سپریم کورٹ کے جج شہزاد ملک کی بیٹی شانزے ملک کے خلاف حادثہ کیس کا فیصلہ محفوظ
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے جج شہزاد ملک کی بیٹی شانزے ملک کے خلاف ایکسیڈنٹ کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
شانزے ملک کے وکلا کیجانب سے بریت کی درخواست پر دلائل دیے گئے، وکیل صفائی نے مؤقف اپنایا کہ وقوعہ کے 11 دن بعد مقدمہ درج کیا گیا، مدعی مقدمہ کیجانب سے جولائی 2024 میں بیان ریکارڈ کروایا گیا، مدعی مقدمہ کے بیان کی روشنی میں درخواست گزار شانزے ملک کو نامزد کیا گیا، عدالت میں ایکسیڈنٹ کے حوالے سے کوئی ویڈیو بھی پیش نہیں کی گئی۔
وکیل صفائی نے کہا کہ جو تصاویر عدالت میں پیش کی گئی ان کے کسی اینگل سے نہیں لگتا کہ تصاویر میں موجود خاتون شانزے ملک ہے، مدعی مقدمہ نے ایف آئی آر کے لیٹ اندارج کی کوئی وجوہات بھی نہیں بتائی گئیں۔
مدعی مقدمہ رفاقت علی کے وکیل طفیل شہزاد ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں مؤقف اپنایا کہ انہوں نے یہ تو بتایا ایف آئی آر لیٹ ہوئی مگر وجوہات تو بتائیں، لاہور سے جوڈیشل پاورز کا استعمال کرتے ہوئے مقدمہ کا اندراج نہیں ہونے دیا گیا۔
وکیل طفیل شہزاد نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے رجسٹرار نے اتھارٹی لیٹر دیکر گاڑی کی سپرداری کروائی، ویڈیوز موجود ہیں جس میں ملزمہ شانزے ملک کا چہرہ واضح دیکھا جا سکتا ہے، فرانزک کی رپورٹ میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ گاڑی کو خاتون چلا رہی تھی۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ مدعی مقدمہ کو باقاعدہ طور پر دھمکایا جاتا تھا 15 سے 20 لوگ بھیج کر، دو گواہان نے خاتون کی پہچان کی انکے بیانات موجود ہیں، مدعی رفاقت علی نے اپنے بیانات میں بتایا کہ انکو کیسے دھمکیوں کا سامنا تھا۔
طفیل شہزاد ایڈوکیٹ نے کہا کہ جب ہماری تھانوں میں ایف آئی آر نہیں ہورہی تھی تو ہم نے عدالتوں میں متعدد درخواستیں دی، میرے سائل کے تو بیانات ہی ریکارڈ نہیں ہورہے تھے، ہم نے تو بیان ریکارڈ کروانے کیلئے بھی درخواست دی جس پر عدالت نے ڈائریکٹشن دی۔
سماعت کے دوران فریقین کے دلائل مکمل ہوگئے اور عدالت نے شانزے ملک کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شانزے ملک
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے وفاقی اداروں میں سخت تشویش
کراچی (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے ایف آئی اے سمیت وفاقی اداروں میں سخت تشویش اور پریشانی کی صورتحال ‘فیصلے کے اطلاق سے FIA اور سائبر کرائم کے بھرتی شدہ ملازمین متاثر ہوں گے۔
سات ماہ قبل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 19 صفحات پر ایک فیصلہ صادر کیا کہ ماضی میں کابینہ کے ذیلی کمیٹی کا یہ فیصلہ کہ گریڈ 16 اور اس سے اوپر کے افسران جو فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں شرکت کیے بغیر اور کانٹریکٹ پر بھرتی کیے گئے تھے ان کو ریگولرائز کئے جانے کا فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی تھا۔
مذکورہ فیصلے سے وفاقی اداروں ایف آئی اے اور خاص طور پر سائبر کرائم میں سخت تشویش اور بے چینی پائی جاتی ہے کیونکہ ماضی میں بھی 2019 میں سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بینچ نے ایڈہاک بنیادوں پر بھرتی اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں نہ شرکت کرنے والے ایف آئی اے کے 53 افسران جن میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر سے لے کر ڈپٹی ڈائریکٹرز تک کے افسران شامل تھے اور جن کی نوکریاں 25 سے 30 برس پر محیط تھیں ان کو نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا تھا۔
صرف دو افسران ایف پی ایس سی کے انٹرویو میں پاس ہوئے باقی 53 فیل ہو گئے تھے۔
Post Views: 1