آرمی چیف کا برطانیہ میں پُر تپاک استقبال، گارڈ آف آنر پیش کیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
لندن: دورہ برطانیہ کے پہلے دن آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا شاندار استقبال کیا گیا ۔
ذرائع کے مطابق دورہ برطانیہ پر پہنچنے پر آرمی چیف کو تاریخی رائل ہارس گارڈز پریڈ گراونڈ میں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا ، گارڈ آف آنر کے دوران برطانوی ملٹری بینڈ کی طرف سے پاکستان کا قومی ترانہ بھی بجایا گیا، دورہ برطانیہ کے دوران آرمی چیف برطانوی عسکری اور سول قیادت سے اہم ملاقاتیں کریں گے ۔
دورہ کے دوران آرمی چیف برطانوی آرمی یونٹس کا دورہ بھی کریں گے، آرمی چیف کا دورہ برطانیہ دونوں ممالک کے درمیان مستحکم اور دائمی تعلقات کا آئینہ دارہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: دورہ برطانیہ ا رمی چیف
پڑھیں:
برطانیہ میں 14 سالہ لڑکے کا والدین پر زبردستی دوسرے ملک بھیجنے کا مقدمہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن میں ایک نہایت حیران کن اور قانونی پیچیدگیوں سے بھرپور واقعہ سامنے آیا ہے جہاں 14 برس کے ایک بچے نے اپنے والدین کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی ہے۔
بچے کا الزام ہے کہ اس کے والدین نے اسے دھوکا دے کر برطانیہ سے مغربی افریقی ملک گھانا بھیجا، جہاں اس کی مرضی کے خلاف اسے بورڈنگ اسکول میں داخل کر دیا گیا۔
مقامی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ صرف خاندانی اختلاف تک محدود نہیں رہا بلکہ قانونی دائرہ اختیار، بچوں کے حقوق اور والدین کی ذمہ داری جیسے نازک معاملات کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
یہ واقعہ تازہ تو بہرحال نہیں، یہ مارچ 2024 میں اُس وقت شروع ہوا جب لڑکے کے والدین نے اسے بتایا کہ گھانا میں اُن کا ایک قریبی عزیز سخت بیمار ہے اور اس کی عیادت کے لیے جانا ضروری ہے۔ لڑکے نے اس سفر کو عارضی سمجھا اور والدین کے ہمراہ روانہ ہو گیا،لیکن جیسے ہی وہ گھانا پہنچا، اسے اچانک ایک مقامی بورڈنگ اسکول میں داخل کرا دیا گیا اور اس سے اس کی مرضی یا رضامندی نہیں لی گئی۔ یہاں تک کہ اسکول سے باہر جانے یا واپس لندن لوٹنے کی بھی اجازت نہ دی گئی۔
مذکورہ بچے نے جب خود کو اس صورت حال میں قید پایا تو اس نے مختلف ذرائع سے قانونی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی، جو بالآخر اسے برطانوی ہائی کورٹ تک لے گئی۔
بچے کی طرف سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ اسے بغیر اس کی مرضی کے نہ صرف برطانیہ سے نکالا گیا بلکہ ایک اجنبی ملک میں چھوڑ دیا گیا جہاں اس کی کوئی آزاد مرضی یا رائے نہیں مانی جا رہی۔
فروری 2025 میں ہائی کورٹ نے اس معاملے پر والدین کے حق میں فیصلہ سنایا۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ والدین کا اقدام اس نیت سے تھا کہ وہ اپنے بچے کو لندن کے خراب ماحول سے بچانا چاہتے تھے، جہاں اُن کے خیال میں وہ منفی اثرات کا شکار ہو رہا تھا۔ والدین کا مؤقف تھا کہ گھانا کا ماحول زیادہ اخلاقی، محفوظ اور تعلیمی ترقی کے لیے موزوں ہے، اور یہ قدم ان کے والدینی اختیار کے دائرے میں آتا ہے۔
تاہم یہ مقدمہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ لڑکے نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی اور اپیل کورٹ نے جون 2025 میں نہ صرف بچے کی فریاد سنی بلکہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مقدمے کا دوبارہ جائزہ لینے کا حکم بھی جاری کر دیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ نچلی عدالت نے بچے کے جذبات، خیالات اور خواہشات کو نظرانداز کیا، حالانکہ بچہ خود مدد کے لیے عدالت سے رجوع کر چکا تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایسے معاملات میں صرف والدین کی نیت یا سوچ ہی کافی نہیں، بلکہ بچے کی آزادی، ذہنی کیفیت اور فلاح کو بھی برابر اہمیت دی جانی چاہیے۔
یہ معاملہ صرف ایک خاندان کا ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ برطانیہ میں بچوں کے حقوق کے قانون، والدین کے اختیارات اور بین الاقوامی سرزمین پر بچوں کی رضامندی جیسے حساس موضوعات کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ خاص طور پر جب والدین کسی بچے کو برطانیہ سے باہر کسی اور ملک میں بہتر تعلیم یا تربیت کی بنیاد پر لے جاتے ہیں، تو قانون اس عمل کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ آیا یہ والدین کا اختیار ہے یا بچے کا بنیادی حق کہ وہ خود اپنی جگہ اور تعلیم کے حوالے سے رائے دے سکے؟
قانونی ماہرین کے مطابق یہ کیس مستقبل میں برطانیہ میں والدین اور بچوں کے باہمی حقوق و اختیارات کے حوالے سے ایک اہم مثال بن سکتا ہے۔ اگر اپیل کورٹ کا فیصلہ بچے کے حق میں آتا ہے تو ممکن ہے کہ مستقبل میں ایسے والدین کو قانونی طور پر بچے کی مرضی کے بغیر کسی دوسرے ملک میں رکھنے یا بھیجنے سے روکا جائے۔
یہ بھی غور طلب ہے کہ یہ معاملہ صرف قانونی یا خاندانی نہیں بلکہ نفسیاتی سطح پر بھی پیچیدہ ہے۔ ایک 14 سالہ لڑکا جو لندن کے جدید اور آزاد ماحول سے واقف ہو، اسے اچانک گھانا کے کسی روایتی بورڈنگ اسکول میں چھوڑ دینا یقیناً اس کی ذہنی حالت، جذبات اور آزادی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔
کیس اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور ماہرین قانون کے ساتھ ساتھ عوام کی نظریں بھی اس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ عدالت کس حد تک بچے کے جذبات اور آزادی کو ترجیح دیتی ہے۔ کیا برطانوی عدلیہ اس کیس میں ایک نئی نظیر قائم کرے گی یا والدین کے اختیار کو ہی بنیادی حیثیت دے گی، اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہوگا۔