کسی کے آنے کی آمد عام طور پر خوش گوار ہوتی ہے اور اس کے استقبال کی تیاریاں بھی بڑے پیمانے پر کی جاتی ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ آنے والا کون ہے اور اس کی تیاریاں کیسے کی جائیں۔ فی الوقت ہم رمضان المبارک کی بات کر رہے ہیں اور اس کی آمد نہ صرف ایک مسلمان کے لیے بلکہ اْمتِ مسلمہ کے علاوہ دنیا کے ہر فرد کے لیے عالمی پیمانے پر خیر و برکت کا باعث ہوتی ہے۔ ماہ رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ تقویٰ، پرہیزگاری، ہمدردی، غمگساری، محبت و الفت، خیر خواہی، خدمتِ خلق، راہ خدا میں استقامت، جذبۂ حمیت اور جذبۂ اتحاد، اللہ اور رسولؐ سے بے انتہا لو لگانے کا مہینہ ہے۔ لہٰذا اْس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی تیاری کرنا ہوگی جن صفات کی جانب ماہِ رمضان ہماری توجہ مبذول کراتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں قرآن نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی، شبِ قدر رکھی گئی، فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا۔ اس کے تینوں عشروں کو مخصوص اہمیت دی گئی، پھر اس ماہ میں زکوٰۃ، انفاق اور فطرانے کا اہتمام کیا گیا۔ نتیجتاً ماہِ رمضان المبارک کی عبادات کے درجات بہت زیادہ بلند کر دیے گئے۔ ضروری ہے کہ ہم اِس ماہ کی حیثیت کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔ قبل اس سے کہ رمضان کی آمد آمد ہو، ہم اپنے ظاہر و باطن کو اس کے لیے یکسوکر لیں۔
رمضان المبارک: تین اہم واقعات
رمضان المبارک کے یہ وہ تین واقعات ہیں جنھوں نے دنیا کی صورت یک سر تبدیل کردی۔ یہ صحیح ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں بنائی جانے والی حکمت عملی، لائحہ عمل اور تدابیر وضع کرنے کے نتیجے میں ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ ابتدائی تین واقعات وہ مینارٔ نور ہیں جن کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ امت بحیثیت پوری امتِ مسلمہ اور مسلمان بحیثیت فرد کامیابی سے ہم کنار ہو۔ لہٰذا کامیابی کے حصول کے مراحل میں یہ واقعات ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔
نزولِ قرآن: واقعہ یہ ہے کہ قرآن نے حیاتِ انسانی کو جِلا بخشی اور دنیا کو تاریکی، گمراہی اور شرک کی جڑوں سے نجات دلائی۔ لہٰذا ہماری ذمے داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے شب وروز میں پیش آنے والے معاملات میں نافذ کریں۔ اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں۔ اس کے پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔ اس کے قیام کی سعی و جہد کریں اور اس کو وہ اہمیت دیں جو اس کا حق ادا کر دے۔
غزوۂ بدر: یہ واقعہ اْس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علَم بردار اِس سعی و جہد میں اپنی تمام نعمتوں کو اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں، جو اس نے عطا کی ہیں۔ اللہ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے جس کے ذریعے انسان اور حیوان میں فرق نمایاں ہونا چاہیے۔ اللہ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعے خیر و فلاح کے کام انجام دیے جانے چاہییں۔ اللہ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعے جہالت، گمراہی اور باطل نظریہ ہاے افکار سے چھٹکارا پایا اور دلایا جانا چاہیے۔ اللہ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کے کاموں میں استعمال کیا جانا چاہیے۔ اللہ نے جان دی ہے جس کے ذریعے نظامِ باطل کو زیر کیا جاسکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے۔ لیکن اس آخری انتہا سے قبل لاز م ہے کہ وہ کام انجام دیے جائیں جن کا آغاز ہر شخص اپنی ذات سے کر سکتا ہے۔ لیکن اللہ کی راہ میں جان دینے کا کام اجتماعی ہوگا اور یہ اْسی وقت ہوگا جب اس کا تقاضا ہو، فی الوقت اس کی ضرورت وطنِ عزیز میں محسوس نہیں ہوتی۔
فتح مکہ، فتح مبین: تیسرا واقعہ فتحِ مبین ہے: یہ واقعہ اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ حق کے علَم بردار دنیا میں بھی سرخ رْو ہوں اور آخرت کی ابدی کامیابی بھی حاصل کریں۔ یہ واقعہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ اللہ کا گھر اور وہ مقام جو اللہ کی عبادت کے لیے مختص کرلیا گیا ہو وہ شرک اور بت پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔ یہ زمین اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہے، لہٰذا اس میں باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔ یہ زمین وہ ہے جہاں اللہ کے نام لینے والے اللہ کے آگے سربجود ہوتے ہیں، اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس سے اپنی توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں، اور اسلامی فکر میں اجتماعی روح پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل کریں تو وہ مزید اللہ کی بڑائی بیان کرنے والے بن جائیں۔ ان کی گردن غرور و تکبرکے محرکات سے اکڑے نہیں بلکہ مزید وہ اللہ کے آگے جھک جانے والی بن جائے۔ فائدہ یہ ہوگا کہ اْن میں انسانوں سے مزید خیر خواہی کے جذبات ابھریں گے جس کی آج شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
یہ تین واقعات اس جانب بھی متوجہ کرتے ہیں کہ ماہِ قرآن کے استقبال، اس سے استفادے اور اس کے بعد کے ایام میں ہمیں اپنے ظاہر و باطن میں وہ تبدیلیاں پیدا کر لینی چاہییں جن کے نتیجے میں اللہ اور اس کے بندوں کے ہم محبوب بن جائیں۔
یکسو ہو جائیے!
آج اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی بقا و تحفظ کے لیے ان اقدامات کی ضرورت ہے جو دنیا میں رواج پا چکے ہیں تو یہ نہ صرف ہماری کم عقلی ہوگی بلکہ دین کی تعلیمات سے دوری بھی نمایاں کرے گی۔ علمی میدان میں ترقی، معاشی میدان میں ترقی، عورتوں کی آزادی اور بالا دستی، صنعت و حرفت میں پیش قدمی، سائنس و ٹکنالوجی میں دریافتیں، چاند اور مریخ پر کمندیں، یہ اور ان جیسے تمام نعروں میں اس وقت تک کوئی دم نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام کے سانچے میں نہ ڈھلے ہوں۔ ہم دینی مدارس کھولتے ہیں، کلمہ اور نماز کی تبلیغ کرتے ہیں، فسق و فجور کے خلاف وعظ و تلقین کرتے ہیں اور گمراہ فرقوں کے خلاف مورچے لگاتے ہیں، حاصل؟؟ حاصل یہ کہ بس جس رفتار سے دین مٹ رہا ہے اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے دْور ہوتا جا رہا ہے، اس کے مٹنے میں ذرا سستی آجائے اور زندگی کو سانس لینے کے لیے ذرا کچھ دن اورمیسر آجائیں۔ لیکن یہ امید کبھی نہیں کی جا سکتی کہ اللہ کا دین غالب آجائے یا اللہ کا کلمہ عوام الناس کے دلوں کی دھڑکن بن جائے۔ پھر یہ خیال کہ موجودہ نظام تو انھی بنیادوں پر قائم رہے، مگراخلاق، معاشرت، معیشت، نظم و نسق یا سیاست کی موجودہ خرابیوں میں سے کسی کی اصلاح ہو جائے گی، تو یہ بھی کسی تدبیر سے ممکن نہیں۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظام، زندگی کی بنیادی خرابیوں کا آفریدہ اور پروردہ ہے اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں کا سہارا مل رہا ہے۔ ایسے حالات میں جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے ایک جامع پروگرام ناگزیر ہے، جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری کرے۔ وہ کامل پروگرام کیا ہے؟ اس سے قبل یہ سوال اہم بن جاتا ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟ اس موقعے پر ہم یہ بتاتے چلیں کہ اسلام اور جاہلیت کا ملا جلا مرکب، جو اَب تک ہمارانظامِ حیات بنا ہوا ہے، زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اور آخرت میں بھی!
داعی حق بن جائیے!
انسان جب کسی کا غلام بن جائے تو لازم ہے کہ اس کو غلامی سے نکالا جائے۔ انسان جسمانی اور عقلی بنیادوں پر آزاد پیدا کیا گیا ہے اور ساتھ ہی وہ اللہ کا بندہ بھی ہے۔ لہٰذا اس کے جسم اور اس کی فکر کو ہر سطح پر غلامی سے نجات دلانا اولین فریضہ ہے۔ ڈی کنڈیشنگ جسے عرفِ عام میں تطہیرِ فکر و قلب کہہ سکتے ہیں، یہ عمل انسان کو ہر طرح کی نفسیاتی غلامی کے خاتمے کا عمل ہے۔ لیکن یہ عمل انھی افراد کو نفسیاتی غلامی سے آزاد کر سکتا ہے جن میں یہ خواہش موجود ہو۔ جس شخص میں یہ جذبہ ہی نہ ہو اسے آزاد کروانا بہت مشکل ہے۔ ڈی کنڈیشنگ کا عمل، نفسیاتی آزادی کا عمل یا تطہیرِ فکر و قلب کا عمل ان لوگوں کے لیے آسان ہے جو داعی الی الخیر کی ذمے داری انجام دیتے ہیں۔ اور یہی وقت کا تقاضا بھی ہے کہ ہم داعیِ حق بن جائیں۔ لیکن داعی حق کے لیے لازم ہے کہ وہ غیر ضروری بحث و مناظرے سے بچے۔ دین کے بہت سے پْرجوش داعی خواہش رکھتے ہیں کہ مخاطب چند گھنٹوں میں تبدیل ہو کر ان کا نقطۂ نظر قبول کر لے۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔ داعیِ حق کے لیے اخلاصِ نیت پہلی شرط ہے تو وہیں دوسری یہ کہ کارِ دعوت کا مقصد کسی شخص کو گھیر گھار کر اپنے نقطۂ نظر پر قائل یا لاجواب کرنا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ داعی کا کام صرف اتنا ہے کہ جس بات کو وہ حق سمجھتا ہے، اسے احسن طریقے سے اپنے دوسرے بھائی تک پہنچا دے۔ داعی کو کبھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ اپنے مخاطب ہی کو براہِ راست یا بلاواسطہ ایسی تنقید کا نشانہ بنانا چاہیے جس کے نتیجے میں ضد پیدا ہونے کا امکان ہو۔ کیونکہ ضد، انانیت اور ہٹ دھرمی، کبھی سیدھے راستے کی طرف راہنمائی نہیں کر سکتے۔ لہٰذا رمضان المبارک کا استقبال ہمیں اس طرح کرنا چاہیے کہ ہم پر یہ واضح ہو جائے کہ نبی کریمؐ کی آمد کا مقصد کیا تھا۔
پھر جب یہ بات واضح ہو جائے کہ نبی کریمؐ کی آمد کا مقصد کیا تھا تو استقبال کریں رمضان المبارک کا اپنے قول سے، اپنے عمل سے، اسلامی نظریۂ حیات کو عام کرکے، اور ان طریقوں کو اختیار کرکے جو ہم پر لازم آتے ہیں۔ استقبال کریں رمضان المبارک کا اِس عہد و پیمان کے ساتھ جس کے نتیجے میں ہماری زندگیاں نہ صرف ہمارے متعلقین کے لیے بلکہ عوام الناس کے لیے بھی سود مند ثابت ہوں، اور استقبال کریں رمضان المبارک کا کہ یہ استقبال امت کے عروج کا ذریعہ بن جائے۔
سیدنا سلمان فارسیؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ شعبان کی آخری تاریخ کو نبی کریمؐ نے خطبہ دیا جس میں فرمایا: ’’اے لوگو! ایک بڑی عظمت والا بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے۔ وہ ایسا مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس مہینے کی راتوں میں تراویح پڑھنا نفل قرار دیا ہے (یعنی فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے، جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے)۔ جو شخص اس مہینے میں کوئی ایک نیک کام اپنے دل کی خوشی سے بطور خودکرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے کہ رمضان کے سوا اور مہینوں میں فرض ادا کیا ہو، اور جو اس مہینے میں فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینے میں کسی نے 70 فرض ادا کیے۔ اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ اور یہ مہینہ معاشرے کے غریب اور حاجت مندوں کے ساتھ مالی ہمدردی کا مہینہ ہے‘‘۔ (بیہقی فی شعبان الایمان) پس یہ وہ عبادات ہیں جن کو اختیار کرنا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔ پھر یہی استقبال ہے اور یہی استفادہ !
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: رمضان المبارک کا استقبال کریں کے نتیجے میں کا مہینہ ہے یہ واقعہ ا مہینے میں دنیا میں کرتے ہیں اس مہینے کے ذریعے کے لیے ا اللہ کا اللہ کی سکتا ہے اللہ نے اللہ کے نے والے ہے کہ ا کی ا مد اور یہ ہیں کہ ہے اور ہیں جن اور اس میں یہ کا عمل
پڑھیں:
زمین کے ستائے ہوئے لوگ
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭