کیا چاندی ’گولڈ مارکیٹ‘ کی جگہ لے سکتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
گزشتہ چند برسوں کے دوران گولڈ کی قیمتوں میں بڑا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ سینٹرل بینکس گولڈ زیادہ سے زیادہ خرید رہے ہیں کیونکہ ایسا وہ آئندہ حالات کے پیش نظر اپنی معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے کر رہے ہیں جس کی وجہ سے سونے کی ڈیمانڈ اور قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پرانی چاندی سے زیورات بنا کر اپنی شادی کا خرچ خود اٹھانے والی ہنرمند خاتون
گولڈ کی ڈیمانڈ میں اضافے کی وجہ سے گولڈ کی قیمت 3 لاکھ روپے سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ جو ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔
ایسے میں چند ماہرین کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ گولڈ کی قیمت میں اضافے کے بعد لوگوں کا رجحان چاندی کی جانب بڑھے گا، کیونکہ چاندی بھی انڈسٹریز میں استعمال ہوتی ہے اور سستی ہونے کی وجہ سے لوگ اب چاندی کو خریدنا بہتر سمجھیں گے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چاندی واقعی سونے کی مارکیٹ کی جگہ لے سکتی ہے؟ یا پھر یہ صرف ایک عارضی متبادل ہے؟
اس حوالے سے جاننے کے لیے وی نیوز نے چند ماہرین سے بات کی ہے۔
اب چاندی کی قیمتوں میں اضافہ ہوگااس حوالے سے بات کرتے ہوئے آل پاکستان گولڈ ایسوسی ایشن کے رکن عنداللہ چاند کا کہنا تھا کہ گولڈ کی قیمتوں بڑھنے سے چاندی کے کاروبار میں ابھی سے اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اور چاندی کی قیمتوں میں بھی اب وقتاً فوقتاً اضافہ ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی میں اب چاندی کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔ اور دنیا بھر میں گولڈ کی طرح چاندی کی بھی خاصی ڈیمانڈ ہے مگر سپلائی کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نئی ایجادات کے ساتھ یہ دیکھا جا رہا ہے کہ چاندی کی مارکیٹ میں تیزی آئی گی، کیونکہ جتنی بھی الیکٹرک گاڑیوں، بائیکس، سولر، کمپیوٹر، لیپ ٹاپس، موبائلز اور جو بھی الیکٹرانکس کی چیزیں ہیں۔ اس میں چاندی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
لوگ چاندی کی طرف شفٹ ہو رہے ہیںان مزید کہنا تھا کہ گولڈ کی قیمتیں بڑھنے سے لوگ چاندی کی طرف شفٹ ہو رہے ہیں۔ آگے آنے والے وقت میں چاندی کی ڈیمانڈ میں یقیناً اضافہ کی توقع کی جا رہی ہے۔
سینیئر صحافی راجا کامران کا کہنا تھا کہ گولڈ اور چاندی میں بہت زیادہ فرق ہے۔ گولڈ ایک بہت ہی معیاری قسم کی دھات ہے۔ اور دنیا کی سب سے مہنگی دھاتوں میں سے ایک ہے۔
سینٹرل بینکس گولڈ کو ترجیح دیتے ہیںان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گولڈ سے بھی مہنگی دھاتیں موجود ہیں، لیکن ان کی کچھ خاص سپلائی نہیں، یا انہیں کسی ریزرو کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ دنیا کے جتنے بھی سینٹرل بینکس ہیں وہ گولڈ کو ترجیح دیتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ڈالر بہت عرصے سے سینٹرل کرنسی تھا تو سینٹرل بینکس نے گولڈ پر انحصار کم کر دیا تھا، مگر اب جیسے ہی ٹیرف وار شروع ہوئی ہے یوان اور دیگر کرنسیز نیچے جانے کے امکانات شروع ہوگئے ہیں۔ تو اس امکان کو کم کرنے کے لیے بھی سینٹرل بینکس اپنے ریزرو بڑھائیں گے۔
چاندی کبھی بھی گولڈ کی جگہ نہیں لے سکتیان کا مزید کہنا تھا کہ ٹریڈ وار کے ذریعے سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد اب گولڈ میں انویسٹ کرے گی۔ گولڈ اور چاندی میں فرق یہ بھی ہے کہ چاندی گولڈ کی طرح کا اچھا کنڈکٹر نہیں ہے۔ جو گولڈ کا انڈسٹریل استعمال ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ موبائل، ٹی وی، یا کوئی بھی ایسی چیز جس میں چھوٹا سا بھی سرکٹ لگا ہوا ہے۔ اس میں گولڈ کا استعمال ہو رہا ہے۔ گولڈ کا استعمال انڈسٹریز میں تیزی سے بڑھ رہا ہےاس لیے چاندی کبھی بھی گولڈ کی جگہ نہیں لے سکتی۔ گولڈ ایک بہت قیمتی دھات ہے۔
گولڈ اور چاندی کے کاروبار سے وابستہ ریٹیلر محمد سعد نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چاندی کبھی بھی گولڈ مارکیٹ کی جگہ نہیں لے سکتی۔ چاہے گولڈ کتنا بھی مہنگا ہو جائے۔ یہ درست ہے کہ جو گولڈ نہیں خرید پا رہے وہ آرٹیفیشل یا چاندی کی جیولری لے رہے ہیں، لیکن گولڈ کی جو ڈیمانڈ ہے وہ ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ ہی رہے گی۔ کیونکہ گولڈ دنیا میں محدود مقدار میں ہے۔ جبکہ چاندی بہت بڑی مقدار میں ہے۔ یہ کہنا بجا نہیں ہوگا کہ گولڈ ایک قیمتی اور نایاب دھات ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گولڈ کا متبادل کوئی دوسری دھات نہیں ہے۔ اس لیے گولڈ کی اہمیت ہمیشہ اپنی جگہ برقرار رہے گی۔ کیونکہ گولڈ کو ریزرو کے طور پر خریدا جاتا ہے، یہ کتنا بھی مہنگا ہو جائے۔ لوگ پھر بھی کوشش کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ گولڈ بنا ہی لیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آل پاکستان گولڈ ایسوسی ایشن ٹریڈ وار ٹیرف وار چاندی راجہ کامران ریٹیلر محمد سعد سلور سونا سینٹرل بینک عنداللہ چاند گولڈ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ٹریڈ وار ٹیرف وار چاندی راجہ کامران ریٹیلر محمد سعد سلور عنداللہ چاند گولڈ کا کہنا تھا کہ گولڈ کی قیمت کا استعمال کی ڈیمانڈ اور چاندی کی قیمتوں چاندی کی کہ چاندی گولڈ کا لے سکتی رہے ہیں کے لیے کی وجہ رہا ہے کی جگہ
پڑھیں:
27ویں ترمیم آئین کے نمایاں خدوخال کو متاثر کر سکتی ہے
اسلام آباد:26 ویں آئینی ترمیم کے کامیاب تجربے کے بعد، وفاقی حکومت نے 27 ویں آئینی ترمیم پر مشاورت شروع کر دی ہے جو آئین کے نمایاں خدوخال کو مزید متاثر کر سکتی ہے۔
سابق پی پی پی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کا خیال ہے کہ 27ویں ترمیم کا بنیادی مقصد آرٹیکل 243 میں ترمیم ہے، جو مسلح افواج کے کنٹرول اور کمانڈ کے ساتھ ساتھ سروسز چیفس کی تقرری سے متعلق ہے باقی سب کچھ صرف شور وغل ہے جس پر مذاکرات اور دستبرداری ممکن ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کے اندر متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے درمیان وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر تقریباً اتفاق رائے ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے محقق یاسر قریشی کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے درمیان 27ویں ترمیم کے دیگر پہلوؤں پر اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن عدلیہ کو تقسیم کرنے اور اسے زیرنگین بنانے کے اقدامات پر اتفاق رائے ہونے کا امکان ہے۔
26 ویں ترمیم کے بعد عدلیہ کی آزادی پر 27 ویں ترمیم کے اثرات پر بحث اب غیر متعلقہ ہے۔ میرے خیال میں عدلیہ کا کردار اب ایک ربڑ سٹمپ کے طور پر ہے جس کا مقصد ایگزیکٹو کو مزید طاقت اور قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
اگرچہ کچھ سینئر وکلا اب بھی سرکاری حکام کو مشورہ دے رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے اندر آئینی بنچ کا تجربہ بہت کامیاب رہا ہے۔
جوڈیشل کمیشن جس پر ایگزیکٹو کا غلبہ ہے آئینی بنچ سے کسی جج کو کسی بھی وقت ہٹا سکتی ہے تاہم وفاقی آئینی عدالت میں صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے جہاں ایک بار جج کی تقرری کے بعد وہ اپنی ریٹائرمنٹ تک عہدے پر برقرار رہے گا۔
وکلا کا الزام ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج جو کلیدی اہمیت رکھتے ہیں، اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ یہ معلوم ہوا ہے کہ اب آئینی عدالت کے پہلے سربراہ کے نام پر غور و فکر جاری ہے۔
ایڈووکیٹ حافظ احسان کھوکھر نے کہا کہ آئینی ترمیم کیلئے اتفاق رائے پر مبنی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ وفاقی حکومت تمام سیاسی جماعتوں، صوبائی حکومتوں اور آئینی اداروں کو ایک وسیع قومی مکالمے میں شامل کرے تاکہ عملی، جامع اور مستقبل کے حوالے سے اصلاحات تیار کی جا سکیں۔
انہوں نے آئینی عدالت کے قیام کی پرزور وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ایسی عدالتیں وفاقی و صوبائی سطح پر ہونی چاہئیں جن میں تمام وفاقی یونٹس کی نمائندگی کرنے والے جج شامل ہوں۔