روسی امریکی مذاکرات سے قبل روسی وزیر خزانہ سعودی عرب میں
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 فروری 2025ء) ماسکو سے اتوار 16 فروری کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق روسی وزیر خزانہ آنٹون سیلوآنوف کا سعودی مملکت کا یہ دورہ اس لیے بہت اہم ہے کہ اس کے ذریعے بالواسطہ طور پر سعودی عرب ہی میں یوکرینی جنگ سے متعلق امریکہ اور روس کے مابین آئندہ ہفتے شروع ہونے والی مکالمت کے لیے راہ ہموار کی جائے گی۔
روسی وزیر خزانہ بظاہر اس لیے بھی سعودی عرب میں ہیں کہ وہاں وہ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں والے ممالک کی العلا کانفرنس میں شرکت کر سکیں۔
اس کانفرنس کا اہتمام سعودی وزارت خزانہ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے مشترکہ طور پر کیا ہے۔
یوکرینی جنگ سے متعلق روسی امریکی مذاکراتسعودی عرب میں روس اور امریکہ کے اعلیٰ حکام کے مابین وہ مذاکرات آئندہ دنوں میں شروع ہوں گے، جن کا مقصد تقریباﹰ تین سال سے جاری روسی یوکرینی جنگ کے خاتمے کی راہ تلاش کرنا ہے۔
(جاری ہے)
'یورپی مسلح افواج' کی تشکیل کا وقت آ گیا ہے، زیلنسکی
اس مکالمت کی تیاریوں کی امریکی کانگریس کے ایک رکن اور سعودی عرب میں کی جانے والی تیاریوں سے باخبر ایک اعلیٰ ذریعے نے بھی تصدیق کر دی۔
دریں اثنا جو روسی وفد اس وقت سعودی عرب میں موجود ہے، اس میں شریک روس کے اول نائب وزیر اعظم ڈینس مانتوروف اور وزیر خزانہ سیلوآنوف نے کل ہفتے کے روز متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان سے بھی ملاقات کی تھی۔
اس ملاقات میں روس کے مرکزی بینک کی خاتون گورنر ایلویرا نابیولینا نے بھی شرکت کی۔
بیرونی ممالک کے ذمے قرضوں سے متعلق روسی پیشکشنیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ سعودی عرب میں دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی العلا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روسی وزیر خزانہ نے کہا کہ روس اس بات پر آمادہ ہے کہ بیرونی ممالک کے ذمے واجب الادا اور ماسکو کی طرف سے دیے گئے قرضوں کی نئے سرے سے تشکیل کر دی جائے۔
روسی یوکرینی جنگ میں بھارتی ریکروٹس کے ڈرا دینے والے تجربات
انہوں نے کہا، ''گزشتہ 25 برسوں میں ہم نے 22 مالک کے ذمے واجب الادا تقریباﹰ 30 بلین ڈالر مالیت کے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کی ہے۔ ساتھ ہی تقریباﹰ اتنی ہی مالیت کے روسی قرضوں کی قرض لینے والے ممالک کے ساتھ دوطرفہ بنیادوں پر بھی ری اسٹرکچرنگ کی گئی ہے۔‘‘
سعودی عرب میں آئندہ مذاکرات میں یوکرین مدعو نہیںیوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے، جن کا ملک گزشتہ تقریباﹰ تین سال سے روس کے خلاف مغربی دنیا اور نیٹو کی عسکری حمایت سے جنگ لڑ رہا ہے، جمعے کے روز جنوبی جرمن شہر میونخ میں ہونے والی سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سے ملاقات کی تھی۔
اس ملاقات کے بعد صدر زیلنسکی نے کہا تھا کہ سعودی عرب میں یوکرینی جنگ کے موضوع تناظر میں روس اور امریکہ کے مجوزہ مذاکرات میں یوکرین کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔
یوکرین کو فرانسیسی اور ڈچ لڑاکا طیارے موصول
ساتھ ہی صدر زیلنسکی نے یہ بھی کہا تھا کہ کییف حکومت اپنے مغربی اسٹریٹیجک پارٹنرز کے ساتھ مشاورت کے بغیر روس کے ساتھ کسی بھی قسم کے رابطوں یا مکالمت کا آغاز نہیں کرے گی۔
سفارتی ہدف ٹرمپ اور پوٹن کی ملاقاتمختلف خبر رساں اداروں کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں کہ سعودی عرب میں ہونے والی بات چیت میں روس کی طرف سے کون حصہ لے گا۔
تاہم امریکی ایوان نمائندگان کے رکن مائیکل میکول نے روئٹرز کو بتایا کہ امریکہ کی طرف سے اس مکالمت میں وزیر خارجہ مارکو روبیو، قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور مشرق وسطیٰ کے لیے وائٹ ہاؤس کے مندوب اسٹیو وٹکوف حصہ لیں گے۔
روس نے 757 یوکرینی فوجیوں کی لاشیں واپس کر دیں
مائیکل میکول کے مطابق سعودی عرب میں اس مکالمت کا سفارتی مقصد یہ ہے کہ مستقبل قریب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے مابین ایک ایسی ملاقات کو ممکن بنایا جائے، جس کے نتیجے میں ''یوکرین کے تنازعے کو ختم کرتے ہوئے باقاعدہ امن قائم کیا جا سکے۔‘‘
م م / ش خ (روئٹرز، اے پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یوکرینی جنگ میں یوکرین روس کے
پڑھیں:
امریکا ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں کریں گے: ایران
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل کی مسلسل حمایت اور مشرق وسطیٰ میں فوجی اڈے برقرار رکھنے پر امریکا کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ امریکی کبھی کبھار یہ کہتے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں لیکن جب تک وہ ملعون صیہونی ریاست (اسرائیل) کی حمایت جاری رکھیں گے اور مشرق وسطیٰ میں اپنے فوجی اڈے اور مداخلت ختم نہیں کریں گے اس وقت تک کسی تعاون کی گنجائش نہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی پیشکش کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایران اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا اور ایسے ملک سے تعلقات قائم نہیں کرسکتا جو خطے میں بدامنی اور اسرائیل کی حمایت کا ذمہ دار ہو۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔
گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ جب ایران تیار ہوگا تو امریکا بات چیت اور تعاون کے لیے تیار ہے، ہمارے لیے دوستی اور تعاون کے دروازے کھلے ہیں۔
خیال رہے کہ ایران اور امریکا کے تعلقات 2018 میں ٹرمپ کے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے کے بعد سے مسلسل کشیدہ ہیں۔