پاک بھارت ٹاکرا: کوہلی کی سنچری، بھارت نے پاکستان کو 6 وکٹوں سے شکست دے دی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
دبئی(سپورٹس ڈیسک)چیمپئنز ٹرافی کے ہائی وولٹیج میچ میں ویرات کوہلی کی شاندار سنچری کی بدولت بھارت نے پاکستان کو 6 وکٹوں سے شکست دے دی۔
242 رنز کا ہدف بھارت نے 43 اوور میں 4 وکٹ کے نقصان پر پورا کرلیا۔
بھارت کے پہلے آؤٹ ہونے والے کھلاڑی کپتان روہت شرما تھے جنہیں شاہین آفریدی نے بولڈ کیا، روہت شرما 20 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ ان کے بعد شبمن گل 46 رنز بنا کر ابرار کے ہاتھوں بولڈ ہوگئے۔
شریاس ایئر 56 رنز بناکر کیچ آؤٹ ہوئے، انہیں خوشدل شاہ نے آؤٹ کیا۔ ہاردیک پانڈیا 8 رنز بناکر شاہین شاہ آفریدی کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوئے۔
اس سے قبل دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے جارہے میچ میں قومی ٹیم کے کپتان محمد رضوان نے بھارت کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔
پاکستان کی پوری ٹیم 49 اعشاریہ 4 اوورز میں 241 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔
پاکستان کو پہلا نقصان 41 رنز پر بابر اعظم کی صورت میں اٹھانا پڑا جو 23 رنز بناکر ہاردک پانڈیا کی گیند کا شکار بنے، اس کے بعد امام الحق 10 رنز بناکر رن آؤٹ ہوگئے۔
محمد رضوان 46 رنزبناکرآؤٹ ہوئے جبکہ سعود شکیل 62 رنزبناکر پویلین لوٹے، طیب طاہر 4 اور سلمان آغا 19 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔
ان کے بعد آنے والے شاہین آفریدی بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوئے، نسیم شاہ نے 14 رنز کی اننگز کھیلی، خوشدل شاہ نے 38 اور حارث رؤف نے 8 رنز بنائے۔
ٹاس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے قومی ٹیم کے کپتان محمد رضوان کا کہنا تھا کہ ہماری ٹیم آج کے میچ میں اچھی کارکردگی دکھائے گی، ٹیم میں ایک تبدیلی ہے ، فخرزمان کی جگہ امام الحق کو شامل کیا گیا ہے، محمد رضوان نے کہا کہ اسکور بورڈ پر اچھا ٹوٹل سجائیں گے۔
پاکستان کی پلیئنگ الیون میں بابراعظم ، امام الحق ، سعود شکیل ، محمد رضوان، سلمان آغا، طیب طاہر، خوشدل شاہ، ابرار احمد ، نسیم شاہ ، شاہین آفریدی اور حارث رؤف شامل تھے۔
پاکستان کی امیدیں اگر مگر سے جڑ گئیں
خیال رہے کہ اس سے قبل پاکستان نیوزی لینڈ کے خلاف اپنا افتتاحی میچ ہار چکا ہے جب کہ بھارتی ٹیم کو افغانستان کے خلاف کامیابی ملی تھی۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا ہے، لیکن یہ اب بھی ناممکن نہیں۔ نیوزی لینڈ اور بھارت کے خلاف دو لگاتار شکستوں کے بعد پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی کے امیدیں اب صرف اگر مگر کے تکنیکی امکان پر ٹکی ہوئی ہیں۔ تاہم اس کے لیے باقی میچز کے نتائج پر انحصار کرنا پڑے گا۔
پاکستان کو اب اپنا اگلا میچ 27 فروری کو بنگلا دیش کے خلاف راولپنڈی میں بڑے مارجن سے جیتنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ کو اپنے دونوں میچز میں بھاری مارجن سے ہارنا ہوگا، تب ہی پاکستان کی ٹیم ٹورنامنٹ میں آگے بڑھنے کا موقع حاصل کر سکتی ہے۔
پیر کو نیوزی لینڈ اور بنگلا دیش کے درمیان راولپنڈی میں ہونیوالا مقابلہ پاکستانی فینز کےلیے اہم ہوگا۔ اگر نیوزی لینڈ یہ میچ جیت جاتا ہے یا میچ بارش کی وجہ سے واش آؤٹ ہو جاتا ہے تو پاکستان کی ٹیم آفیشلی ٹورنامنٹ سے باہر ہو جائے گی لیکن اگر بنگلا دیش یہ میچ جیت جاتا ہے تو پاکستان کی امیدیں برقرار رہیں گی۔
پاکستان اور بنگلا دیش کا میچ 27 فروری کو راولپنڈی میں کھیلا جائےگا جب کہ بھارت اور نیوزی لینڈ کے درمیان میچ 2 مارچ کو شیڈول ہے۔ پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی کے امیدیں بظاہر کم ہیں لیکن کرکٹ کے کھیل میں کچھ بھی اس وقت ناممکن نہیں جب تک اس کے ہونے کا امکان مکمل طور پر رد نہیں ہوجاتا اور پاکستانی ٹیم کے لیے امکان اب بھی موجود ہے۔
مزیدپڑھیں:ایبٹ آباد: معمولی تنازع خونی واقعہ میں بدل گیا، 2 افراد قتل، متعدد گھر نذرآتش
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کو محمد رضوان نیوزی لینڈ پاکستان کی بنگلا دیش رنز بناکر ا ؤٹ ہوئے کے خلاف ٹیم کے کے بعد
پڑھیں:
پاک بھارت مستحکم امن کی تلاش
پاکستان نے ، اللہ کے فضل و کرم سے، چار روزہ پاک بھارت جنگ میں بھارت کو تاریخ ساز شکست دی ۔ ساری دُنیا مان اور تسلیم کر چکی ہے ۔
امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، ایک درجن سے زائد بار ، برسرِ مجلس، اعلان کر چکے ہیں کہ اُن کی کوششوں اور مساعی سے پاک بھارت جنگ آگے بڑھنے سے رُکی ۔ ٹرمپ نے تو اگلے روز یہ بھی سب کے سامنے تسلیم کیا کہ اِس جنگ میں ( بھارت کے) چار، پانچ جدید جنگی طیارے رافیل (پاک فضائیہ نے) مار گرائے ۔ فرانس تک (جس نے بھارت کومایہ ناز رافیل طیارے فراہم کیے) تسلیم کر چکا ہے کہ پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے رافیل مار گرائے ۔ بھارت مگر ڈھٹائی اور مارے ندامت کے مان نہیں رہا ۔
مودی جی تو طیش میں بَل کھا رہے ہیں ، مگر امریکی صدر کی باتوں کی تردید بھی نہیں کر پارہے ۔ مودی جی کی آتش نوائی نے پاک بھارت امن کی فضاؤں میں تشویشات کی متعدد لہریں دوڑا رکھی ہیں ۔ بھارتی وزیر اعظم کی اِسی آتش نوائی نے پاکستان کی امن ساز کوششوں کو ناکام بنا رکھا ہے ۔
پاکستان اور بھارت کی فضاؤں پر موہوم حربی بادلوں کے آثار ہیں۔فریقین پریشان ہیں ۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پاکستان اِس گمبھیر صورتحال سے کیسے باعزت سرخرو ہو سکتا ہے؟ اِس سوال کا جواب کئی جوانب سے متنوع انداز میں سامنے آرہا ہے ۔ اِس سوال کا ایک جواب ممتاز دانشور ، جناب یوسف نذر ،نے بھی دیا ہے۔جناب یوسف نذر بنیادی طور پر عالمی شہرت یافتہ بینکر ہیں ، مگر اپنے ہمہ گیر اقتصادی تجربات کے کارن اُن کی نظر عالمی سیاست اور عالمی تصادموں پر بھی رہتی ہے ۔
موصوف نے گزشتہ ہفتے پاکستان کے ایک انگریزی میں ایک مفصل آرٹیکل لکھا ہے ۔اُنھوں نے قارئین کو بتایا ہے کہ پاکستان موجودہ (پاک بھارت کشیدگی) کے بحران سے نکل سکتا ہے بشرطیکہ پاکستان اپنے دیرینہ اور آزمودہ دوست، چین، کی مرکزی پالیسی سے سبق حاصل کرے ۔ اور بقول مصنف، چین کی یہ مرکزی سوچ’’غیر تصادمی پالیسی‘‘ ہے ۔ یوسف نذر کے خیالات سے متفق ہُوئے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی تجویز میں کئی نکات قابلِ غور ہیں ۔
یوسف نذر لکھتے ہیں: ’’چین کی طویل عرصے سے اختیار کردہ غیر تصادمی پالیسی نے اسے نوآبادیاتی استحصال کے ملبے سے اُٹھا کر عالمی اقتصادی طاقت بننے میں مدد دی ہے۔ سرد جنگ کے پراکسی تنازعات، شام اور یوکرین کی جنگوں، یا حالیہ بحیرہ جنوبی چین کی کشیدگی میں، چین نے ہمیشہ طویل فوجی الجھاؤ سے گریز کیا ہے۔
امریکا کے ساتھ جاری تجارتی جنگ کے دوران چین کا محتاط ردِعمل ( جس میں محدود ٹیرف، عالمی تجارتی تنظیم میں اپیلیں، اور تجارتی شراکت داروں کی خاموشی شامل ہے) اسی پالیسی کا عکاس ہے۔ بیجنگ نے کشیدگی بڑھانے کے بجائے داخلی استحکام، معاشی خودانحصاری اور سفارتی روابط کو ترجیح دی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ طرزِ عمل ایک طاقتور نمونہ پیش کرتا ہے۔بین الدولی تعلقات محض نظریات سے متعین نہیں ہوتے، جیسا کہ پاکستان اور چین کی گہری دوستی ظاہر کرتی ہے۔ چین، ایک غیر مذہبی اور غیر جمہوری ریاست ہونے ، اور پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود، ایک مضبوط شراکت داری قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ عملی پالیسیاں نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہو سکتی ہیں۔ پاکستان آج ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے: اس کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ آیا وہ پاک بھارت دیرینہ تنازعات کی اس وراثت سے باعزت نکل سکتا ہے جس نے اس کے وسائل کو چوسا، معاشی ترقی کو روکا اور عدم استحکام کو جنم دیا؟چینی ترقی کی کہانی پاکستان کے لیے سبق آموز ہے۔ چین نے غیر ملکی تنازعات سے دُور رہ کر اور اندرونی استحکام پر توجہ دے کر اپنے80کروڑ شہریوں کو غربت سے نکالا اور ایک عالمی اقتصادی طاقت میں تبدیل ہو گیا۔ پاکستان کو بھی اسی طرح اپنی اندرونی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔
1971کی جنگ میں بنگلہ دیش کا علیحدہ ہونا ایک قومی سانحہ تھا۔ اس سانحہ میں ہزاروں جانیں ضایع ہوئیں اور 20 فیصد جی ڈی پی ختم ہو گئی۔ افغان جنگ میں پاکستان کی شرکت نے پاکستان میں دہشت گردی کے لامختتم سلاسل کو جنم دیا، جس میں 2001 سے اب تک 80,000 سے زائد جانیں ضایع ہو چکی ہیں۔ اِس عظیم جانی نقصان کو پاکستان کی مختلف حکومتیں بھی تسلیم کر چکی ہیں‘‘۔
یوسف نذر مزید لکھتے ہیں:’’ایسے پس منظر میں چین کی غیر تصادمی حکمتِ عملی، جس میں اندرونی ترقی کو ترجیح دی جاتی ہے، پاکستان کے لیے ایک واضح سبق ہے۔ چین کی غیر تصادمی پالیسی 1954ء میں وضع کیے گئے ’’پُرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں‘‘ پر مبنی ہے، جس میں خودمختاری کے احترام، جارحیت سے گریز، اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر زور دیا گیا ہے۔ ’’ذلت کی صدی‘‘ کے تجربے (1839 تا 1949) نے چین میں یہ عزم پیدا کیا کہ خودمختاری کا تحفظ اور بیرونی تنازعات سے بچاؤ ضروری ہے۔
ماؤزے تنگ نے داخلی استحکام پر توجہ دی، جب کہ ڈینگ شیاؤ پنگ نے 1970 کی دہائی کے آخر میں معاشی اصلاحات کے ذریعے غیر تصادمی حکمت عملی کو مکمل طور پر ترقی کا ذریعہ بنایا۔ ڈینگ کا فلسفہ ’’اپنی صلاحیتوں کو چھپاؤ اور وقت کا انتظار کرو‘‘چین کی ترقی کی بنیاد بنا۔چین کی تاریخ میں کئی مواقع پر غیر تصادمی پالیسی واضح طور پر نظر آئی، جیسے کوریا جنگ میں محدود شرکت، ویتنام جنگ میں براہ راست مداخلت سے گریز، اور 1979کی چین-ویتنام جنگ کے بعد مکمل طور پر سفارتی حکمت عملی اپنانا۔کیوبا میزائل بحران، بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ، خلیج فارس کی جنگ، یوگوسلاویہ کی جنگیں، روانڈا نسل کشی، عراق جنگ، اور لیبیا اور شام کے تنازعات میں چین کا کردار بھی غیر تصادمی رہا۔ چین نے ہمیشہ سفارت کاری اور اقتصادی ترقی کو ترجیح دی۔چین کی اندرونی حکمرانی نے استحکام، ترقی، اور خود انحصاری کو یقینی بنایا۔
1978 کی معاشی اصلاحات نے دیہی آمدنی دگنی کر دی، تعلیم میں بے پناہ اضافہ ہوا، اور سائنسی تحقیق میں پیشرفت نے مصنوعی ذہانت، 5G اور بایوٹیکنالوجی میں ترقی کو ممکن بنایا۔چین نے فوجی اخراجات کو محدود رکھا ۔ 2023 میں جی ڈی پی کا محض 1.67 فیصد ، جب کہ امریکا اور رُوس جیسے ممالک نے اپنے وسائل جنگوں میں ضایع کیے۔چین کا بحیرئہ جنوبی چین میں کشیدگی پر سفارت کاری کو ترجیح دینا، فوجی تنازعات سے بچاؤ کی حکمت عملی کا مظہر ہے۔
اس کے برعکس امریکا نے عراق اور افغانستان میں کھربوں ڈالر ضایع کیے، جب کہ چین نے تجارتی استحکام کو فروغ دیا۔پاکستان کے لیے، چین کا ماڈل ایک واضح راستہ پیش کرتا ہے: تنازعات سے گریز، وسائل کا داخلی ترقی پر استعمال، اور تعلیم، صحت اور صنعت میں سرمایہ کاری۔ اگر پاکستان نے اس راستے کو اختیار کیا تو وہ معاشی ترقی اور استحکام حاصل کر سکتا ہے۔چین کی ترقی اس بات کا ثبوت ہے کہ اندرونی استحکام اور ترقی پر توجہ تنازعات سے کہیں زیادہ طاقتور راستہ ہے۔ پاکستان کو یہی راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ترقی اس کی تقدیر بن سکے‘‘۔
یوسف نذر ایسے دانشور کے مذکورہ مشورے مستحسن تو کہے جا سکتے ہیں ، مگر موجودہ پاک بھارت کشیدگی کے لمحات میں شائد اِن پر عمل کرنا اتنا سہل نہیں ہے ۔ غور کرنے میں مگر ہرج بھی کیا ہے ؟ کبھی کبھار ’’مانگے کے اُجالے‘‘ سے بھی روشنی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ پچھلے دو ہفتوں میں بھارت نے پاکستان کے خلاف فضا کو جس بُری طرح مشتعل کررکھا ہے، ایسی فضا میں پاکستان کے لیے ایسے مشورے شائد قابلِ عمل نہیں ہیں۔ اِن پر عمل کرنا شائد پاکستان کی کمزوری پر محمول کیا جائے۔ ’’غیر تصادمی‘‘ پالیسی کے ایسے مشورے بھارت کے ممتاز ترین مسلم دانشور، مفکر ، مفسر اور کئی کتابوں کے مصنف ، مولانا وحید الدین خان مرحوم، بھی پاکستان اور پاکستانیوں کو دیتے رہے ہیں ۔
اُن کے یہ مشورے مگر ، بوجوہ، پاکستان میں قبولیت نہ پا سکے ۔ یوسف نذر صاحب اور مولانا وحید الدین خان مرحوم مبینہ ’’ غیر تصادمی پالیسی ‘‘ ایسے مشورے بھارت اور بھارتیوں کو دیتے نظر نہیں آتے۔ یہ بھارت ہے جوکبھی افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کرواتا ہے اور کبھی BLAاور BRA ایسے دہشت گردوں کے زریعے پاکستان میںخونریزی کا بازار گرم کرواتا ہے۔ بھارت کی پاکستان مخالف شیطانیاں کم ہوں تو جنوبی ایشیا میں امن کی فضائیں آر پار جا سکیں ۔