Express News:
2025-07-27@12:13:11 GMT

چشم ما روشن دل ما شاد : رمضان الکریم 

اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT

ماہِ رمضان بہت ہی برکتوں والا مہینا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں اﷲ کی رحمت گویا ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند ہو جاتی ہے اور ہر نیک عمل کا اجر ستّر گنا بڑھ کر ملتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ انسان کسی بھی مشق سے بغیر منصوبہ بندی اور ذہنی تیاری کے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ انسان کی اسی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اﷲ کے رسول ﷺ نے بھی شعبان کے آخری روز ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا تھا، جس میں رمضان کے فضائل کے ساتھ اس کی خصوصیات کا بھی ذکر فرمایا اور اس میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی تلقین بھی کی۔

حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ ماہِ شعبان کے آخری دن رسول اﷲ ﷺ نے ہمیں ایک اہم خطبہ دیا اور اس میں آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے جس کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ‘‘

سورۃ البقرۃ میں بھی اس مہینے کے روزے کی فرضیت کا اعلان کیا گیا ہے: ’’تو جو کوئی بھی تم میں سے اس مہینے کو پائے اس پر لازم ہے کہ روزہ رکھے۔‘‘

اس مہینے میں روزہ رکھنا تو فرض ہے‘ جب کہ رات کا قیام نفل ہونے کے باوجود بہت ہی اجر و ثواب کا باعث ہے۔ قیام اللیل کا اطلاق سورۃ المزمل کی آیات کی روشنی میں کم سے کم ایک تہائی رات پر ہوتا ہے‘ لیکن خلفائے راشدینؓ کے دور سے ہی اس کا کم سے کم نصاب اُمت کے اندر رواج پاگیا ہے اور وہ ہے نظامِ تراویح۔ یہ قیام اللیل بہت اجر و فضیلت کا باعث ہے۔

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص اس مہینے میں اﷲ کی رضا اور اس کا قُرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (سنّت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ملے گا۔ ‘‘

انسان جو بھی نیکی کرے وہ خالصتاً اﷲ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے اس لیے کہ اگر نیّت ریا کاری اور شہرت کی ہو تو وہ نیکی برباد ہوجائے گی۔ اس ماہ میں خلوصِ نیّت سے ادا کیے گئے نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب ستّر فرضوں کے برابر ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اس ماہ کو نیکیوں کا موسم بہار کہا جاتا ہے۔

اس ماہ کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے رسول اکرمؐ کے ارشاد کا مفہوم ہے:

’’یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے۔ ‘‘

یہ مہینہ واقعی صبر کا ہے، اس لیے کہ اس میں جائز، حلال اور طیّب چیزوں سے بھی انسان صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک رُکتا ہے۔ یہ رکنا دراصل صبر اور تقویٰ کی تربیت ہے۔ انسان کی نفسانی خواہشات میں حدود کو پھلانگنے کا رجحان پایا جاتا ہے‘ جب کہ تقویٰ یہ ہے کہ انسان سارا سال اپنے آپ کو حرام سے روکے رکھے‘ گناہ سے باز آجائے اور منکرات سے اجتناب کرے، اسی کا نام صبر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی تکلیف یا مصیبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کرلینا ہی صبر ہے‘ جب کہ حقیقت میں صبر کا مفہوم بہت جامع اور ہمہ گیر ہے۔ چناں چہ امام راغب اصفہانیؒ نے صبر کے تین درجے مقرر کیے ہیں۔

پہلا: گناہوں سے اپنے آپ کو روکنا۔ دوسرا: اطاعت، بندگی اور دینی فرائض کی ادائی پر کاربند ہونا۔ اور تیسرا: مشکلات اور سختیوں میں صبر کرنا۔ خاص طور پر اقامت دین کی جدوجہد کے مراحل میں آنے والی سختیوں کو جھیلنا‘ برداشت کرنا اور پھر استقامت کا مظاہرہ کرنا۔ اس اعتبار سے گویا پورا دین صبر کی تشریح میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر صبر کو جنّت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔

اس مبارک مہینے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں غم گساری اور ہم دردی کے احساسات انسان میں پیدا ہوتے ہیں۔ غالباً اس کا سبب یہ ہے کہ خوش حال اور کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ جب روزہ رکھتے ہیں تو انہیں کم از کم ان لوگوں کا احساس ضرور ہوتا ہے جو فاقوں میں زندگی گزارتے ہیں۔

اس ماہ کی ایک اور خصوصیت یہ ہے: ’’اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔‘‘ عام طور پر روزہ رکھنے سے کچھ لوگ اس لیے بھی کتراتے ہیں کہ سارا دن مشقت نہیں ہوسکے گی تو ہماری کارکردگی پر فرق پڑے گا اور اس طرح ہماری کمائی میں کمی آسکتی ہے۔ اس اندیشے کا ازالہ کردیا کہ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ بندۂ مومن کو یقین ہونا چاہیے کہ روزے کی وجہ سے اس کے رزق میں کوئی کمی نہیں آئے گی، چاہے کارکردگی عام دنوں سے کم ہوجائے۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے اس میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو یہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا‘ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔‘‘

یہاں ایک لمحے رک کر سوچنا چاہیے کہ ہماری ہم دردی اور غم گساری کے سب سے زیادہ مستحق کون لوگ ہیں۔۔۔ ؟ اس کا جواب یقیناً یہ ہے کہ ہماری ہم دردی کے مستحق معاشرے کے وہ لوگ ہیں جنہیں عام دنوں میں دو وقت کی روٹی بھی میسّر نہیں آتی۔ اگر آپ ان کا روزہ افطار کرائیں تو اس سے معاشرے کے اندر جو بھائی چارے کی فضا بنے گی اس کا ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔

رسول اکرمؐ کا انتہائی پُرمغز خطبہ جاری تھا کہ حضرت سلمان فارسیؓ نے گویا درمیان میں یہ سوال پوچھ لیا: ’’اے اﷲ کے رسول ﷺ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا۔‘‘ اس پر آنحضورؐ نے فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا ایک کھجور پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے۔ اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اﷲ تعالیٰ میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا کہ جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تاآںکہ وہ جنّت میں پہنچ جائے گا۔ ‘‘

یہاں بین السطور یہ پیغام پنہاں ہے کہ جس کو کچھ میسر نہیں ہے وہ اپنے ساتھ کسی کو پانی‘ دودھ یا لسّی کے ایک گلاس میں بھی شریک کرلیتا ہے تو یہ بہت اجر و ثواب کی بات ہے۔ لیکن اگر معاملہ یہ ہو کہ خود اپنے لیے تو پکوان سجے ہوئے ہوں اور دوسروں کو صرف شربت یا لسی کے دو گھونٹ پر افطار کروایا جا رہا ہے تو یہ پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ اس حوالے سے اصل بات یہ ہے کہ اس کی عملی تعبیر سامنے آنی چاہیے اور ہمیں اس پر بالفعل عمل بھی کرنا چاہیے۔

رسول اکرمؐ نے اس ماہ کو تین حصوں میں تقسیم فرماتے ہوئے ہر عشرے کی الگ خصوصیات کا ذکر فرمایا: ’’اس ماہِ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے۔‘‘

استقبالِ رمضان کے حوالے سے انتہائی اہم خطبے کے آخری الفاظ یہ ہیں: ’’اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف و کمی کر دے گا‘ اﷲ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔‘‘

یہ بھی گویا ہم دردی اور غم گساری کا ایک مظہر ہے کہ اپنے ماتحت لوگوں کی ذمے داریوں میں تخفیف کردی جائے۔

رسول اکرمؐ نے فرمایا: ’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ انہیں روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ ایک حدیث میں اس کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے: ’’جو شخص (روزہ رکھ کر) جھوٹی بات بنانا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اﷲ کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ محض اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ اصل میں روزہ وہی ہے جو مکمل آداب اور شرائط کے ساتھ رکھا جائے۔

رمضان واقعی نیکیوں کی برسات کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں اگر ہم صحیح معنوں میں محنت کرکے اپنے نفس کی تربیت کرلیں تو اس کا اور کوئی بدل نہیں ہوسکتا اور اگر ہم اس ماہ میں بھی اﷲ کی رحمت سمیٹنے اور اپنی بخشش کرانے سے محروم رہ جائیں تو پھر ہم سے بڑا بدنصیب اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

درحقیقت رمضان المبارک کے دو متوازی پروگرام ہیں، ایک ہے دن کا روزہ اور دوسرا ہے رات کا قیام۔ رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور اجر و ثواب کی امید کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے گئے‘ اور جس نے رمضان (کی راتوں) میں قیام کیا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور اجر و ثواب کی امید کے ساتھ اس کے بھی تمام سابقہ گناہ معاف کر دیے گئے‘ اور جو لیلۃ القدر میں کھڑا رہا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور اجر و ثواب کی امید کے ساتھ اس کی بھی سابقہ تمام خطائیں بخش دی گئیں۔‘‘

اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمایا: روزہ اور قرآن (قیامت کے روز) بندے کے حق میں شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا، اے ربّ! میں نے اس شخص کو دن میں کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس سے روکے رکھا‘ تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما! اور قرآن یہ کہے گا کہ اے پروردگار! میں نے اسے رات کے وقت سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا‘ لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما! چناں چہ (روزہ اور قرآن) دونوں کی شفاعت بندے کے حق میں قبول کی جائے گی اور اس کے لیے جنّت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا۔‘‘

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اجر و ثواب کی اس مہینے میں کے ساتھ اس نے فرمایا رسول اکرم گا اور اس کے حق میں کے برابر مہینہ ہے یہ ہے کہ کا ثواب جاتا ہے اس ماہ صبر کا ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

12 روزہ جنگ نے نشاندہی کی کہ کون سفارتکاری کا حامی ہے، سید عباس عراقچی

دفتر خارجہ میں ایک اجلاس سے ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ٹیلیفونک روابط، بیرون ملک ایرانی سفارتخانوں کی کوششوں اور دیگر اقدامات کے نتیجے میں دنیا کے 120 سے زائد ممالک نے ایران کیخلاف حملوں کی مذمت کرتے ہوئے تہران کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے فارن آفس میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کی۔ اس اجلاس میں انہوں نے 12 روزہ جنگ کے دوران اور اس کے بعد سفارتی اقدامات سمیت میدان کارزار و سفارتکاری کے درمیان ہم آہنگی کی وضاحت کی۔ اس موقع پر ایرانی صدر ڈاکٹر "مسعود پزشکیان" بھی موجود تھے۔ سید عباس عراقچی نے کہا کہ جنگ کے دوران وزارت خارجہ کے تمام اراکین فوجی دستوں کے شانہ بشانہ تھے۔ 12 روزہ جنگ، میدان کارزار اور سفارتکاری کے درمیان ہم آہنگی کی ایک بہترین مثال تھی۔ ہماری مسلح افواج نے دشمنوں کے خلاف بہادری سے ملک کا دفاع کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سفارتکاری کے میدان کے سپاہی دن رات مصروف عمل رہے۔ حملے کے دن صبح 6 بجے ہی دفتر خارجہ میں اس وزارت کے مدیران موجود تھے اور اس پورے عرصے میں وزارت خارجہ میں ہی موجود رہے، حتیٰ کہ کچھ راتیں وہ گھر نہیں گئے بلکہ وزارت کے دفتر میں ہی رکے رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے سفارتکاروں نے ایرانی عوام کی مظلومیت اور واضح جارحیت کے خلاف اپنے دفاعی حق کی وکالت کی۔ البتہ وزارت خارجہ حکومت کا ایک حصہ ہے۔ مجموعی طور پر حکومت نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔  

سید عباس عراقچی نے کہا کہ دشمن کو پیچھے ہٹنے اور بلا مشروط جنگ بندی کی درخواست پر مجبور کرنے میں نہ صرف مسلح افواج کی مزاحمت بلکہ ملک کی شاندار سیاسی قیادت بھی کارفرما تھی، جس کی وجہ سے کسی قسم کی کمزوری یا کوتاہی سامنے نہیں آئی اور حکومت نے بہترین کارکردگی دکھائی۔ انہوں نے کہا کہ میدان میں عوامی مزاحمت اور ڈپلومیسی کے شعبے میں ملک کے سپوتوں نے ان 12 دنوں میں بہت سے سفارتی اقدامات انجام دئیے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیلیفونک روابط، بیرون ملک ایرانی سفارتخانوں کی کوششوں اور دیگر اقدامات کے نتیجے میں دنیا کے 120 سے زائد ممالک نے ایران کے خلاف حملوں کی مذمت کرتے ہوئے تہران کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے بورڈ آف گورنرز کے علاوہ کہ جن کا موقف واضح ہے، کوئی بین الاقوامی ادارہ یا تنظیم نہیں تھی جس نے ایران کی حمایت نہ کی ہو۔ شنگھائی تعاون تنظیم، غیر وابستہ تحریک، خلیج تعاون تنظیم، عرب لیگ، افریقی یونین اور دنیا کے بہت سے دیگر رہنماؤں نے ایران کے عوام کی حقانیت کو تسلیم کیا۔

ایران پر اس وقت حملہ ہوا جب وہ سفارت کاری و مذاکرات کر رہا تھا۔ جس نے دنیا پر آشکار کیا کہ کون سفارت کاری و بین الاقوامی مسائل کے حل کے لیے ڈپلومیٹک ذرائع کا استعمال کرتا ہے اور کون طاقت، دھونس و تسلط کے راستے پر چلتا ہے۔ ان 12 دنوں نے ایران کی سچائی دنیا پر واضح کر دی۔ سید عباس عراقچی نے یہ بھی کہا کہ وزارت خارجہ کی کوششیں بین الاقوامی سطح پر جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم صدارتی قانونی معاونت کے ساتھ مل کر گزشتہ چند دنوں میں ہونے والے جرائم کی دستاویزات تیار کر رہے ہیں۔ وزارت خارجہ، غزہ کے معاملات میں مصروف ہے اور اس سلسلے میں متعدد ٹیلیفونک رابطے کر رہی ہے۔ گزشتہ روز بھی متعدد ٹیلیفونک کالز کی گئیں تا کہ غزہ میں ہونے والے جرائم کو روکنے، بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور عوام کو خوراک و ادویات کے محاصرے میں رکھ کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششوں کے خلاف مربوط اقدامات کئے جائیں۔

متعلقہ مضامین

  • ملکی سرحدوں کے محافظ پاک فوج کے جوان خدمتِ خلق کا روشن استعارہ
  • بارہ روزہ جنگ نے ایران کو دوبارہ متحد کر دیا، فرانسیسی ماہر
  • وزیراعظم سے سینیٹر حافظ عبد الکریم کی ملاقات ، ملکی سیاسی صورتحال پر گفتگو
  • 12 روزہ جنگ نے نشاندہی کی کہ کون سفارتکاری کا حامی ہے، سید عباس عراقچی
  • پاکستان کے پہلے اسکلز امپیکٹ بانڈ کی منظوری، نوجوانوں کے لیے روزگار اور سرمایہ کاری کے نئے امکانات روشن
  • غیرت کے نام پر قتل کا کیس، بانو بی بی کی والدہ دو روزہ ریمانڈ پر تحقیقاتی ونگ کے حوالے
  • اسحاق ڈار ایک روزہ دورے پر واشنگٹن پہنچ گئے
  • مارشل آرٹ میں پاکستان کا نام روشن کرنے والی کوئٹہ کی باہمت خواتین
  • نبی کریم ﷺ کی روشن تعلیمات
  • اپوزیشن اتحاد کا دو روزہ آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان