حکمرانی کا نظام اور ادارہ جاتی اصلاحات
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
بنیادی طور پر پاکستان کی ریاست اور حکمرانی کے نظام کا بڑا چیلنج ادارہ جاتی اصلاحات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔عموماً ریاست اور حکمرانی کا نظام ادارہ جاتی اصلاحات کے حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں میں بڑے بڑے دعوے کرتا ہے،لیکن عملاً ہمارا نظام ایک رد عمل کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔
ہم لانگ ٹرم منصوبہ بندی کرنے کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر ریاستی اور حکمرانی کے نظام کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ادارہ جاتی اصلاحات میں ہماری ترجیحات میں سیاسی، معاشی،انتظامی،عدالتی،پولیس،قانونی،گورننس یا بیوروکریسی سمیت تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات کی اصلاحات ہیں۔ ماضی کی حکومتیں ہوں یا آج کی حکومتیں ہم سب کا جائزہ لیں تو ایک بنیادی بات یہی سمجھنے کو ملتی ہے کہ ادارہ جاتی اصلاحات ان حکومتوں کی ترجیحات کا حصہ نہیں ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ جن ادارہ جاتی اصلاحات کے امور کی نشاندہی کی گئی ہے اس میں ہمیں ماضی اور حال میں کوئی بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو نہیں مل سکی ہیں۔عالمی مالیاتی اداروں کی سطح پر بھی پاکستان پر ہمیشہ سے یہ دباؤ رہا ہے کہ پاکستان ادارہ جاتی اصلاحات پر توجہ دے۔ لیکن ہم نے ان کے دباؤ کو بھی نظر انداز کر کے وہی کچھ کرنے کی کوشش کی ہے جس سے پاکستان میں طاقتور طبقہ حکمرانی کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
ایک بنیادی مسئلہ جو ہمیں مجموعی طور پر درپیش ہے وہ یہ کہ ہم ان اداروں کو قانون اور آئین کی حکمرانی کے مقابلے میں ذاتی مفادات یا حکومتی طبقہ کے سیاسی مفادات کی بنیاد پر چلانا چاہتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں ریاستی اور حکومتی اداروں کی سطح پر حکمران طبقے کی جانب سے ادارہ جاتی سطح پر بڑے پیمانے پر سیاسی مداخلت کا عمل دیکھنے کو ملتا ہے۔سیاسی مداخلت کا یہ عمل ایک طرف ان اداروں کی خود مختاری کو چیلنج کرتا ہے تو دوسری طرف ان اداروں کی اپنی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر دیتا ہے۔
ادارہ جاتی اصلاحات سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ حکمران طبقہ اپنے مفادات کو فوقیت دے بلکہ انھیں ان اداروں کی اصلاحات کرتے وقت قومی اور ریاستی مفادات کے ساتھ ساتھ عوامی مفادات کو بھی فوقیت دینی ہوتی ہے تاکہ ان اداروں میں ہونے والی اصلاحات سے ہم اپنا ریاستی تشخص مثبت اور موثر بنا سکیں۔اسی کے ساتھ ساتھ ہم اس پہلو کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں کہ دنیا نے جس طرح سے ادارہ جاتی اصلاحات کو بنیاد بنا کر اپنی حکمرانی کے نظام کو موثر بنایا ہے ہم کیوں کر اس میں پیچھے ہیں۔دنیا میں ہونے والی جدید تبدیلیوں کی بنیاد پر تبدیلی کا عمل موثر ہوتا جا رہا ہے جب کہ ہم آج بھی روایتی اور فرسودہ نظام کی بنیاد پر ڈھٹائی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ہمارے ادارے جاتی نظام میں جو بنیادی غلطی ہے وہ اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہم اداروں کی اصلاحات میں پہلے سے موجود اداروں کو بہتر بنانے کے بجائے ان پر نئے ادارے بنا لیتے ہیں یا پہلے سے موجود اداروں کو مفلوج بنانا بھی ہماری ترجیحات کا حصہ ہے۔ اسی طرح ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ پہلے سے موجود اداروں کے مقابلے میں حکمرانی کے نظام میں کمپنیوں اور اتھارٹیوں کی تشکیل کا عمل بنیادی طور پر ادارہ جاتی عمل کی نفی کرتا ہے اور ان کی اہمیت کو کم بھی کرتا ہے۔
ادارہ جاتی عمل کی اصلاح میں بنیادی ایجنڈا اداروں کے نظم و نسق کو موثر بنانا، منصفانہ اور شفاف بنانا ہوتا ہے۔لیکن یہاں بڑی خرابی یہ ہی ہو رہی ہے کہ ادارہ جاتی سطح پر نظم و نسق پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔نظم و نسق کی بہتری میں نگرانی اور جواب دہی کا نظام یا احتساب پر مبنی نظام کی ناکامی بھی ہمارے ادارہ جاتی نظام کی ناکامی سے جڑا ہوا ہے۔جب ریاست اور حکمرانی کے نظام سے جڑے افراد خود کو قانون اور آئین کی حکمرانی کے تابع نہیں کرنا چاہتے یا اداروں کے سامنے سرنڈر نہیں کرنا چاہتے تو پھر یہ نظام کیسے چلے گا۔
یہ سوچ اور فکر خود ایک بڑے خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے کہ طاقتور افراد ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جو ان کی مرضی اور منشا کے مطابق کام کرے اور جو لوگ اس کی نفی کریں اس کی اس نظام میں کوئی گنجائش باقی نہ رکھی جائے۔ جب یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہمارا معاشی نظام ہو یا سیاسی نظام یا انتظامی نظام یا عدالتی نظام اس کی بڑی خرابی ہی نظم و نسق کی ناکامی سے جڑی ہوئی ہے۔لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ادارہ جاتی عمل یا اداروں میں جو نظم و نسق قائم نہیں کر سکے اس کی وجوہات کیا ہیں اور کیا اس کے پیچھے ہماری اجتماعی سوچ اور فکر ہے جو ادارہ جاتی نظام کے خلاف ہے یا ہم اداروں کی بالادستی کو اپنی سیاسی بقا کے لیے خود ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
پاکستان نے اگر جدیدیت کی بنیاد پر حکمرانی کے نظام میں موثر اقدامات کرنے ہیں تو اسے دنیا کے تجربات سے سبق سیکھنا ہوگا۔اپنے داخلی نظام کا تجزیہ کرنا ہوگا اور ادارہ جاتی نظام کی اصلاحات کو بنیاد بنا کر کچھ بڑا کام کر کے دکھانا ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ادارہ جاتی اصلاحات حکمرانی کے نظام اور حکمرانی کی بنیاد پر کی اصلاحات جاتی نظام اداروں کی ہے کہ ہم نظام کی کے ساتھ کرتا ہے
پڑھیں:
’شریف خاندان کے اقتدار میں ملکی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے‘، پی ٹی آئی رہنماؤں کی حکومت پرسخت تنقید
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے حکومت پر سخت تنقید کی ہے جب کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ شریف خاندان جب بھی اقتدار میں آتا ہے ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں سیاستدان موجود ہیں، ہمیں قومی ہم آہنگی چاہیے، اپکا قومی لیڈر جیل میں پڑا ہوا ہے، ہماری قومی آہنگی آج نہیں رہی کیونکہ آپ نے ایک قومی لیڈر کو جیل میں ڈالا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپکے ملک کی اکانومی ختم ہو چکی ہے، شریف خاندان بھارت کے خلاف سخت ایکشن نہیں لے سکتا یہ اُن کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں، سخت ایکشن صرف ایک شخص لے سکتا ہے اور وہ بانی پی ٹی آئی ہے۔
عمر ایوب خان نے کہا کہ شریف خاندان جب بھی اقتدار میں آتا ہے ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے، نواز شریف 1997 میں وزیراعظم اور میرے والد وزیرخارجہ تھے، بھارت کا Mig 25 اسلام آباد کے اوپر اُڑا اور دو دو سانک دھماکے کیے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ میرے والد نے ایئرچیف کو کا فائٹر جیٹس دہلی کے اوپر سے اڑا سکتے ہیں تو انہوں نے وزیراعظم کی اجازت مانگی، نواز شریف کی اُس وقت کانپیں ٹانگ گئی تھیں، ایٹمی دھماکوں میں میرے والد سمیت پانچ لوگ تھے جنہوں نے کہا ایٹمی دھماکے ہوں گے، وزیراعظم نواز شریف صبح کلنٹن سے بات کر رہے تھے کہ وہ ڈیل چاہتے ہیں۔
عمر ایوب نے کہا کہ میرے والد نے کہا کہ نیوکلیئر ڈیوائسز سیل ہو چکی ہیں اب چاغی میں دھماکے ضرور ہونگے۔
عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ہمیشہ بتایا گیا کہ ہندوستان سے اپنی حفاظت کرنی ہے، کل جو ایمرجنسی صورتحال پیدا ہوئی وزیراعظم اگر سنجیدہ ہو تو وہ اپوزیشن لیڈرز کو فون کرے، وزیراعظم اپیل کرے، آپ اڈیالہ جیل جائیں اور عمرآن خان سے فوری ملاقات کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کر کروا کر ایک Consensus بنایا جائے، اپوزیشن لیڈرز اس وقت ججوں کے سامنے بھٹک رہے ہوں اور جج صاحب کہتے ہیں 12 بجے آفس سے رپورٹ منگوا رہا ہوں۔
تحریک انصاف نے پانچ مطالبات رکھ دیے
بار اعوان نے کہا کہ مقدمات کے اذاد ٹرائل کئے جائیں، تمام سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کو ختم کیا جاہے
میڈیا کو اذاد کیا جائے، پاکستان میں فوری طور پر نئے شفاف انتخابات کروائے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سارے قوم میں 80-75 فیصد عوام بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، حکومت انکھ کھولیں فاشزم کو ختم کرے، ترجیح بنیادوں پر پرانے مقدمات کو ختم کیا جائے، ماڈل ٹاون ون اور ٹو کا مقدمہ ابھی تک زہر التوا ہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ منختب عدالتوں سے منتخب مقدمات پر فیصلے کروائے جارہے ہیں، جلد فراہمی انصاف میں انصاف ختم ہوتا ہے
سپریم کورٹ کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے لطیف کھوسہ نے کہا کہ ریاست کے چاروں ستونوں کو برباد کر دیا گیا، ہمارا لیڈر عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے، اب انکے ساتھ ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی، وہاں پر عدالتوں احکامات پر ایک کرنل کے احکامات بھاری پڑ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام، ملک اور قانون و آئین کیلئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، یہ سب کسی کو بھی قبول نہیں ہے، سندھ کی آج عوام، کسان ، وکلا سب سڑک پر ہیں، آج بھارت کو جرات ہوئی ہے کہ یکطرفہ سندھ طاس معاہدہ ختم کر دیا، ہمارے اتاشی باہر نکال دیے، اتنی جرات پہلے قابل نہیں تھے۔
لطفیف کھوسہ نے کہا کہ اسی حکومت میں یہ سب ہوا، بانی پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے، عوام صرف انکے ساتھ کھڑی ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ 26 ترمیم جس انداز ڈھٹائی سے کی گئی سب کے سامنے ہیں، اختر منگل پارلیمنے میں اپنے سینیٹر کو تلاش کر رہے تھے، ہمارے ایم این ایز کو لالچ دی گئی، ہمارے ایم این ایز کو اٹھایا گیا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ یہ جھوٹ کا نظام یے کفر کا نظام ہوتا ہے، لوگوں پر گولیاں چلائیں گئیں
ہم نے پاکستان کا پانی دشمن سے چھینننا ہے، نینشل سیکورٹی کے تمام معاملات میں عمران خان کا شامل ہونا اہم ہے، بانی پی ٹی آئی جیل میں ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اب خاموش رہنے کا وقت نہیں، ہم بہت جلد باہر نکلیں گے ہم معمالات کو افہام و تفہیم سے حل چاہتے ہیں۔
ترجمان عمران خان نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ ملک کی بقا کیلئے بانی پی ٹی کا وجود لازم ہے اس حکومت کی کوئی پالیسی نہیں، سندھ بلوچستان کے حالات سامنے ہیں ، اج سلامتی کونسل کا اجلاس بغیر خان کے ہو رہا ہے
8 کو قوم نے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ دیا، آپ بانی پی ٹی آئی کو مائنس کرنا چاہتے ہیں نہیں کرسکتے، دس مرتبہ ہمیں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات سے روکا گیا۔
پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عمران خان کی خواہش ہے کہ قوم کے سامنے لاقانونیت کی صورتحال رکھی ہے، جواہش ہے کہ یہاں قبرستان کی خاموشی ہو، میرے ساتھ لطیف کھوسہ بابر اعوان نیاز اللہ نیازی علی بخاری موجود ہیں، 26 ترمیم کیساتھ جو رہا ہے وہ عوام کے سامنے رکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کا آئین و قانون سے کوئی تعلق نہیں، اج قوم و ریاست کے بیچ کوئی رابطہ نہیں، مجھے جیل سے دومیل دور روکا جاتا ہے، توہین عدالت کی درخواست کو لگنے میں مہینہ لگ جاتا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ انقلاب قومیں لاتی ہیںاگر مقتدر حلقوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے بہت جلد فیصلہ کریں گے، اج ہر جگہ لوگ پانی لوٹے جانے کے خوف سے خوفزدہ ہیں، ضرورت ہے کہ ملک لے لیڈر کو رہا کیا جائے، عمران خان اور قوم کے بیچ آنے والے کو قوم معاف نہیں کرے گی، پاکستان کے عوام کی بات سنو۔