قومی کرکٹ ٹیم کے سابق وکٹ کیپر اور افغان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ راشد لطیف نے افغان کرکٹ ٹیم کے سپنر راشد خان سابق کپتان وسیم اکرم سے اچھا کرکٹر قرار دیتے ہوئے کہا ہے راشد خان کی وجہ سے افغانستان ٹیم کو صحیح معنوں میں شہرت ملی، مجھے لگتا ہے کہ افغان سپنر راشد خان سوئنگ کے سلطان وسیم سے بڑے کرکٹر ہیں۔

نجی ٹی وی سے گفتگو میں مختلف کرکٹرز کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے سابق کرکٹر راشد لطیف نے قومی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کو مشورہ دیا کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھرپور واپسی کریں کیوں کہ لیجنڈ ہمیشہ ٹیسٹ کرٹ بناتی ہے، وائٹ بال سے کبھی کوئی لیجنڈ نہیں بنتا۔

یہ بھی پڑھیں: ’مجھے لوٹ لیا گیا‘، وسیم اکرم کے ساتھ آسٹریلیا میں کیا واردات ہوئی؟

میزبان نے سوال کیا کہ کہا جاتا ہے کہ شاہین شاہ آفریدی اپنے شاہد آفریدی کے اثرورسوخ میں ہیں، اس پر آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب میں راشد لطیف نے کہا کہ شاہد خان آفریدی سے تو ہم بھی متاثر ہیں، شاہین تو ان کے داماد ہیں، لیکن میرا نہیں خیال کہ وہ زیراثر ہیں، کیوں کہ شاہین آفریدی مینٹلی تگڑے ہیں۔

انہوں نے محمد رضوان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ 40 سال میں اگر کوئی اچھا کریکٹر پاکستان کرکٹ ٹیم میں آیا ہے تو وہ محمد رضوان ہیں، کرکٹ کو سائیڈ پر رکھ دیں تو محمد رضوان بہت اچھے انسان ہیں۔

انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان روہیت شرما کے بارے میں راشد لطیف نے کہا کہ وہ وائٹ بال  کے کھلاڑیوں میں سے ایک بڑے کھلاڑی ہیں، روہیت شرما کو اب انٹرنیشنل کرکٹ چھوڑ دینی چاہیے، چیمپیئنز ٹرافی کے بعد وہ انٹرنیشنل کرکٹ چھوڑ دیں گے، وہ آئی پی ایل کھیلتے رہیں گے۔

سابق وکٹ کیپر نے کہا کہ افغانستان کو پہیچان صحیح معنوں میں راشد خان سے ملتی ہیں، وہ وسیم اکرم سے بھی اچھے کھلاڑی ہیں، اپنے ملک کے حساب سے سب کو دیکھنا چاہیے، میں ان کو مشورہ دوں گا کہ اپنی ٹیسٹ ٹیم کو بہتر کریں اور پاکستان سے جتنی ٹیسٹ کرکٹ کھیل سکتے ہیں کھیلیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’پنگا نہیں لینے کا اپن سے‘، راشد لطیف نے یہ دھمکی کس کو دی؟

انہوں نے کہا کہ تین پلیئرز نے اپنا کیریئر ضائع کیا، سلمان بٹ اچھے کپتان تھے جبکہ محمد آصف جیسا بولر پاکستان میں کبھی آیا ہی نہیں۔’محمد عامر گریٹ ٹیلینٹ، لیکن اپنے آپ کو گنوا دیا، 5 سال بہت ہوتے ہیں، پاکستان کا بھی بہت بڑا نقصان ہوا، اپنا نقصان بھی ہوا اور کرکٹ کا بہت زیادہ نقصان کرگئے یہ لوگ۔

راشد لطیف نے کہا کہ اگر کوئی پلیئر ایک بار کسی غیرقانونی کام میں ملوث پایا جائے تواسے دوبارہ قومی ٹیم میں نہیں آنا چاہیے، عامر سے ملتا بھی ہوں، کوچنگ بھی کی ہے، میرا اختلاف عامر سے نہیں بلکہ کرکٹ کو جو نقصان ہوا اس سے دکھ ہے۔

وسیم اکرم کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ایک بار انگلینڈ میں سائیڈ میچ ہورہا تھا، میں کھیل نہیں رہا تھا، وسیم اکرم مجھے لے گئے پریکٹس کے لیے، میں نے کہا پیچھے بال نہیں کرانا، وسیم اکرم نے دو بالیں کروائیں پھر تیسرا باؤنسر مار دیا، وسیم اکرم، وقار یونس مینٹلی ٹف لوگ ہیں، ان سے ڈریسنگ روم میں ہم نے سیکھا کہ ڈریسنگ روم کا ماحول کیسے رکھنا ہے۔

احمد شہزاد سے متعلق گفتگو میں انہوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ وہ اچھا بولتے ہیں، ان کی اب دوسری فیلڈ ہوگئی ہیں، ان کو اب کرکٹ میں واپس نہیں آنا چاہیے، ان کو اسی فیلڈ میں رہنا چاہیے، ان کے پاس کنٹینٹ اچھا ہوتا ہے، یہ پی سی بی میں جاکر اچھا کام کرسکتے ہیں۔

بابر اعظم کی کرکٹ سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے راشد لطیف نے کہا کہ بابراعظم اب آؤٹ ہونا شروع ہوگئے ہیں، جاوید میاںداد اور یہ دونوں اپنے زمانے میں آؤٹ نہیں ہوتے تھے، اگر آپ نے جاوید میاںداد کے نقش قدم پر چلنا ہے تو آؤٹ نہیں ہونا، ان کو کپتانی سے ہٹا کے شاہین آفریدی کو لایا، پھر ان کو کپتان بنایا پھر ہٹایا، اس سے ان کی طاقت توڑی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ’تم کہاں جاؤ گے سوچو محسن‘ راشد لطیف کی محسن نقوی پر شاعرانہ تنقید

سابق کپتان راشد لطیف کا کہنا تھا کہ شعیب اختر کا ریکارڈ توڑنا بہت مشکل ہے کیونکہ ان کا بالنگ کرنے کا انداز مختلف تھا۔ فاسٹ بولر محمد سمیع کی گیند ایسی تھی جو ہاتھ میں آکر بہت تیز لگا کرتی تھی، محمد سمیع، شعیب اختر کے برابر کے ہی بولر تھے ۔سابق کپتان نے کہا کہ ہم محمد سمیع کو دیکھ نہیں پائے کہ وہ کس فارمیٹ کا کھلاڑی ہے اس کو ٹیسٹ میچ کھلاتے چلے گئے ، وہ وائٹ بال کا بہت اچھا بولر تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news افغانستان بابر اعظم پاکستان راشد خان راشد لطیف رضوان روہیت شرما کرکٹ محمد عامر وسیم اکرم.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان پاکستان راشد لطیف رضوان کرکٹ وسیم اکرم راشد لطیف نے کہا کہ کے بارے میں کرکٹ ٹیم کے وسیم اکرم انہوں نے

پڑھیں:

معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!

بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں حوا کی ایک اور بیٹی معاشرتی سختیوں کی نظر ہوگئی، اگر وہ بالغ اور عاقل ہے تو کیوں اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیوں ہم معاشرے کے باپ بن جاتے ہیں، اگر واقعی طور پر  انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو کیا عدالتیں، پولیس، قانون موجود نہیں۔

کوئی جرگہ، کوئی پنچائت، کوئی مولوی، کوئی سیانہ، کچھ تو ہوگا نا، کیوں ان کی زندگی کا فیصلہ اس طرح سے کرنے دیا گیا؟

کیوں درندگی کا نشانہ بنایا گیا، گولی کھا کے نیچے گر جانے کے باوجود ظالم اپنے انجام سے بے خبرگولیاں برساتے رہے ، جیسے کے کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے۔

کوئٹہ کی ایک مقامی عدالت نے ڈیگاری دہرے قتل پر قبر کشائی کا تو حکم دے دیا، مگر اس سے فرق کیا پڑے گا ؟ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟

اس جرم میں شریک 11 افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا، جسمانی ریمانڈ اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر وہ 2 لوگ جو اپنی جان سے گئے اس کا جواب کون دے گا؟

یہ ایک واقعہ ہے جس پر سب نوحہ کناں ہیں، ناچیز نے عرق ریزی کی تو پتہ چلا کے پچھلے 2 سال میں صرف صوبہ بلوچستان میں ایسے درجنون واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل، پسند کی شادی پر قتل یا جبری رسم و رواج پر قتل، کیا انسانوں کی یہی قدر ہے؟ اس کومذہب سے دوری کہیں یا پسماندگی کہیں، کیا کہیں !

بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ کہیں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آرہا، ہر طرف پستی ہی پستی ہے، آج ہم اپنے گھروں میں موجود اپنی جوان تو دور کی بات چھوٹی بچیوں یا بچوں کو گھروں سے نکالتے وقت کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں، کہ کہیں وہ معاشرے کی سختیوں یا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ نہ بن جائیں۔

قصور کی زینب کس کو یاد نہیں، کیا دوش تھا اسی ننی معصوم کا، وہ پھول جو بن کھلے ہی مرجھا گیا، کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن گیا، ایسے ہزاروں کیس اگر گننے بیٹھ جائیں تو سامنے آجائیں گے، جس معاشرے میں اس قد ر برائی اور شدت پسندی پیدا ہوجائے ایسے میں شعور کو پھیلانا، اسلامی تعلیمات کا پرچارکرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔

میڈیا پر اہم ذمہ داری آتی ہے، استاد پر، مسجد و ممبر پر، غرض ہر اس شخص اور شعبے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے، جہاں سے معاشرے میں شعور کی کرنیں پھیلیں، اور اصلاح کی جاسکے، قانون نافذ کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ عائد ہوتا ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی نہ صرف سزا ہو بلکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔

تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے متعدد بار اپنے انجام کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ وہ وقت دور نہیں اگر آج کسی کے گھر کو آگ لگی ہے تو کل ہمارا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔

افسوس کے ساتھ اس ملک میں بھلے وہ کوئی صوبہ ہو یہاں طاقتور جرائم کر کےضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں اور غریب صرف عدالتوں میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں۔

نور مقدم کیس میں ہم نے کیا دیکھا، وہ باپ جس کی بیٹی جان سے گئی، وہ اپنی بیٹی کے قاتل کو دیکھتا ہوگا تو اس کے کیا احساسات ہوتے ہونگے؟

یہاں سزائے موت دیتے وقت ہزاروں رحم کی اپیلیں، حیلے بہانے کرلئے جاتے ہیں، قرار واقعی سزا ملنے کے بعد ہی کسی قاتل کو قتل کرتے وقت اپنے انجام کا خوف ہوگا، ورنہ ایسےجرائم پر ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے اور مجھ جیسے لکھ لکھ کر آہ و بقا کرتے رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

راؤ علی

بلوچستان کوئٹہ لڑکیاں

متعلقہ مضامین

  • 5 اگست کو احتجاج میں شدت آئے گی، سزائیں دینے والوں کو سوچنا ہوگا: شیخ وقاص اکرم
  • انڈیا بمقابلہ انگلینڈ اولڈ ٹریفورڈ ٹیسٹ، وسیم اکرم نے تیسرے روز کے کھیل کا آغاز گھنٹی بجا کرکیا
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • عمران خان ہی پارٹی لیڈر، شاہ محمود قریشی لیڈ نہیں کرینگے، سلمان اکرم راجہ
  • پارٹی کے لیڈر بانی پی ٹی آئی ہیں شاہ محمود قریشی نہیں: سلمان اکرم راجا
  • پارٹی کے لیڈر بانی پی ٹی آئی ہیں، شاہ محمود قریشی کے لیڈ کرنے کی بات غلط ہے، سلمان اکرم راجہ 
  • شاہ محمود قریشی 9 مئی کو کراچی میں تھے، پراسیکیوشن نے ڈاکٹریاسمین راشد، عمرسرفراز چیمہ کے خلاف کیس ثابت کیا
  • لندن ہائیکورٹ: آئی ایس آئی پر مقدمہ نہیں، معاملہ صرف عادل راجا اور بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے درمیان ہے
  • معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
  • قاسم اورسلیمان عمران خان کے بیٹے نہیں ان کاڈی این اے ٹیسٹ کرایاجائے،افشاں لطیف