تاجکستان سے بلوچستان تک پانی لانے پر غور کر رہے ہیں،صدر مملکت
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
(سی پیک) اور گوادر پورٹ علاقائی تجارت اورخوش حالی کے فروغ میں اہم کردار ادا کریں گے
پاکستان کا اسٹریٹجک محل وقوع علاقائی تجارت بڑھانے کے لیے اہم مواقع فراہم کرتا ہے ، خطاب
صدرمملکت آصف علی زرداری نے علاقائی روابط مضبوط کرنے کے لیے پاکستان کا عزم دہراتے ہوئے کہا ہے کہ تاجکستان سے بلوچستان تک پانی لانے پر غور کر رہے ہیں اور فزیبیلٹی اسٹڈی مکمل کرلی گئی ہے ۔اسلام آباد میں ’’علاقائی روابط اور پاکستان:ابھرتے مواقع‘‘ کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے علاقائی روابط اور اقتصادی تعاون مضبوط بنانے کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ پاک ۔چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اور گوادر پورٹ علاقائی تجارت اورخوش حالی کے فروغ میں اہم کردار ادا کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا اسٹریٹجک محل وقوع علاقائی تجارت بڑھانے کے لیے اہم مواقع فراہم کرتا ہے ، پاکستان چین، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کو جوڑنے کے لیے قدرتی تجارتی راہداری ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ اپنی طویل قید کے دوران گوادر پورٹ کا چین سمیت دوست ممالک کے ساتھ مشترکہ اقتصادی مرکز کے طور پر تصور کیا، سی پیک اور گوادر ہماری آنے والی نسلوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے ۔صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان تاجکستان سے بلوچستان تک پانی لانے پر غور کر رہا ہے ، تاجکستان سے پانی لانے کے لیے متحدہ عرب امارات کے تعاون سے فزیبلٹی اسٹڈی مکمل کر لی گئی ہے ۔ آصف علی زرداری نے خطے میں اقتصادی اور ثقافتی تعلقات مزید مضبوط بنانے کے لیے تاریخی تجارتی راستے بحال کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔کانفرنس سے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بھی خطاب کیا اور سی پیک کے تصور، آغاز اور نفاذ میں صدر آصف علی زرداری کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ گوادر بندرگاہ کو جدید ترین سہولیات کے ساتھ ایک اہم عالمی بندرگاہ میں تبدیل کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ گوادر بندرگاہ بلوچستان کے عوام کے لیے امید اور مواقع کی علامت ہے ، سی پیک پاکستان اور چین کے درمیان دیرینہ دوستی کا عکاس ہے ، حکومت بلوچستان میں گورننس، عوامی تحفظ، سماجی ترقی اور مقامی کمیونٹیز کو بااختیار بنانے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے ۔تقریب سے پاکستان چائنہ انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھی خطاب کیا، انہوں نے کہا کہ سی پیک نئے روابط اور علاقائی شراکت داری کو فروغ دینے میں اہم ثابت ہوگا۔مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں روابط، اقتصادی، ثقافتی، تجارتی اور عوامی روابط کے لیے دلچسپی پیدا ہوئی، پاکستان علاقائی روابط کے فروغ میں اہم کھلاڑی کے طور پر ابھر رہا ہے ۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
بھارتی جوہری مواد سے تابکاری جاری
ریاض احمدچودھری
انڈین اٹاامک انرجی ریگولیشن بورڈ نے براہموس میزائلوںکی سٹوریج سائٹ پر پاکستان کے حملے کے بعد وہاں سے جوہری مواد سے تابکاری کا الرٹ جاری کیا ہے۔بھارتی حکومت نے انڈین نیشنل ریڈیولاجیکل سیفٹی ڈویژن کے ذریعے، بیاس، پنجاب کے قریب 10مئی کو برہموس میزائل اسٹوریج سائٹ پر پاکستان کے حملے کے بعد 3سے 5کلومیٹر کے دائر ے میں مقیم لوگوں کو تابکاری کے اخراج کی وجہ سے فوری طورپر انخلاء کرنے گھرسے باہر نہ نکلنے ، کھڑکیاں بند کرنے، زیر زمین پانی کے استعمال سے گریز کرنے اور باہر نکلنے کی صورت میں حفاظتی ماسک پہننے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس تشویشناک صورتحال سے واضح ہوتاہے کہ بھارت کا جوہری پروگرام غیر محفوظ ہے جس سے خطے میں ماحولیاتی خرابی پیداہونے کے ساتھ ساتھ تابکاری پھیلنے کا خطرہ ہے۔
بھارت کے جوہری پروگرام کو فوری طور پر بند کیاجانا چاہیے۔ پاکستان اب قانونی طور پر اس مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھا سکتا ہے، آئی اے ای اے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے اداروں پر زور دے سکتا ہے کہ وہ بھارت کے جوہری اثاثوں کو بین الاقوامی نگرانی میں رکھیں اور پابندیوں پر غور کریں۔بھارت کا ٹریک ریکارڈ، بشمول مارچ 2022میں پاکستان پر برہموس میزائل کی حادثاتی فائرنگ، لاپرواہی کے خطرناک رحجان کی عکاسی کرتا ہے۔
مودی حکومت جوہری مواد کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے میں مصروف ہے، جس کے باعث یورینیم چوری، اسمگلنگ اور ایٹمی مواد کی بدانتظامی بھارت کی تاریخ کی سنگین مثال بن چکی ہے۔یہ تمام صورتحال بھارتی سیکیورٹی کی ناکامی اور مودی کی نااہلی و غفلت کو بے نقاب کرتی ہے، بین الاقوامی میڈیا مشرقی جھارکھنڈ ریاست میں تین سرکاری کانوں سے نکلنے والے تابکاری فضلے کو صحت کے لیے سنگین خطرہ قرار دے چکا ہے۔ انتہا پسند مودی کا جوہری جنون عوام کی صحت اور زندگیوں کو تابکاری کے سنگین خطرات سے دوچار کر رہا ہے، جھارکھنڈ کے یورینیم ذخائر کو جوہری ہتھیاروں سے جوڑنا مودی حکومت کے سیاسی ہتھکنڈوں اور غیر ذمہ داری کا واضح ثبوت ہے۔ مودی حکومت کا جوہری ایجنڈا خطے میں کشیدگی اور عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔امریکہ کے دارا لحکومت واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل تھریٹ انڈیکس کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے۔جو دنیا کے170ممالک کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت، ان کے پھیلاؤ اور عدم پھیلاؤ پر تحقیق کرتا ہے۔بعد از تحقیقات یہ ادارہ ایک رپورٹ شائع کرتا ہے،جس میں اس بات کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ کس ملک کے ایٹمی ہتھیار زیادہ محفوظ ہیں اور کس ملک کا حفاظتی انتظام ناقص ہے۔
این ٹی آئی انڈیکس کی جوہری، تابکاری سلامتی کی درجہ بندی کے مطابق پاکستان جوہری مواد کی سکیورٹی امور میں 19ویں نمبر پر براجمان ہے۔پاکستان کے بعد ہندوستان، ایران اور شمالی کوریا کا درجہ ہے۔ پاکستان کا رواں سال 3 مزید پوائنٹس حاصل کرکے جوہری مواد کی سلامتی میں اسکور 49پر پہنچا، پاکستان نے 2020ء کے مقابلے میں 3پوائنٹس، 2012ء کے مقابلے میں 18 پوائنٹس بہتری دکھائی۔ ہندوستان میں جوہری سلامتی کو درپیش خطرات کے باعث سکور جوں کا توں یعنی 40 رہا، جوہری تنصیبات کی سلامتی میں پاکستان 47میں سے 32 ویں نمبر پر رہا ہے۔
بھارتی صحافی اور سماجی کارکن کاویہ کرناٹیک نے کہا ہے کہ بھارت کے جوہری طاقت ہونے کی اصل قیمت جھارکھنڈ کے بھولے بھالے لوگ اور تباہ شدہ دیہات ادا کررہے ہیں جہاں جوہری فضلہ پھینکنے کی وجہ سے لوگوں کو جلتی ہوئی زمین، زہر آلود پانی اور آہستہ آہستہ موت کا سامنا ہے۔ کاویہ نے انکشاف کیا کہ جھارکھنڈ جو بھارت کے یورینیم اور کوئلے کا سب سے بڑا حصہ پیدا کرتا ہے، بنجر زمین میں تبدیل ہو چکا ہے۔ہم نے انہیں ملازمتیں فراہم کرنے کے بجائے معذوری دی ہے۔ جادو گورا نامی گائوں کی حالت المناک ہے کہ وہاں ہرپانچ میں سے ایک عورت اسقاط حمل سے گزرتی ہے کیونکہ ہم نے اپنا ایٹمی فضلہ وہاں پھینک دیا ہے۔ جھارکھنڈ میں ہر تیسرا آدمی کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہے جبکہ لوگ اپنے پورے جسم پر دھبوں اور پگھلے ہوئے چہروں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ آدھے بچوں کو ذہنی کمزوری کا سامنا ہے۔ کوئلہ پیدا کرنے والے ایک علاقے میں ضرورت سے زیادہ کھدائی کی وجہ سے مٹی خود بخودجل رہی ہے اور لوگ آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
کاویہ نے حکومت کے ترقی کے دعوئوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ بھارت وشوا گرو بن گیا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ممبئی میں بڑی فلک بوس عمارتیں ہیں لیکن اس میں دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی بھی ہے جہاں تقریبا بیس لوگ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے ہیں جو بارش میں پانی سے بھر جاتا ہے۔ دارالحکومت نئی دہلی میں لوگوں کو ایسا پانی پلایا جاتا ہے جو پیٹرول کی طرح دکھتا ہے۔آپ باقی بھارت کی صورتحال کا تصور اسی سے کر سکتے ہیں۔شہری خوشحالی کے سرکاری دعوئوںکی مذمت کرتے ہوئے کاویہ نے کہاکہ ہماری فلموں نے ہمیں سکھایا ہے کہ ممبئی اور دہلی رہنے کے لیے بہترین جگہیں ہیں جس سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ بھارتی شہر دنیا میں سب سے بدترین ہیں ، چاہے وہ آلودگی کا معاملہ ہو یا قدرت سے ہم آہنگی کا۔کچی آبادیوں میں بھی وائٹنر جیسی منشیات پہنچ چکی ہیں۔جب ہم باہر نکلتے ہیں، خاص طور پر خواتین کے طور پر، ہمیں کوئی تحفظ نہیں ہوتا۔ صحافی ایسی چیزوں کو رپورٹ نہیں کرتے کیونکہ وہ اسے بے نقاب نہیں کرنا چاہتے۔کاویہ کے انکشافات بھارت کی نام نہاد اقتصادی ترقی کے دعوئوں اور ماحولیاتی تباہی کی قلعی کھول دیتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غریب ترین علاقے کس طرح بھارت کے جوہری اور صنعتی طاقت کے حصول کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔