نجی معیشت کی ترقی کے امکانات وسیع ہیں ، چینی صدر
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
چین کے صدر شی جن پھنگ نے بیجنگ میں نجی کاروباری اداروں سے متعلق ایک سمپوزیم میں شرکت کی اور اہم خطاب کیا۔ انہوں نے پیر کے روز کہا کہ پارٹی اور ریاست نجی شعبے کی اقتصادی ترقی کے بنیادی پالیسی اصولوں کو مسلسل برقرار رکھے گی ، ان پر عمل درآمد کروائے گی اور ان میں نہ کوئی تبدیلی آنی چاہیے اور نہ ہی آئے گی ۔ انہوں نے کہا کہ نجی شعبے کی اقتصادی ترقی کے وسیع امکانات ہیں، اور نجی کاروباری اداروں اور کاروباری افراد کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔صدر شی نے کہا کہ ہمیں اپنے اعتماد کو مضبوط رکھنا چاہیے اور نجی معیشت کی صحت مند اور اعلیٰ معیار کی ترقی کو فروغ دینا چاہیے۔ انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ نجی شعبے کے کاروباری ادارے اور کاروباری افراد چینی طرز کی جدیدیت کو آگے بڑھانے میں نئی اور مزید بڑی خدمات سرانجام دیں گے۔
چین کے صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ چین کی نجی معیشت نے کافی حد تک وسعت اختیار کر لی ہے اور اس کا حجم بہت زیادہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چینی خصوصیات کا حامل سوشلزم نظام کئی پہلوؤں سے نمایاں فوائد رکھتا ہے۔ سوشلسٹ مارکیٹ معیشت کا نظام اور چینی خصوصیات کا حامل سوشلسٹ قانونی نظام مسلسل بہتر ہو رہا ہے، جو نجی معیشت کی ترقی کو مزید مضبوط تحفظ فراہم کرے گا۔
صدر شی جن پھنگ نے زور دیا کہ اس وقت نجی شعبے کی ترقی میں کچھ مشکلات اور چیلنجز مقامی اور عارضی ہیں جن پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ترقی کی قوت کو برقرار رکھنا، ترقی کے اعتماد کو بڑھانا اور کوششوں کے ذریعے جیت کی روح کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ نجی شعبے کی ترقی کو فروغ دینے کے لئے پالیسی اقدامات کو مضبوطی سے نافذ کرنا موجودہ وقت میں نجی شعبے کی ترقی کو فروغ دینے کا اہم کام ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کاروباری ترقی کی اندرونی قوت سب سے اہم ہے۔
سمپوزیم کے دوران، ہواوے، بی وائے ڈی، نیو ہوپ، شنگھائی ویل سیمی کنڈکٹر کمپنی لمیٹڈ، ہانگ چو یوٹری ٹیکنالوجی، اور شیاؤمی ٹیکنالوجی سمیت 6 نجی کمپنیوں کے نمائندوں نے تقاریر کیں اور نجی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے تجاویز اور مشورے پیش کیے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
معیشت کا استحکام، مربوط حکمت عملی کی ضرورت
کسی بھی ملک کی معیشت کے استحکام میں اس کی ایمانداری، خود انحصاری اور مربوط حکمت عملی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بصورت دیگر ملک قرضوں اور بیرونی امداد پر انحصارکرنے لگتا ہے، جس کے کئی مضر اثرات ملکی معیشت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
پاکستان آئی ایم ایف کے قرضوں میں جکڑا ہوا ملک ہے۔ آئی ایم ایف خود کو ایک غیر جانبدار ادارہ قرار دیتا ہے، لیکن کئی معاشی ماہرین اور نقاد اسے مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکا کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ادارہ سمجھتے ہیں۔
اس کی پالیسیوں کا جھکاؤ اکثر سرمایہ دارانہ نظام کی طرف ہوتا ہے، اور اس کی شرائط اکثر ترقی پذیر ممالک کی سماجی فلاحی اسکیموں کو متاثرکرتی ہیں۔ چنانچہ یہ سوال ابھرتا ہے کہ آیا آئی ایم ایف واقعی غیر جانبدار ہے یا وہ عالمی طاقتوں کے معاشی ایجنڈے کو فروغ دیتا ہے۔
پاکستان میں آئی ایم ایف کا کردار ایک پیچیدہ اور متنازعہ موضوع رہا ہے۔ ہم نے کئی بار آئی ایم ایف سے قرض لیا ہے اور ہر بار ان قرضوں کے ساتھ سخت معاشی شرائط بھی عائد کی گئی ہیں۔ اِن پالیسیوں کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی دیکھی گئی ہے۔
بظاہر تو ان اقدامات کا مقصد معیشت کو مستحکم کرنا ہے، لیکن عام شہری کے لیے ان کے نتائج پریشان کن ہوتے ہیں۔ غربت میں اضافہ اور روزگارکے مواقع میں کمی جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کو چاہیے کہ وہ صرف اعداد و شمار پر نہیں بلکہ انسانی پہلوؤں پر بھی توجہ دے۔
اس کی پالیسیوں میں معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ سماجی تحفظ کی ضمانت بھی ہونی چاہیے۔ قرض کی شرائط میں لچک اور مقامی ضروریات کو سمجھنے کا جذبہ شامل ہونا چاہیے تاکہ عوام پر براہ راست بوجھ نہ پڑے۔
پاکستان کی معیشت گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک ایسی راہ پر گامزن ہے، جہاں بیرونی قرضے قومی بجٹ کا مستقل حصہ بن چکے ہیں۔ یہ قرضے زیادہ تر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیے جاتے ہیں، جن میں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اور سب سے اہم، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) شامل ہیں۔
ہر سال حکومت پاکستان کو اپنے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے، درآمدات کی ادائیگی، زرمبادلہ کے ذخائرکو سنبھالنے اور پرانے قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے نئے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف معیشت پر بوجھ بنتا جا رہا ہے، بلکہ قومی خودمختاری کے لیے بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے۔
قرض لینے کی ایک بڑی وجہ ملک کی غیر متوازن درآمد و برآمد کی پالیسی ہے۔ ہم زیادہ تر اپنی ضروریات کے لیے بیرونی اشیاء پر انحصارکرتے ہیں، جن میں مشینری، پٹرولیم مصنوعات، اور دیگر صنعتی خام مال شامل ہیں، جب کہ برآمدات محدود پیمانے پر ہوتی ہیں۔
ٹیکس نظام کا غیر مؤثر ہونا، سرکاری اداروں میں کرپشن، توانائی کے بحران اور پالیسیوں میں تسلسل کی کمی وہ مسائل ہیں جو قرض لینے کی مجبوری کو جنم دیتے ہیں۔درآمدات (Imports) اور برآمدات (Exports) میں توازن پیدا کرنا کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے نہایت اہم ہے، کیونکہ اس سے تجارتی خسارہ (Trade Deficit) یا تجارتی فائدہ (Trade Surplus) متعین ہوتا ہے۔
ایک پائیدار معیشت کے لیے ضروری ہے کہ درآمدات اور برآمدات کے درمیان توازن برقرار رکھا جائے۔ یہ توازن مختلف پالیسیوں، اصلاحات اور اقدامات کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں توازن پیدا کرنے کے لیے مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے، جیسے برآمدات کو فروغ دینا، صنعتی پیداوار میں اضافہ، مقامی صنعتوں کو فروغ دے کر برآمدی اشیاء کی پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے۔ برآمدی سبسڈی اور مراعات: حکومت برآمد کنندگان کو سبسڈی، ٹیکس میں چھوٹ اور آسان قرضوں کی سہولت دینی چاہیے۔
نئی منڈیوں کی تلاش: بین الاقوامی سطح پر نئی منڈیاں تلاش کی جائیں جہاں ملکی مصنوعات کو فروغ دیا جا سکے۔ معیار میں بہتری: مصنوعات کے معیار کو عالمی معیار کے مطابق بنا کر ان کی مانگ بڑھائی جا سکتی ہے۔
توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو فروغ دیا جائے تاکہ درآمدی ایندھن پر انحصارکم ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ زرعی اصلاحات کے ذریعے دیہی معیشت کو مستحکم کرنا ضروری ہے تاکہ ملک اپنی غذائی ضروریات خود پوری کر سکے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات قرضوں کا استعمال غیر پیداواری منصوبوں یا انتظامی اخراجات پرکیا جاتا ہے، جس سے نہ تو معیشت میں کوئی پائیدار بہتری آتی ہے اور نہ ہی عوام کو کوئی براہ راست فائدہ پہنچتا ہے۔ دوسری طرف، قرضوں پر سود کی ادائیگی ملکی آمدنی کا ایک بڑا حصہ کھا جاتی ہے، جس سے ترقیاتی کام مزید متاثر ہوتے ہیں۔
صورتِ حال سے نکلنے کے لیے صرف وقتی اقدامات کافی نہیں بلکہ طویل مدت کے لیے ایک جامع، دور اندیش اور خود انحصاری پر مبنی پالیسی درکار ہے۔ سب سے پہلے، برآمدات میں نمایاں اضافہ ضروری ہے۔ اس کے لیے زرعی، صنعتی اور آئی ٹی کے شعبوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔
نوجوانوں کو فنی تعلیم اور ڈیجیٹل ہنر سکھا کر عالمی منڈی میں متحرک کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا، مالی شفافیت کو یقینی بنانا اور حکومتی فضول خرچی کو کم کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم بحیثیت قوم اس امر کو تسلیم کر لیں کہ بیرونی قرضہ ایک عارضی سہارا ہے، مستقل حل نہیں، تو ہم ایک ایسے راستے کی طرف بڑھ سکتے ہیں جہاں خود انحصاری، شفافیت اور دیانت داری پر مبنی معیشت فروغ پاسکے گی۔
قرض سے نجات دراصل ایک ذہنی و فکری تبدیلی کا نام ہے، جو اس وقت ممکن ہے جب قیادت، ادارے اور عوام مل کر یہ فیصلہ کریں کہ اب ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے، نہ کہ دوسروں کے سہارے زندگی گزارنی ہے۔ دس جون کو اس سال کا بجٹ پیش کیا جائے گا۔ اگر اس کی نوعیت گزشتہ سال کی مانند رہی، تو مہنگائی میں اضافہ، ٹیکسوں کا بوجھ اور ترقیاتی منصوبوں میں کمی جیسے عوامل عوام کی مشکلات کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ طویل المدتی معاشی حکمت عملی اختیارکرے تاکہ آئی ایم ایف پر انحصار ختم ہو سکے۔ اس میں ٹیکس نظام کی بہتری، برآمدات میں اضافہ، زرعی اور صنعتی ترقی، مقامی سرمایہ کاری کے فروغ اور بدعنوانی کے خاتمے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
تعلیم اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرکے پاکستان انسانی وسائل کو بہتر بنا سکتا ہے، جو معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔دس جون کو اس سال کا بجٹ پیش کیا گیا، اس کی نوعیت گزشتہ سال کی مانند رہنے سے مہنگائی میں اضافہ، ٹیکسوں کا بوجھ اور ترقیاتی منصوبوں میں کمی جیسے عوامل عوام کی مشکلات کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دے، مہنگائی پر قابو پانے کے لیے موثر حکمتِ عملی اپنائے اور ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دے تاکہ عوام کو حقیقی ریلیف میسر آسکے۔