کراچی:

حکومت سندھ کا شہروں کے درمیان اہم ہائے ویز، شاہراہوں پر"پیٹرولنگ پولیس"متعارف کروانے کا فیصلہ،  شہروں میں جرائم کی بیخ کنی کے لیے جدید کیمروں کی تنصیب سمیت دیگر اقدامات کے تسلسل کوبرقراررکھتے ہوئے شاہراہوں کو محفوظ بنانے کے لیے پیٹرولنگ پولیس تعینات جائے گی۔

تفصیلات کے مطابق آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی زیرصدارت صوبے میں "ہائے ویز پیٹرولنگ" متعارف کروانے سے متعلق اہم اجلاس منعقد ہوا، سینٹرل پولیس آفس کراچی میں منعقدہ اجلاس میں ڈی آئی جیزٹی اینڈ ٹی،ایڈمن کراچی،کرائم اینڈآنوسٹی گیشنز، ٹریفک حیدرآباد، سی آئی اے، ہیڈکواٹرز،اسٹبلشمنٹ،آئی ٹی، فنانس، سمیت دیگرپولیس افسران نے شرکت کی۔

ڈی آئی جی اسٹبلشمنٹ کی جانب سے مجوزہ پولیس پیٹرولنگ منصوبے کے اغراض و مقاصد، چیک پوسٹوں کی موجودہ صورتحال، نفری اورحدود و وسائل پر مبنی برینفگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پہلے مرحلے میں سندھ کے مختلف ہائے ویز کے11مقامات پر سندھ موٹرویزپیٹرولنگ پولیس تعینات کی جائے گی۔

ایم نائن، شہیدذوالفقارعلی بھٹو،ناڈرن بائی پاس،انڈس،لیاری،نیشنل،ایم فائیو،مہران، ٹھٹھہ ٹومٹھی، حیدرآباد میرپورخاص،اورحیدرآباد بدین ہائے ویزشامل ہیں، پولیس ہائے وے پیٹرول یونٹ کی قیادت ایک ڈی آئی جی،3 ایس ایس پیز اور7ڈی ایس پیزکریں گے،ڈی آئی جی اورایک ایس ایس پی حیدرآباد،جبکہ ایک ایس ایس پی کراچی اورایک سکھر میں تعنیات کیے جائیں گے۔

 اجلاس میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے بتایا کہ اس منصوبے کا بنیادی اور واحد مقصد صرف جرائم کی روک تھام ہے، شہروں میں لگے کیمروں کی مدد سے جرائم کے خلاف جنریٹ ہونے والے الرٹ سے متعلقہ پولیس سمیت سندھ پولیس ہائی وے پیٹرول بھی متحرک ہوجائے گی۔

اندرون سندھ میں ہائے ویزپرقائم پولیس چیک پوسٹوں کی بحالی، پیٹرولنگ گاڑیوں اورنفری کی تعداد اور دیگر انتظامات پرمبنی تجاویزبرائے منظوری سندھ حکومت کے لیے تیارکی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ پیٹرولنگ کا مقصد جرائم کے خلاف پولیس رسپانس کوہائے ویزتک وسعت دینا اور موثربنانا ہے،  چوری شدہ گاڑیوں کی منتقلی کی روک تھام اورجرائم پیشہ افراد کے گرد مزید گھیراتنگ کرنا اورشہریوں کو محفوظ گزرگاہیں فراہم کرنا ہے۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پیٹرولنگ پولیس ڈی آئی جی

پڑھیں:

پنجاب میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کیلیے سخت فیصلہ، سیپٹک ٹینک بنانا لازمی قرار

لاہور:

ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب نے ہاؤسنگ سوسائٹیز کے لیے ایک نیا اور سخت فیصلہ کیا ہے، اب ہر گھر اور پلازہ میں سیپٹک ٹینک بنانا لازمی ہوگا۔

اس فیصلے کا مقصد زیرِ زمین پانی اور آبی ذخائر کو گندے پانی سے بچانا ہے کیونکہ بغیر علاج کے چھوڑا جانے والا سیوریج پانی آلودگی پھیلا رہا ہے اور اس سے پانی کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

ڈی جی ماحولیات عمران حامد شیخ کے مطابق ہاؤسنگ سوسائٹیز کو ’’ڈوئل واٹر مینجمنٹ‘‘ اپنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر گھر کے ساتھ تین خانوں والا سیپٹک ٹینک بنایا جائے گا اور سوسائٹی کی سطح پر بھی ایک ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا جائے گا۔

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ تین خانوں والے سیپٹک ٹینک پانی میں موجود تقریباً 70 فیصد گندے ذرات اور 40 فیصد آلودگی کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

محکمہ نے گھروں اور پلازوں کے لیے سیپٹک ٹینک کے سائز بھی طے کر دیے ہیں۔ پانچ مرلہ گھر کے لیے 6 فٹ لمبا، 4 فٹ چوڑا اور 4 فٹ اونچا ٹینک ہوگا۔ دس مرلہ گھر کے لیے 9 فٹ لمبا، 6 فٹ چوڑا اور 4 فٹ اونچا، ایک کنال کے پلازے کے لیے 10 فٹ لمبا، 6 فٹ چوڑا اور 5 فٹ اونچا، تین سے چار کنال کے پلازوں کے لیے 15 فٹ لمبا، 6 فٹ چوڑا اور 5 فٹ اونچا جبکہ چار کنال سے زیادہ بڑے پلازوں کے لیے 16 فٹ لمبا، 6 فٹ چوڑا اور 5 فٹ اونچا ٹینک لازمی ہوگا۔

ڈی جی ماحولیات نے بتایا کہ اب نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو ماحولیاتی منظوری صرف اسی صورت میں ملے گی جب وہ سیپٹک ٹینک کی شرط پوری کریں گی۔ اس بارے میں ایل ڈی اے، ایف ڈی اے، جی ڈی اے، آر ڈی اے سمیت تمام اداروں کو ہدایت نامے جاری کر دیے گئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنرز کو بھی کہا گیا ہے کہ زمین کی تقسیم کے وقت اس فیصلے پر سختی سے عمل کرایا جائے۔

مزید یہ کہ جوڈیشل واٹر اینڈ انوائرمنٹ کمیشن اور دیگر اداروں کو بھی اس بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے۔ ای پی اے کے فیلڈ افسران کو واضح ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں سیپٹک ٹینک کی تنصیب پر کڑی نظر رکھیں تاکہ زیرِ زمین پانی اور ماحول کو گندے پانی سے محفوظ بنایا جا سکے۔

ادارہ تحفظ ماحولیات لاہور کے ڈپٹی ڈائریکٹرعلی اعجاز نے بتایا کہ سیپٹک ٹینک دراصل ایک زیرِ زمین ٹینک ہوتا ہے جو کنکریٹ یا اینٹوں سے بنایا جاتا ہے اور گھروں یا عمارتوں سے آنے والے گندے پانی کو جمع کرکے اس میں موجود گندگی اور آلودگی کو جزوی طور پر صاف کرتا ہے۔ یہ عام طور پر دو یا تین خانوں پر مشتمل ہوتا ہے تاکہ پانی مرحلہ وار صاف ہو سکے۔

انہوں نے کہا اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب بیت الخلا یا کچن کا پانی سیپٹک ٹینک میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے بھاری ذرات نیچے بیٹھ جاتے ہیں، چکنائی اور جھاگ اوپر جمع ہو جاتے ہیں جبکہ درمیان کا پانی نسبتاً صاف شکل میں اگلے خانے میں چلا جاتا ہے۔ تین خانوں والے سیپٹک ٹینک میں یہ عمل اور بھی بہتر انداز میں ہوتا ہے اور یوں تقریباً 70 فیصد گندے ذرات اور 40 فیصد آلودگی کم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ پانی ٹریٹمنٹ پلانٹ یا زمین میں جذب ہونے کے قابل ہوتا ہے، مگر اسے مکمل طور پر پینے کے قابل نہیں کہا جا سکتا۔

علی اعجاز نے مزید بتایا کہ سیپٹک ٹینک گندے پانی کو براہِ راست زمین میں جانے سے روکتا ہے۔ اگر یہ نظام نہ ہو تو گندا پانی زیرِ زمین پانی کو آلودہ کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور ہیپاٹائٹس جیسی خطرناک بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ اس لیے سیپٹک ٹینک کو گھروں اور عمارتوں کے ساتھ لازمی قرار دینا ماحول اور انسانی صحت دونوں کے تحفظ کے لیے ایک ضروری قدم سمجھا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مالدیپ : میڈیا کی نگرانی کیلیے طاقتور کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ
  • سندھ حکومت جرائم کے خاتمے اورقیام امن میں سنجیدہ نہیں، کاشف شیخ
  • قومی شاہراہوں کی بندش سے جموں میں سیب کے تاجروں کو بھاری نقصان
  • نادرا کا معمر شہریوں کے لیے فیس ریکگنیشن سسٹم متعارف کرانے کا فیصلہ
  • پنجاب میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کیلیے سخت فیصلہ، سیپٹک ٹینک بنانا لازمی قرار
  • ۔ 1300 میں سے 891 کیمروں کی تنصیب مکمل ہوچکی ہے ‘آئی جی کوبریفنگ
  • اسرائیل کے انسانیت کیخلاف جرائم کو روکنے کیلیے عرب ٹاسک فورس تشکیل دی جائے
  • اسرائیل کے انسانیت کیخلاف جرائم کو روکنے کیلئے عرب ٹاسک فورس تشکیل دی جائے، وزیراعظم
  • اسرائیل کے انسانیت کیخلاف جرائم کو روکنے کیلیے عرب ٹاسک فورس تشکیل دی جائے، وزیراعظم
  • سرکاری ملازمین کے لیے اچھی خبر;تعلیم کیلیے خصوصی فنڈ فراہم کرنے کا فیصلہ