مجھے پارٹی سے کیوں نکالا گیا؟ شیر افضل مروت نے پی ٹی آئی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
سینیئر سیاستدان شیر افضل مروت نے پاکستان تحریک انصاف سے نکالے جانے پر معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مجھے پارٹی سے نکالنے سے قبل مجھے سنا نہیں گیا، تاہم پھر بھی فیصلے کو تسلیم کرتا ہوں اور 3 ماہ تک پارٹی کی کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لوں گا۔
یہ بھی پڑھیں شیر افضل مروت کی پی ٹی آئی میں واپسی ممکن ہے یا نہیں؟ سلمان اکرم راجا کا بڑا بیان آگیا
انہوں نے کہاکہ عمران خان خود یہ کہہ چکے ہیں کہ مجھے سے بھی اگر کوئی غلط فیصلہ ہوتا ہے تو سوال اٹھایا جائے، لیکن اس وقت تو چغلی اور غیبت کی بنیاد پر فیصلے ہورہے ہیں۔
شیر افضل مروت نے کہاکہ اگر اس طرح کے فیصلے پارٹی میں ہونے ہیں تو ہمیں عدلیہ سے انصاف مانگتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہاکہ میرے خلاف بیان بازی سے گریز نہ کیا گیا تو میں بھی باز نہیں آؤں گا، جو لوگ عمران خان کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی کوشش کررہے ہیں ان کی کارکردگی تین ماہ میں سامنے آجائےگی۔
انہوں نے کہاکہ آگے گلگت بلتستان کا الیکشن آرہا ہے، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ موجودہ لیڈرشپ میں سے کوئی ان ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہوسکے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ عمران خان کو لیڈر مانتا ہوں، اگر انہوں نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا کہا تو حکم پر لبیک کہوں گا لیکن میں یہ ان کے منہ سننا چاہتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں شہباز گل نے عمران خان کے 2 موبائل چوری کرکے جنرل فیض حمید کو دیے، شیر افضل مروت کا الزام
واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہدایت پر پاکستان تحریک انصاف نے شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکال دیا ہے، جس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کیا جا چکا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی شیر افضل مروت عمران خان فیصلہ تسلیم قومی اسمبلی مطالبہ معافی وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان تحریک انصاف پی ٹی ا ئی شیر افضل مروت فیصلہ تسلیم قومی اسمبلی مطالبہ معافی وی نیوز انہوں نے کہاکہ شیر افضل مروت پی ٹی ا ئی
پڑھیں:
ویڈیو لنک کسی صورت قبول نہیں، مقصد عمران خان کو تنہا کرنا ہے، علیمہ خان
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے پنجاب حکومت پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت ویڈیو لنک کے ذریعے کروانے کا فیصلہ دراصل عمران خان کو تنہائی کا شکار بنانے کی کوشش ہے، اور ہم اسے کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان نے واضح کیا کہ عمران خان کو اس وقت براہ راست عدالت میں پیش نہ کرنا ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جس کا مقصد ان کی آواز کو دبانا ہے۔
عمران خان کو گولیاں لگیں، تب بھی وہ عدالت آنے پر مصر تھے
انہوں نے یاد دلایا کہ جب عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ زخموں سے چور تھے، اس وقت بھی انہوں نے ویڈیو لنک کے بجائے عدالت میں بنفسِ نفیس پیش ہونے کو ترجیح دی۔
علیمہ خان نے سوال اٹھایا کہ اگر اُس وقت ویڈیو لنک کی اجازت نہیں دی گئی تو آج ایسا کرنے کا مقصد کیا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ “اب ایسا کسی صورت ہونے نہیں دیں گے۔ عمران خان کو عدالت میں پیش کیا جائے، ویڈیو لنک قابلِ قبول نہیں۔”
وکلاء سے مشاورت کیسے ہو گی جب وہ جیل میں ہوں گے؟
علیمہ خان نے ویڈیو لنک ٹرائل کے قانونی اور انسانی پہلو پر بھی سوال اٹھایا۔ ان کے مطابق، جب عمران خان عدالت میں موجود نہیں ہوں گے تو وہ اپنے وکلاء سے براہ راست مشورہ کیسے کریں گے؟
انہوں نے کہا کہ اس پورے عمل کا بنیادی مقصد عمران خان کو قانونی، سیاسی اور ذاتی طور پر مکمل آئسولیٹ کرنا ہے۔
26ویں آئینی ترمیم پر تحفظات
علیمہ خان نے 26 ویں آئینی ترمیم کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے تحت جیلوں میں ٹرائل کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ ترمیم صرف عمران خان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، لیکن کل کو کوئی بھی شہری اس کا شکار ہو سکتا ہے۔ وکلاء برادری کو متحد ہو کر اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔”
جیل ٹرائل کا مقصد فیملی اور قانونی ٹیم سے دوری ہے
انہوں نے کہا کہ جیل میں ہونے والے ٹرائلز کے باعث اہلِ خانہ اور وکلاء کو عمران خان سے براہ راست ملاقات کا موقع بھی نہیں ملتا۔
انہوں نے کہاکہ توشہ خانہ کیس کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی کو مکمل آئسولیشن میں ڈالنے کی تیاری کی جا رہی ہے، تاکہ وہ نہ کسی سے بات کر سکیں اور نہ ہی کسی کو اپنے مؤقف سے آگاہ کر سکیں۔”
انڈہ پھینکنے کے واقعے پر برہمی
علیمہ خان نے ان پر انڈہ پھینکنے کے واقعے پر بھی سخت ردعمل ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری کارکنوں نے ان خواتین کو پولیس کے حوالے کیا، لیکن اعلیٰ سطح سے احکامات آتے ہی انہیں چھوڑ دیا گیا۔ کل وہی خاتون دوبارہ آئی اور پتھر پھینکا — اگر یہی روش جاری رہی تو کل گولی بھی چل سکتی ہے۔
انہوں نے سکیورٹی اداروں سے مطالبہ کیا کہ ایسے افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔