یو ایس ایڈ فنڈنگ پر مودی حکومت کا رویہ شرمناک ہے، کانگریس
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
کانگریس ترجمان نے کہا کہ سچائی یہ ہے کہ نریندر مودی صرف ٹرمپ سے یک طرفہ تعلقات نبھانے میں مصروف ہیں اور اس عمل سے ملک کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس کے سینیئر لیڈر اور ترجمان پون کھیڑا نے بی جے پی حکومت کو یو ایس اے آئی ڈی (یو ایس ایڈ) فنڈنگ کے معاملے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے ایک ہفتے سے یہ کہانی گردش کر رہی ہے کہ امریکہ کی ایک ایجنسی نے مودی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے 21 ملین ڈالر دئیے، اگر یہ رقم واقعی ہندوستان میں آئی تو یہ ملک کی سکیورٹی ایجنسیوں کے لئے باعثِ شرم ہے کہ وہ اسے روک نہ سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب مودی حکومت سے اس معاملے پر سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ یہ فنڈنگ 2012ء میں یو پی اے حکومت کے وقت آئی تھی۔ اس جواب پر سوال اٹھاتے ہوئے پون کھیڑا نے کہا کہ اگر واقعی ایسا ہے تو کیا بی جے پی 2014ء کا الیکشن اسی رقم سے جیتی تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ حقیقت میں یہ 21 ملین ڈالر ہندوستان نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے این جی اوز کو دئیے گئے تھے۔
 
 پون کھیڑا نے مودی حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت تھا جب ہندوستان کے وزیراعظم کی ساکھ ایسی تھی کہ امریکہ تک کو پیچھے ہٹنا پڑتا تھا لیکن آج امریکہ سے بنگلہ دیش میں 21 ملین ڈالر کی فنڈنگ ہوگئی اور مودی حکومت کو اس کی کوئی خبر تک نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کے اطلاعاتی نظام اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والی عدم استحکام کی صورتحال کا اثر ہندوستان پر نہ پڑے گا۔ کانگریس لیڈر نے مودی کے امریکہ دورے پر بھی شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بی آر آئی سی ایس (برکس) کے خاتمے کی دھمکی دی، ہندوستان پر اضافی محصولات لگانے کی بات کی اور ہندوستان پر ایف-35 طیارے تھوپنے کی کوشش کی لیکن اس سب کے باوجود مودی صرف مسکراتے رہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ نریندر مودی خود امریکہ جا کر ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
 
 پون کھیڑا نے کہا کہ کانگریس یو ایس ایڈ یا کسی اور غیر ملکی فنڈنگ ایجنسی کے خلاف نہیں ہے۔ ملک میں فنڈنگ کے لئے واضح قوانین موجود ہیں، جن کے تحت بی جے پی سے وابستہ این جی اوز بھی فنڈنگ حاصل کرتے ہیں، مگر اس معاملے میں صرف کانگریس کو نشانہ بنانا غلط ہے۔ انہوں نے بی جے پی کی وزیر اسمرتی ایرانی پر بھی سوال اٹھایا کہ وہ یو ایس ایڈ کی برانڈ ایمبیسڈر رہ چکی ہیں اور اس وقت ایل پی جی سلنڈر لے کر سڑکوں پر احتجاج کرتی تھیں، تو کیا یہ احتجاج یو ایس ایڈ نے کروایا تھا۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ انا ہزارے نے دہلی میں تحریک چلائی، جس کے بعد یو پی اے حکومت ختم ہوئی اور پھر وہ امریکہ جا کر روڈ شو کرتے رہے، اس وقت فورڈ فاؤنڈیشن کی فنڈنگ آ رہی تھی، جس میں آر ایس ایس کا بھی کردار تھا۔ کانگریس لیڈر نے کہا کہ سچائی یہ ہے کہ نریندر مودی صرف ٹرمپ سے یک طرفہ تعلقات نبھانے میں مصروف ہیں اور اس عمل سے ملک کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ 
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ مودی حکومت یو ایس ایڈ بی جے پی کی ساکھ ملک کی
پڑھیں:
بھوک کا شکار امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کی بے حسی
اسلام ٹائمز: امریکہ کے محکمہ زراعت نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ میں سالانہ غذائی عدم تحفظ کی رپورٹ کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا بند کر دے گا۔ یہ رپورٹ واحد ایسا امریکی ذریعہ تھا جو مستقل طور پر بھوک اور غذائی عدم تحفظ کی نگرانی کرتا تھا۔ روزنامہ "یو ایس نیوز" نے آخر میں لکھا ہے کہ یہ زمان بندی نہ صرف مسئلے کے متعلق بے حسی ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کے پیمانے کے بارے بھی لاعلمی برتی گئی ہے۔ جب کوئی حکومت بھوکے شہریوں کی گنتی بھی روک دے، تو یہ کوئی پالیسی نہیں بلکہ غفلت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ریاست ہائے متحدہ کی وفاقی حکومت کے بند ہونے کو ایک ماہ گزر چکا ہے، لاکھوں امریکی، جن میں بچے بھی شامل ہیں، اگر یہ صورتحال برقرار رہی اور خوراکی امداد ادا نہ کی گئی تو ممکن ہے بھوکے رہ جائیں۔ خبر رساں ادارہ تسنیم کے بین الاقوامی شعبے نے روزنامہ یو ایس نیوز کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ تقریباً 42 ملین محتاج امریکی، جن میں 15 ملین سے زائد بچے شامل ہیں، اگر حکومت کی جانب سے خوراک کی امداد فراہم نہ کی گئی تو ممکن ہے یہ تمام لوگ بھوکے رہ جائیں۔
 
 بچوں، بزرگوں اور مزدور خاندانوں کے لیے "اضافی غذائی معاونت کا پروگرام" (SNAP) کھو دینے کا مطلب تعطیلات کے موقع پر الماریوں اور فریجوں کا خالی ہوجانا ہے۔ یہ امدادی پروگرام پہلے فوڈ کوپن کے نام سے جانا جاتا تھا، ہر آٹھویں امریکی میں سے ایک اور لاکھوں مزدور گھرانوں کے لیے نجات کی ایک راہ نجات ہے۔ پچھلے سال جن بالغوں نے اضافی خوراکی امداد حاصل کی، ان میں تقریباً 70 فیصد فل ٹائم کام کرتے تھے، مگر پھر بھی خوراک خریدنے میں مشکل کا سامنا کرتے تھے۔ 
 
 اس ہفتے 20 سے زائد ریاستوں نے وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور مطالبہ کیا کہ واشنگٹن نومبر کے جزوی فوائد کے لیے 6 بلین ڈالر کے ہنگامی بجٹ کو استعمال کرے۔ اگرچہ حکومت نے نومبر میں SNAP فوائد کی ادائیگی کے لیے دو وفاقی عدالتوں کے احکامات کی پیروی کی بھی، لیکن یہ ہنگامی فنڈز ایک مکمل ماہ کے SNAP فوائد کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ریاستوں کے لئے وفاق کی فراہم فنڈنگ کے بغیر آسانی سے SNAP فوائد برقرار نہیں رکھ سکتیں۔
 
 وفاقی حکومت SNAP کے تمام (یعنی 100 فیصد) فوائد ادا کرتی ہے اور پروگرام کے نفاذ کے لیے انتظامی اخراجات ریاستوں کے ساتھ بانٹتی ہے۔ یہ اہتمام ان امریکی گھرانوں کے لیے مناسب ہوتا ہے جو اپنی ماہانہ آمدنی پر گزارا کرتے ہیں، حتیٰ کہ ایک ہفتے کی تاخیر بھی خوراک کے پیک حذف ہونے کا سبب بن سکتی ہے، جس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، ممکنہ طور پر یہ فوائد بند ہو سکتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بڑے اور خوبصورت بل سے متعلق نئی پابندیاں نافذ ہونے والی ہیں۔
 
 یہ SNAP کے اہل ہونے کی شرائط کو محدود کریں گی۔ یہ تبدیلیاں تقریباً 4 ملین افراد کے ماہانہ غذائی فوائد کو ختم یا کم کر دیں گی۔ امریکہ پہلے اس صورتحال سے دوچار رہا ہے، مگر کبھی اس حد تک نہیں۔ ماضی کی بندشوں کے دوران وفاقی حکومت نے SNAP وصول کنندگان کو تحفظ فراہم کرنے کے طریقے نکالے اور تسلیم کیا کہ امریکیوں کو بھوکا رکھنا کبھی سیاسی سودے بازی کا مفید آلہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس بار، ٹرمپ حکومت نے کہا ہے کہ وہ احتیاطی فنڈز یا کسی اور دستیاب ذریعہ کا استعمال کر کے فوائد فراہم نہیں کرے گی۔
 
  امریکہ کے محکمہ زراعت نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ میں سالانہ غذائی عدم تحفظ کی رپورٹ کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا بند کر دے گا۔ یہ رپورٹ واحد ایسا امریکی ذریعہ تھا جو مستقل طور پر بھوک اور غذائی عدم تحفظ کی نگرانی کرتا تھا۔ روزنامہ "یو ایس نیوز" نے آخر میں لکھا ہے کہ یہ زمان بندی نہ صرف مسئلے کے متعلق بے حسی ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کے پیمانے کے بارے بھی لاعلمی برتی گئی ہے۔ جب کوئی حکومت بھوکے شہریوں کی گنتی بھی روک دے، تو یہ کوئی پالیسی نہیں بلکہ غفلت ہے۔