نیپرا کی دسمبر 2024 کے ماہانہ فیول چارج ایڈجسٹمنٹ کے تحت 4.95 روپے فی یونٹ ریلیف کی درخواست پر عوامی سماعت مکمل
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے 26 فروری 2025 کو کے-الیکٹرک کی جانب سے دسمبر 2024 کے ماہانہ فیول چارج ایڈجسٹمنٹ (FCA) کے حوالے سے جمع کرائی گئی درخواست پر عوامی سماعت مکمل کر لی ہے، جس میں صارفین کے لیے 4.95 روپے فی یونٹ ریلیف کی استدعا کی گئی تھی۔ عوامی سماعت کے بعد، نیپرا فیصلہ جاری کرے گی، جس کے مطابق رقم اور مدت کا تعین کیا جائے گا۔
فیول چارج ایڈجسٹمنٹ کا انحصار بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال ہونے والے ایندھن کی عالمی منڈی میں قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور جنریشن مکس میں ہونے والی تبدیلیوں پر ہوتا ہے۔ یہ اخراجات نیپرا کی جانچ پڑتال اور منظوری کے بعد صارفین کے بلوں میں شامل کیے جاتے ہیں۔ جب ایندھن کی عالمی قیمتوں میں کمی واقع ہوتی ہے، تو صارفین اپنے بلوں میں اس کے اثرات کی صورت میں ریلیف حاصل کرتے ہیں۔ صارفین کے بلوں پر لاگو کیے جانے والے نرخوں کا تعین نیپرا کرتا ہے اور وفاقی حکومت کی جانب سے نوٹیفائی کیا جاتا ہے۔
کے-الیکٹرک نے عوامی سماعت کے دوران اپنے پاور پلانٹس کے جنریشن ٹیرف کے حوالے سے جون 2023 کے بعد کی مدت میں پارٹ لوڈ، ڈگریڈیشن کروز اور اسٹارٹ اپ کاسٹ کے حوالے سے ایڈجسٹمنٹ کو اجاگر کیا ہے اور درخواست کی ہے کہ ان اخراجات کی وصولی منفی فیول کاسٹ ویریئشن سے کی جائے تاکہ صارفین پر مستقبل میں اضافی مالی بوجھ نہ آئے۔
نیپرا کے فیصلے کے مطابق، منفی FCA کا اطلاق تمام صارفین پر ہوگا، سوائے الیکٹرک وہیکل چارجنگ اسٹیشنز (EVCS)، لائف لائن صارفین، پری پیڈ میٹرنگ صارفین، غیر TOU گھریلو صارفین (جو 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرتے ہیں) اور زرعی صارفین کے۔
اشتہار
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: عوامی سماعت صارفین کے
پڑھیں:
رواں مالی سال 2024-25 کیلئے مقرر کردہ معاشی اہداف میں سے متعدد اہداف کے حصول میں ناکامی کا انکشاف
وفاقی حکومت کا رواں مالی سال 2024-25 کیلئے مقرر کردہ معاشی اہداف میں سے متعدد اہداف کے حصول میں ناکامی کا انکشاف ہوا ہے تاہم مہنگائی میں اضافے کی رفتار کا نہ صرف ہدف حاصل کیا گیا ہے بلکہ مہنگائی مقررہ ہدف سے بھی کہیں زیادہ نیچے رہی ہے جبکہ رواں مالی سال میں معاشی شرح نمو کا 3.6 فیصد ہدف پورا نہ ہو سکا، رواں مالی سال معاشی شرح نمو 2.7 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کی اقتصادی کارکردگی سے متعلق تیارکردہ قومی اقتصادی سروے کے اہم نکات کے مطابق حکومت اس سال کئی اہم معاشی اہداف حاصل نہیں کرسکی ہے۔
رواں مالی سال کا اقتصادی سروے 9 جون کو جاری کیا جائے گا ذرائع کے مطابق متعدد معاشی شرح نمو کا 3.6 فیصد ہدف پورا نہ ہو سکا، رواں مالی سال معاشی شرح نمو 2.7 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے مہنگائی 12 فیصد ہدف کے مقابلے صرف 5 فیصد تک محدود رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال فی کس آمدنی مقرر ہدف سے 34 ہزار 794 روپے کم رہی، سالانہ فی کس آمدن 5 لاکھ 9 ہزار 174 روپے ریکارڈ کی گئی ہے فی کس آمدن کا ہدف 5 لاکھ 43 ہزار 968 روپے مقرر کیا تھا تھارواں مالی سال کے دوران بالواسطہ ٹیکس آمدن 7799 ارب ہدف کے مقابلے 8393 ارب روپے رہی ہے۔
زرعی شعبے کی کارکردگی 2 فیصد ہدف کے مقابلے 0.6 فیصد رہی، اہم فصلوں کی پیداوارمنفی 4.5 فیصد ہدف کے مقابلے منفی 13.5 فیصد رہی زیرجائزہ عرصے کے دوران ملک میں کاٹن 30.7 فیصد، مکئی 15.4 فیصد اور گنے کی پیداوار 3.9 فیصد گر گئی۔
چاول 1.4 فیصد، گندم کی پیداوار میں بھی 8.9 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی چھوٹی فصلوں کی پیداوار 4.3 فیصد ہدف کی نسبت 4.8 فیصد رہی رواں مالی سال کے دوران سبزیوں، پھلوں، آئل سیڈز، مصالحہ جات، سبز چارے کی پیداوار میں اضافہ دیکھا گیا اور صنعتی شعبے کا گروتھ ٹارگٹ 4.4 فیصد اور کارکردگی 4.8 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔
ٹیکسٹائل، گاڑیوں، ملبوسات، تمباکو، پیٹرولیم کی پیداوار میں اضافہ ہوا رواں مالی سال کے دوران بڑی صنعتوں کا پیداواری ہدف 3.5 فیصد، کارکردگی منفی 1.5 فیصد ریکارڈ کی گئی، چھوٹی صنعتوں کا ہدف 8.2 فیصد، کارکردگی 8.8 فیصد رہی ہے۔
خوراک، کیمیکلز، لوہے، اسٹیل، الیکڑیکل، مشینری، فرنیچرکی پیداوار گرگئی، سروسز سیکٹر کا سالانہ ہدف 4.1 فیصد، کارکردگی 2.9 فیصد رہی، تعمیراتی شعبے کی کارکردگی 5.5 فیصد ہدف کے مقابلے6.6 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ سروے کے مطابق بجلی، گیس، واٹرسیکٹرکی گروتھ 2.5 فیصد ہدف کیمقابلے 28.9 فیصد رہی، صحت کے شعبے کا ہدف 3.2 فیصد، کارکردگی 3.7 فیصد رہی، تعلیم کے شعبے کی کارکردگی 3.5 فیصد ہدف کی نسبت 4.4 فیصد رہی ہے۔
نجی شعبے کو قرضے 294 ارب سے بڑھ کر 870 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جبکہ مجموعی ریونیو 36.7 فیصد اضافے سے 13 ہزار 367 ارب روپے رہا، ٹیکس ٹو جی ڈی پی 6 فیصد سے بڑھ کر 8 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔