عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون سے متعلق اسٹے برقرار، معاملہ تین رکنی بینچ کے سپرد
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
مولانا سید ارشد مدنی نے حکمرانوں کی در پردہ شہ سے ایک بار پھر فرقہ پرست طاقتوں کو صف بند ہونے کا موقع مل گیا۔ اسلام ٹائمز۔ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے ضمن میں داخل عرضداشتوں پرآج چیف جسٹس آف انڈیا کے روبرو سماعت عمل میں آئی جس کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا نے اہم فیصلہ صادر کرتے ہوئے پچھلی سماعت پر دئیے گئے اسٹے میں توسیع کردی، اس کے ساتھ ہی عدالت نے تازہ عرضداشتوں پر نوٹس جاری کرنے کی بجائے انہیں بطور مداخلت کار درخواست داخل کرنے کی ہدایت دی۔ چیف جسٹس کے حکم پر اب ایک تین رکنی بنچ اپریل کے پہلے ہفتے میں مقدمے کی سماعت کرے گی۔ اس قانون کی مخالفت میں آج بھی پانچ تازہ عرضداشتیں سماعت کے لئے پیش ہوئی تھی، جس پر عدالت نے نوٹس جاری کرنے سے انکار کردیا۔ حالانکہ وکلاء نے عدالت سے بہت گزارش کی کہ آج تک داخل تمام عرضداشتوں کو سماعت کے لئے قبول کر لیا جائے، لیکن عدالت نے کہا کہ کسی بھی چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور عدالت کو یہ حد طے کرنا ہے، لہذا جن عرضداشتوں پر اب تک نوٹس جاری نہیں کیا گیا ہے ان پر اب نوٹس جاری نہیں کیا جائے گا، البتہ انہیں مداخلت کار کی عرضداشت داخل کرنے کی اجازت ہوگی۔
چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار نے آج عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی حمایت اور مخالفت میں داخل تمام عرضداشتوں پر یکجا سماعت کی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باجود مرکزی حکومت نے اپنا حلف نامہ داخل نہیں کیا، جس پر اس قانون کی مخالفت میں عرضداشت داخل کرنے والے وکلاء نے برہمی کا اظہار کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے عرضداشتیں داخل کرنے کا عمل ختم ہو، اس کے بعد ہی مرکزی حکومت تمام عرضداشتوں پر ایک ساتھ حلف نامہ داخل کرے گی۔ آج عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول (نوڈل کونسل) نے اب تک اس مقدمہ میں داخل تمام عرضداشتوں کا نچوڑ پیش کیا، جسے چیف جسٹس نے قبول کیا۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے آج کی قانونی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسٹے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ اس معنی میں بہت اہم ہے کہ اس سے فرقہ پرست عناصر کی شرانگیز سرگرمیوں پر قدغن لگی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی حساس اور اہم مقدمہ ہے، کیونکہ اس قانون کو برقرار رکھنے سے ہی ملک کا اتحاد اور بھائی چارہ محفوظ رہ سکتا ہے۔
مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ فرقہ پرست طاقتوں نے ایک بار پھر اپنے جارحانہ عزائم کا اظہار کردیا ہے اور اس طرح کے معاملوں میں نچلی عدالتوں نے جو غیر ذمہ دارانہ فیصلے دئیے اس سے صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ بابری مسجد پر آنے والے فیصلے کو ہم نے دل پر پتھر رکھ کر قبول کیا تھا کہ چلو اب مسجد مندر کا کوئی تنازع نہیں ہوگا اور ملک بھر میں امن و امان اور بھائی چارے کا ماحول قائم رہے گا، لیکن ہمارا یہ یقین غلط ثابت ہوا، حکمرانوں کی در پردہ شہ سے ایک بار پھر فرقہ پرست طاقتوں کو صف بند ہونے کا موقع مل گیا اور انہوں نے آئین و قانون کی بالادستی کو ختم کرتے ہوئے کئی جگہوں پر ہماری عبادت گاہوں کو اپنا نشانہ بنا ڈالا۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایک واضح اور سخت قانون کی موجودگی میں یہ سب کیا گیا اور مرکزی حکومت خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ بعض صوبائی حکومتوں نے پولس اور انتظامیہ کو آگے کر کے جس طرح فرقہ پرست عناصر کی دانستہ حوصلہ افزائی کی وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر خدانخواستہ یہ قانون ختم ہوگیا تو ملک میں کوئی مسجد، قبرستان، عیدگاہ اور امام باڑہ محفوظ نہیں رہے گا۔ فرقہ پرست عناصر ہر جگہ مندر ہونے کا دعوی کرکے آئے دن تنازعہ کھڑا کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس ابتر صورتحال نے ملک بھر کے تمام انصاف پسند شہریوں کو گہری تشویش میں مبتلا کردیا ہے، مگر اقتدار میں موجود لوگ اس طرح چپ ہیں، جیسے ان کی نظر میں یہ کچھ بھی نہیں۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ ہماری آخری امید عدلیہ ہے ہم نے اپنی قانونی جدوجہد سے کئی بڑے معاملوں میں انصاف حاصل کیا ہے، اس لئے ہمیں یقین ہے کہ اس اہم معاملے میں بھی انصاف کو سربلندی حاصل ہوگی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عبادت گاہوں کے تحفظ تمام عرضداشتوں عرضداشتوں پر ایک بار پھر نوٹس جاری نے کہا کہ قانون کی چیف جسٹس انہوں نے
پڑھیں:
عمرایوب کے اکتوبر 2024 کے احتجاج سے متعلق مقدمے میں وارنٹ گرفتاری جاری
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 جولائی2025ء)اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے گزشتہ سال اکتوبر کے احتجاج سے متعلق مقدمے میں قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے۔4 اکتوبر 2024 کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مظاہرین اور اسلام آباد پولیس کے درمیان اس وقت جھڑپیں ہوئیں، جب سیکڑوں پارٹی کارکنوں نے سیکیورٹی اقدامات اور سڑکوں کی بندش کے باوجود شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس سے چند روز قبل مختلف مقامات پر اکٹھا ہونے کی کوشش کی تھی، اس موقع پر سابق وزیراعظم عمران خان کی دو بہنوں سمیت 100 سے زائد پی ٹی آئی کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔انسداد دہشت گردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے تھانہ شہزاد ٹاؤن میں درج مقدمے کی سماعت کی۔(جاری ہے)
پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے وکلا سردار مصروف خان، زاہد بشیر ڈار، مرتضیٰ طوری اور مرزا عاصم عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے دوران، جج طاہر عباس سپرا نے عمر ایوب کے خلاف قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے ان تمام ملزمان کی ضمانتیں منسوخ کرنے کا حکم دیا جو آج عدالت میں پیش نہیں ہوئے تاہم، جج نے سینیٹر اعظم سواتی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کر لی، جو وکیل کے مطابق گزشتہ روز جمع کرائی گئی تھی، بعد ازاں، عدالت نے مزید سماعت 30 جولائی تک ملتوی کر دی۔
گزشتہ روز جاری کردہ ایک ویڈیو بیان میں وکیل مصروف خان نے ان مقدمات کی سماعت کی رفتار پر افسوس کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ بعض ملزمان دور دراز علاقوں جیسے آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کے مردان سے آئے تھے، جنہیں اسلام آباد میں رات گزارنے کی کوئی جگہ نہیں ملی۔انہوں نے کہا کہ اگر ان مقدمات کو اس طرح بلڈوز کیا جائے گا اور آپ انہیں منصفانہ ٹرائل کا موقع نہیں دیں گے تو انصاف کی فراہمی ممکن نہیں رہے گی، وکیل نے عدالتوں سے اپیل کی کہ صرف ان افراد کو سزا دی جائے جو واقعی قصوروار ہیں، بے گناہوں کو نہ پھنسایا جائے۔یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے، جب حالیہ دنوں میں 2 انسداد دہشت گردی عدالتوں نے 9 مئی 2023 کے پٴْرتشدد ملک گیر فسادات سے متعلق مقدمات میں پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں کو 10، 10 سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔لاہور کی اے ٹی سی نے 8 رہنماؤں کو 10 سال قید بامشقت کی سزا دی، جب کہ 6 کو بری کر دیا، سرگودھا کی اے ٹی سی نے بھی ایم این اے احمد چٹھہ اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر سمیت 32 ملزمان کو سزا سنائی تھی۔مئی میں اسلام آباد پولیس کی پراسیکیوشن نے 4 اکتوبر کے احتجاج پر کورال تھانے میں درج مقدمے میں پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت (جن میں عمر ایوب، چیئرمین گوہر خان، کے پی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر محمد علی سیف) کو بھی نامزد کیا۔اسی مہینے، لاہور کی اے ٹی سی نے پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر اور رانا شہباز احمد کو دو مقدمات میں مفرور قرار دیا، جو مبینہ طور پر پنجاب پولیس پر حملے اور مینارِ پاکستان کی جانب مارچ کے دوران درج کیے گئے تھے۔وفاقی دارالحکومت کے نون اور رمنا تھانوں میں بھی ان جھڑپوں سے متعلق دیگر مقدمات درج کیے گئے تھے۔