غزہ پٹی میں حماس کا خاتمہ ضروری، امریکی وزیر خارجہ روبیو
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 فروری 2025ء) امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اتوار کے روز غزہ پٹی میں اسرائیلی جنگی مقاصد کی مکمل تائید کرتے ہوئے کہا کہ حماس کو ''ختم ہونا چاہیے۔‘‘ اس اعلیٰ ترین امریکی سفارت کار نے اس تائید کا اعادہ آج 16 فروری کو مشرق وسطیٰ کے اپنے علاقائی دورے کے آغاز پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد کیا۔
روبیو کا بطور وزیر خارجہ اس خطے کا یہ پہلا دورہ ہے تاہم ان کے مذکورہ بالا بیان نے غزہ میں پہلے ہی سے متزلزل جنگ بندی کے مستقبل کو مزید شکوک میں ڈال دیا ہے۔امریکی وزیر خارجہ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فلسطینی آبادی کو غزہ کی پٹی سے باہر منتقل کرنے اور اسے امریکی ملکیت میں دوبارہ تعمیر کرنے کی تجویز پر عرب رہنماؤں کی جانب سےمخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
(جاری ہے)
تاہم اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نےامریکی صدر کے اس منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اور ٹرمپ کے پاس غزہ کے مستقبل کے لیے ''مشترکہ حکمت عملی‘‘ موجود ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکی صدر ٹرمپ کے حماس سے متعلق ایک اور بیان کی بازگشت کے طور پر اپنی طرف سے کہا کہ اگر اس فلسطینی عسکریت پسند گروہ نے سات اکتوبر 2023 کے حملے میں اغوا کیے گئے بقیہ درجنوں اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا، تو وہ غزہ پر''جہنم کے دروازے‘‘ کھول دیں گے۔
ان کا یہ تبصرہ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ ختم ہونے سے صرف دو ہفتے پہلے سامنےآیا ہے۔ دوسرے مرحلے کے تحت بھی حماس کو مزید فلسطینیوں قیدیوں کی رہائی کے بدلے درجنوں باقی ماندہ یرغمالیوں کو رہا کرنا ہے۔
قیدیوں کی تعداد، ایک دیرپا جنگ بندی اور اسرائیلی افواج کے انخلا پر ابھی تک بات چیت باقی ہے۔ روبیو نے کہا کہ حماس ''فوجی یا حکومتی فورس کے طور پر قائم نہیں رہ سکتی۔
‘‘مارکو روبیو کے بقول، ''جب تک یہ (حماس) ایک ایسی طاقت کے طور پر کھڑی ہے، جو حکومت کر سکتی ہے یا ایک ایسی قوت کے طور پر جو انتظامیہ چلا سکتی ہے یا ایسی طاقت کے طور پر جو تشدد کے استعمال سے خطرہ بن سکتی ہے، امن ناممکن ہو جاتا ہے۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا، ''اس (حماس) کا خاتمہ ضروری ہے۔‘‘ تاہم مبصرین کے مطابق اس طرح کی زبان حماس کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کی کوششوں کو پیچیدہ بنا سکتی ہے، جو جنگ میں بھاری نقصان اٹھانے کے باوجود غزہ میں اب بھی ایک طاقت ہے۔
اسرائیلی حملے میں تین پولیس اہلکار ہلاکدریں اثنا اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے اتوار کی صبح جنوبی غزہ میں اس کے دستوں کے قریب آنے والے لوگوں پر فضائی حملہ کیا۔ حماس کے زیر انتظام غزہ پٹی کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ اس حملے میں اس کے تین پولیس اہلکار اس وقت ہلاک ہو گئے جب وہ مصر کے ساتھ سرحد پر واقع رفح بارڈر کراسنگ کے قریب امدادی ٹرکوں کے داخلے کو محفوظ بنا رہے تھے۔
حماس نے کہا کہ یہ حملہ جنگ بندی کی ''سنگین خلاف ورزی‘‘ ہے۔ حماس نے وزیر اعظم نیتن یاہو پر غزہ سیزفائر معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کا الزام بھی لگایا ہے۔ جنگ دوبارہ شروع کرنا باقی یرغمالیوں کے لیے خطرناککئی ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی میں جنگ کا دوبارہ شروع ہو جانا حماس کے زیر حراست باقی ماندہ اسرائیلی یرغمالیوں کے لیے انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیل حماس کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہو، جو 15 ماہ سے زائد دورانیے کی جنگ کے بعد بھی غزہ میں ایک طاقت ہے اور گزشتہ ماہ فائر بندی کے بعد اس نے خود کو تیزی سے غزہ میں پھر کسی حد تک منظم کر لیا تھا۔نیتن یاہو نے اسرائیلی فوج کو سیزفائر کا موجودہ مرحلہ مکمل ہونے کے بعد جنگ دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار رہنے کا اشارہ دیا ہے اور حماس کو ہتھیار ڈالنے اور اپنے سرکردہ رہنماؤں کو جلاوطن کر دینے کا موقع فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔
حماس نے لیکن اس طرح کے کسی بھی منظر نامے کو مسترد کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ابھی تک غزہ پٹی میں موبائل ہومز اور بھاری مشینری کے داخلے کی منظوری نہیں دی، جو کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت ضروری ہے۔
ش ر ⁄ م م، ع ا (اے پی، ڈی پی اے، اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیلی وزیر اعظم امریکی وزیر خارجہ غزہ پٹی میں نیتن یاہو کے طور پر سکتی ہے حماس کو کے بعد نے کہا کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
حماس کا اسرائیل پر اسیر کی ہلاکت کا الزام، غزہ میں امداد کی لوٹ مار کا دعویٰ بھی مسترد
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیلی حراست میں موجود 65 سالہ قیدی محمد حسین غوادرة کی موت کو جیلوں میں جاری مبینہ طبی غفلت اور خراب رویے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی، تشدد اور علاج کی محرومی کی پالیسی منظم انداز میں جاری ہے، تاہم اس طرح کے اقدامات فلسطینیوں کے حوصلے کم نہیں کرسکتے۔
یہ بھی پڑھیں: حماس کی جانب سے واپس کیے گئے اجسام یرغمالیوں کے نہیں،اسرائیل کا دعویٰ
حماس نے کہا کہ فلسطینی اسیران کے حق میں سرگرمیوں میں مزید اضافہ کیا جائے اور عالمی برادری اور انسانی حقوق کے ادارے اسرائیل کو جوابدہ بنائیں۔ اقوام متحدہ سمیت متعدد عالمی تنظیمیں اسرائیلی قید خانوں میں فلسطینیوں کے ساتھ بدسلوکی اور غیر انسانی سلوک پر پہلے ہی تشویش کا اظہار کر چکی ہیں، جبکہ جنگ غزہ کے آغاز کے بعد ایسی شکایات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب حماس نے غزہ میں امدادی سامان کی لوٹ مار سے متعلق امریکی اور اسرائیلی الزامات کو من گھڑت اور گمراہ کن قرار دے دیا ہے۔ غزہ حکومت کے میڈیا آفس کے مطابق یہ الزام فلسطینی پولیس فورس کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پولیس اہلکار امدادی قافلوں کی حفاظت کی ذمہ داری انجام دے رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی یرغمالیوں کی مزید لاشیں کب حوالے کی جائیں گی؟ حماس کا اہم بیان آگیا
میڈیا آفس کے مطابق امدادی کاررواں کی نگرانی اور حفاظت کے دوران اب تک ایک ہزار سے زائد پولیس اہلکار شہید اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ امداد کی چوری نہیں بلکہ اسے محفوظ طریقے سے گوداموں تک منتقل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ کئی بین الاقوامی ادارے بھی تصدیق کر چکے ہیں کہ فلسطینی پولیس نے امداد کی ترسیل میں اہم کردار ادا کیا، جبکہ اسرائیلی فورسز نے جان بوجھ کر پولیس اور رضاکاروں کو نشانہ بنایا تاکہ غزہ میں انتشار اور لوٹ مار کو بڑھایا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: حماس کے غیرمسلح ہونے کے لیے کوئی آخری تاریخ مقرر نہیں کی، امریکا نے واضح کردیا
حماس نے امریکی سینٹرل کمانڈ پر جانبداری کا الزام بھی عائد کیا اور کہا کہ سینٹکام نے اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں، شہریوں کی ہلاکتوں اور امدادی سامان کی رکاوٹوں پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔
واضح رہے کہ سینٹکام کی جانب سے جاری ایک ویڈیو پر امریکی سینیٹر مارکو روبیو نے دعویٰ کیا تھا کہ حماس غزہ کے عوام تک امداد پہنچنے سے روک رہی ہے، اور یہ رکاوٹ صدر ٹرمپ کے امدادی پلان کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسرائیل امداد حماس سینٹکام غزہ قیدی