جنگ بندی:عارضی حل یاپائیدارامن؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
دریں اثنا ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے امریکاسے جو ’’بڑی تعدادمیں اشیا‘‘کی درخواست کی تھی وہ فی الحال فراہم کی جارہی ہیں۔ ان سے پوچھاگیاکہ آیاان کی حکومت اسرائیل کیلئے907 کلوگرام وزنی بموں کی کھیپ جاری کرے گی۔ اسرائیل نے بہت سی چیزوں کی درخواست کی لیکن سابق صدرجوبائیڈن نے انہیں نہیں بھیجا۔اب ان اشیاکی ترسیل کی جارہی ہے۔ گزشتہ سال جوبائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کوان بموں کی فراہمی ایک ایسے وقت میں معطل کردی تھی جب اسرائیلی فوج جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح پر بڑے پیمانے پرحملے کامنصوبہ بنارہی تھی۔یہ وہ مقام ہے جہاں بمباری اورجنگ کی وجہ سے14لاکھ فلسطینیوں نے پناہ لی تھی۔ بائیڈن نے خبردار کیا تھا کہ اس طرح کے علاقوں میں اس قسم کے بم کا استعمال ایک’’بڑے انسانی المیے‘‘کاسبب بنے گا۔
ایگزیوس پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں اسرائیلی قومی سلامتی کے صحافی بارک راویڈ نے لکھاکہ ٹرمپ نے محکمہ دفاع کو2000 پائونڈ وزنی بم اسرائیل بھیجنے پرعائدپابندی ہٹانے کاحکم دیاہے۔اس قسم کے بڑے،فضاسے گرائے جانے والے بم انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں اورعام طور پر انہیں فوجی تنصیبات،کمانڈسینٹرزاور انفراسٹرکچر جیسے اہداف کوبڑے پیمانے پرنقصان پہنچانے کیلئے استعمال کیاجاتاہے۔اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران ٹرمپ نے اکثراس بات پرفخرکیاکہ اسرائیل کا ’’وائٹ ہائوس میں اس سے بہتردوست کبھی نہیں تھا‘‘۔ نیتن یاہوبھی ٹرمپ کیلئے اکثر ایسے جملے دہراچکے ہیں۔
غزہ کی پٹی میں اسرائیل اورحماس کے درمیان جنگ بندی اتوارکودوسرے ہفتے میں داخل ہوگئی ہے۔حماس کے زیرحراست چار اسرائیلیوں اور اسرائیلی جیلوں سے تقریباً 200 فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہوئی ہے۔تاہم جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمدکی کوششوں کو نئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ اسرائیل نے مغوی شہری اربیل یہودکی رہائی سے متعلق تنازع کی وجہ سے لاکھوں فلسطینیوں کی تباہ شدہ شمالی غزہ میں واپسی پر اعتراض کیا تھا۔ اسرائیل نے یہ شرط عائد کی جنوبی اورشمالی غزہ کوالگ کرنے والی راہداری کھلوانے کیلئے اس یرغمالی کورہاکیاجائے۔اس نے حوالہ دیا کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت شہریوں کوپہلے رہا کیا جائے گاجس میں حماس ناکام ہواہے۔ اسرائیل نے ثالثوں سے حماس سے اس بات کا ثبوت مانگاتھاکہ یہود زندہ ہے اورحماس نے مصر کو اس بات کا ثبوت فراہم کردیاتھاکہ یہود زندہ اور صحت مندہے اور اسے اگلے ہفتے رہاکردیاجائے گا۔
ہفتہ کی شام افراتفری سے بھرپور مناظر دیکھنے کوملے۔یرغمالیوں کی رہائی مکمل ہونے کے بعدفلسطینیوں کواس بات کی امیدتھی کہ وہ شمال میں اپنے گھروں کی جانب لوٹ سکیں گے۔ تاہم آخری اطلاع آنے تک ایساممکن نہیں ہواکیونکہ اسرائیلی افواج نے شمال کی جانب جانے والی اہم راہداری کو بندکررکھاہے اورکسی کوبھی وہاں سے گزرنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ اسرائیل اورحماس کے درمیان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے والے قطری اورمصری ثالث لاکھوں فلسطینیوں کوشمال کی طرف واپس جانے کی اجازت دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں اوراس معاملے میں پیش رفت بھی ہوئی ہے۔
دریں اثناغزہ کے بہت سے باشندے کسی ایسی پیش رفت کابے چینی سے انتظارکررہے ہیں انہیں اپنے آبائی علاقوں میں جانے کی اجازت مل جائے۔ بہت سے لوگوں کیلئے واپسی کی امیداس حقیقت سے کہیں زیادہ ہے جوان کاانتظارکررہی ہے یعنی کھنڈرات اور ہرجانب پھیلی تباہی۔اس کے باوجودان کی زندگیوں کودوبارہ حاصل کرنے، اپنے گھروں کی تعمیر نواوراپنے کنبوں کے ساتھ دوبارہ ملنے کا خواب ان کی روحوں کوزندہ رکھے ہوئے ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ آیایہ جنگ بندی دیرپاامن کی بنیادبنے گی یاصرف ایک عارضی حل ہے۔ ماضی کے تجربات سے ظاہرہوتاہے کہ جنگ بندی اکثرعارضی ثابت ہوئی ہیں جب تک کہ دونوں طرف سے سنجیدہ اقدامات نہ کیے جائیں۔ ٹرمپ کی تجویزکے بعد،یہ خطرہ بڑھ گیاہے کہ بین الاقوامی مداخلت مقامی مسائل کومزیدپیچیدہ بناسکتی ہے۔ غزہ کی صورتحال کے اثرات لبنان، شام، اوریمن جیسے ممالک پربھی پڑسکتے ہیں جہاں ایران کے حمایت یافتہ گروہ ابھی تک سرگرم ہیں۔ حزب اللہ لبنان،شامی حکومت،اوریمن میں حوثی باغیوں کے ایرانی روابط ابھی تک قائم ہیں اوروہ کبھی بھی اس خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کرسکتے ہیں۔یادرہے کہ اسرائیل کی حالیہ فوجی کارروائیاں ،نیتن یاہوکی بیان بازی،اور ٹرمپ کی مداخلت کے بعدایران کے حمایت یافتہ گروہوں کیلئے دباؤبڑھ سکتاہے۔تاہم،اس کایہ مطلب بھی ہوسکتاہے کہ یہ گروہ مزیدجارحانہ حکمت عملی اختیارکریں گے،جس سے خطے میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
نیتن یاہواورٹرمپ کی تجاویزاورحالیہ جنگ بندی مشرقِ وسطی میں ایک نئے سفارتی اورعسکری موڑکی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ مصر اور اردن جیسے ممالک کاسخت ردِعمل ظاہرکرتاہے کہ خطے میں اسرائیل اورامریکاکی یکطرفہ پالیسیوں کوقبول کرنے کا رجحان کم ہوتاجارہاہے۔یورپی یونین کی جانب سے ٹرمپ کی تجاویزکی مخالفت اورنیٹوکے ساتھ امریکی تعلقات میں تلخی اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی برادری ان پالیسیوں کو مستردکررہی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کے اثرات کاانحصار فریقین کی سنجیدگی اوربین الاقوامی برادری کے اقدامات پر ہوگا۔حزب اللہ، شام، اور یمن میں ایرانی روابط کے تناظرمیں بھی یہ ضروری ہے کہ خطے میں طاقت کے توازن کوبرقراررکھنے کیلئے سفارتی کوششیں جاری رکھی جائیں۔مشرقِ وسطی میں پائیدارامن کیلئے ایک متوازن، شفاف، اور منصفانہ حل ناگزیر ہے۔
یادرہے کہ ایک چینی مصنف نے کہا تھا کہ دنیاکاامن ہی امریکاکی تباہی میں پوشیدہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیاٹرمپ کے دورِاقتدار میں عالمی امن کاحصول ممکن ہوگاکہ نہیں؟ یاد رہے کہ امریکاکی باگ ڈورہلانے والی قوتوں کی زندگی کارازہی جنگوں میں فروخت ہونے والااسلحہ، جنگ کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کی ادویات بنانے میں تاریخ کے پروفیسرالفریڈمیک کوئے نے16نومبر 2021ء میں امریکااورچین کے تعلقات کے بارے میں ایک مفصل انٹرویومیں پیش گوئی کی ہے کہ چین کی طاقت بڑھنے کے ساتھ ہی امریکی سلطنت منہدم ہورہی ہے۔ان کے مطابق دونوں سپرپاور کے درمیان خاص طورپر تائیوان اورہانگ کانگ کے درمیان تناؤ بڑھتا جارہاہے،کچھ لوگ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ ایک نئی سردجنگ شروع ہورہی ہے۔امریکا ،مستقبل قریب میں،تائیوان کے خلاف جنگ لڑنے کے امکانات کاسامنا کر رہا ہے جس میں شایدوہ ہارجائے گا،چین یوریشین لینڈماس پرامریکی جیوپولیٹیکل گرفت کوتوڑنے کیلئے بھی کام کررہاہے۔
مشہور زمانہ مؤرخ پروفیسرالفریڈ میک کی ایک تازہ کتابTo Govern the Globe: World Orders and Catastrophic Change ’’دنیاپر حکومت کرنا:ورلڈ آرڈرز اور تباہ کن تبدیلی‘‘میں اوربھی کئی ہوشرباانکشافات ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسرائیل نے کہ اسرائیل کے درمیان ٹرمپ کی اس بات
پڑھیں:
جب اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا نادر موقع ضائع کر دیا؛ رپورٹ
گزشتہ برس اسرائیل ایران کے جوہری تنصیبات کے حفاظتی دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
اسرائیلی اخبار "یروشلم پوسٹ" کے مطابق اسرائیل کو یہ نادر موقع اُس وقت ہاتھ آیا جب اپریل 2024 کو ایران نے اسرائیل پر سیکڑوں میزائل اور ڈرونز سے حملہ کیا تھا۔
ایران کے اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے اصفہان میں واقع ایک S-300 طرز کا ایرانی فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنایا۔
اسرائیل کے پاس موقع تھا تھا کہ دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے کے بعد جوہری تنصیبات پر بآسانی حملہ کرکے اسے تباہ کردیتا۔
تاہم اسرائیل نے صرف دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے پر اکتفا کیا اور جوہری تنصیبات کو چھوڑ دیا۔
اس دوران اسرائیل کی سیاسی و عسکری قیادت نے بند دروازوں کے پیچھے تین اہم اجلاس کیے۔
ان میں اس بات پر غور کیا گیا کہ اب ہم ایرانی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں اور یہ نادر موقع ہے۔
عین ممکن تھا کہ اسرائیلی قیادت ایران کے جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی اجازت دیدی لیکن امریکا نے مداخلت کی اور حملہ رکوادیا تھا۔
اُس وقت کی امریکی قیادت کا خیال تھا اگر اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تو خطے میں ایک خطرناک جنگ چھڑ سکتی ہے۔
قبل ازیں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل نے ایران کی جوہری صلاحیت کو ایک سال پیچھے دھکیلنے کے لیے مئی میں حملہ کا منصوبہ بنایا تھا۔
تاہم امریکی صدر ٹرمپ نے فوجی کارروائی کے بجائے سفارتی راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دی۔