Khan MK (@mishikhanofficial2)
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
اے آئی کی کارکردگی 100 گنا بڑھانے والی جدید کمپیوٹر چپ تیار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکہ کی سرزمین سے ایک انقلابی اختراع سامنے آئی ہے جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی دنیا کو نئی جہت دے سکتی ہے۔
فلوریڈا یونیورسٹی، یو سی ایل اے اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہرین کی مشترکہ کاوشوں سے تیار کردہ یہ نئی آپٹیکل کمپیوٹر چپ، بجلی کی جگہ روشنی کی توانائی استعمال کرتے ہوئے اے آئی کی پروسیسنگ کو 10 سے 100 گنا تیز تر بنا سکتی ہے۔ یہ تحقیق 8 ستمبر کو معتبر جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ میں شائع ہوئی، جو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکی انجینئرنگ ٹیم نے ایک ابتدائی ماڈل (پروٹوٹائپ) تیار کیا ہے جو موجودہ جدید ترین چپس سے کئی گنا زیادہ کارآمد ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ایجاد اے آئی کے میدان میں طوفان برپا کر دے گی، کیونکہ مشین لرننگ کے پیچیدہ حساب کتاب—جیسے تصاویر، ویڈیوز اور تحریروں میں پیٹرنز کی تلاش (کنوولوشن)—روایتی پروسیسرز پر بھاری بجلی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرتے ہوئے، تحقیق کاروں نے چپ کے ڈیزائن میں لیزر شعاعیں اور انتہائی باریک مائیکرو لینسز کو سرکٹ بورڈز سے براہ راست مربوط کر دیا ہے، جس سے توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ رفتار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
لیبارٹری کے تجربات میں اس چپ نے کم سے کم توانائی خرچ کرتے ہوئے ہاتھ سے لکھے گئے ہندسوں کی پہچان 98 فیصد درستگی سے کر لی، جو اس کی افادیت کا واضح ثبوت ہے۔ فلوریڈا یونیورسٹی کے تحقیقاتی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مطالعے کے شریک مصنف ہانگبو یانگ نے اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور کہا، “یہ پہلی بار ہے کہ آپٹیکل کمپیوٹنگ کو براہ راست چپ پر نافذ کیا گیا اور اسے اے آئی کے نیورل نیٹ ورکس سے جوڑا گیا۔ یہ قدم مستقبل کی کمپیوٹیشن کو روشنی کی طرف لے جائے گا۔”
اسی تحقیق کے سرکردہ ماہر، فلوریڈا سیمی کنڈکٹر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر وولکر جے سورجر نے بھی اس ایجاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، “کم توانائی والے مشین لرننگ حسابات آنے والے برسوں میں اے آئی کی صلاحیتوں کو وسعت دینے کا بنیادی ستون ثابت ہوں گے۔ یہ نہ صرف ماحولیاتی فوائد لائے گی بلکہ اے آئی کو روزمرہ استعمال کے لیے مزید قابل رسائی بنا دے گی۔”
یہ پروٹوٹائپ کیسے کام کرتی ہے؟
یہ جدید ڈیوائس دو ستاروں کے انتہائی پتلے فرینل لینسز کو یکجا کرتی ہے، جو روشنی کی شعاعوں کو کنٹرول کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ کام کا عمل انتہائی سادہ مگر موثر ہے: مشین لرننگ کا ڈیٹا پہلے لیزر کی روشنی میں تبدیل کیا جاتا ہے، پھر یہ شعاعیں لینسز سے گزر کر پروسیس ہوتی ہیں، اور آخر میں مطلوبہ ٹاسک مکمل کرنے کے لیے دوبارہ ڈیجیٹل سگنلز میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے بلکہ حسابات کی رفتار بھی روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتی ہے، جو روایتی الیکٹرانک سسٹمز سے کئی گنا تیز ہے۔
یہ ایجاد ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، مگر ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں یہ اے آئی کی ایپلی کیشنز—صحت، ٹرانسپورٹیشن اور انٹرٹینمنٹ—کو بدل ڈالے گی، اور توانائی بحران کا سامنا کرنے والے عالمی چیلنجز کا بھی حل پیش کرے گی۔ مزید تفصیلات کے لیے جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ کا تازہ شمارہ دیکھیں۔