Express News:
2025-07-26@23:39:02 GMT

نادر شاہ اور ٹرمپ

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

دنیا کا نظام بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ٹرمپ کی حکومت امریکا اور دنیا پرگہرے نقوش چھوڑتی نظر آرہی ہے۔ یوکرین اور زیلنسکی کے ساتھ جو کچھ ہوا اچھا نہیں ہوا۔ یوکرین، دنیا کی ایک مضبوط طاقت روس سے نبرد آزما تھا اور یوکرین کے ساتھ امریکا اور پورا یورپ کھڑا تھا مگر ٹرمپ صاحب کے چار جملوں نے یوکرین اور زیلنسکی پر جیسے میزائل داغ دیے، شاید ایسا نقصان یوکرین کو روس کے ساتھ تین سال جنگ میں بھی نہ ہوا۔

زیلنسکی سے پہلا سوال ٹرمپ نے یہ کیا کہ انھوں نے اب تک انتخابات کیوں نہیں کرائے؟ اور یہ بھی کہا کہ وہ جمہوری نظام سے نکلا ہوا ایک آمر ہے۔ یوکرین کی جنگ کے حوالے سے امریکا کے ساتھ روس کے ساتھ مذاکرات، سعودی عرب میں ہوچکے ہیں جب کہ ان مذاکرات میں یو کرین فریق نہیں ہے۔

ان مذاکرات میں یو کرین کو فریق نہ بنانا نفسیاتی اعتبار سے ان کو جھکانے کے برابر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیوتن کو یہ جنگ جیتنے میں تین سال لگے اور اب وہ اپنی مرضی سے جنگ بندی کا اعلان کریں گے۔ بائیڈن کے دورِ حکومت میں یو کرین کو امریکا سے بھاری امداد بھی ملی اور اسلحہ بھی۔ پورا یورپ یوکرین کے ساتھ تھا اور چین روس کے ساتھ۔

تقریبا تین صدیاں قبل نادر شاہ افشار ایران کا بادشاہ تھا۔ اس کی بہت بڑی سلطنت تھی۔ دہلی پر محمد شاہ رنگیلا کی حکومت تھی۔ نادر شاہ کو ہندوستان فتح کرنے سے کوئی سروکار نہ تھا، بس اس کو دلی کی دولت درکار تھی۔

مورخ یہ لکھتا ہے کہ نادر شاہ کی دلی پر چڑھائی، دنیا کی سب سے بڑی ڈکیتی تھی۔ نادر شاہ نے نہ صرف دلی کو لوٹا بلکہ ہندوستان کا بیش قیمت ہیرا کوہِ نور بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ بعد ازاں یہ ہیرا رنجیت سنگھ کی شان بنا اور رنجیت سنگھ کے بعد انگریز سامراج کے آنے کے بعد یہ ہیرا برطانیہ کی ملکہ کے تاج کی زینت بنا اور آج تک انھیں کے قبضے میں ہے۔ نادر شاہ کی پالیسی کے خدوخال، ٹرمپ سے ملتے جلتے ہیں۔ ایران اس وقت کی سپر پاور تھا اور امریکا آج کا سپر پاور ہے۔

سندھ کے بادشاہ نور محمد کلہوڑو کی حا لت خراب ہوئی، جس طرح ہمایوں نے 1542 میں شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد عمرکوٹ میں پناہ لی، ہمایوں کو عمرکوٹ میں راجپوتوں نے پناہ دی ۔ جہاں عمرکوٹ قلعہ میں اکبر بادشاہ پیدا ہوا، وہ صرف گیارہ سال کی عمر میں دلی کے تخت پر بیٹھا، اکبر نے ہندوستان میں رواداری کی روایت ڈالی۔

اکبر ہندوستان کا پہلا بادشاہ تھا جس نے عام رعایا میں مقبولیت حاصل کی۔ اکبر بادشاہ کے دور میں ہندو و مسلم عداوتیں کم ہوئیں، مگر ہندوستان پر راجپوتوں اور ٹھاکروں کی مخصوص ذہنیت ہمیشہ غالب رہی۔ نریندر مودی نے نادر شاہ کی ہندوستان پر چڑھائی اور ڈکیتی کا الزام بھی ہندوستان کے مسلمانوں پر لگا دیا اور اب وہ ان تمام آثارِ قدیمہ اور نقوش کو ہندوستان سے مٹانا چاہتا ہے جو مسلمان حکمرانوں سے منسلک ہیں مگر انتخابات میں ہندوستان کے عوام نے گاندھی کی سیکیولر ازم کو ترجیح دی۔ اب ہیں امریکا میں ٹرمپ اور ہندوستان میں مودی۔

دلی سے ایچ ٹی سورلے یہ لکھتے ہیں کہ سندھ کے بادشاہ نور محمد کلہوڑو کو نادر شاہ نے یہ پیغام بھجوایا کہ اتنا خراخ دے اور بطور ضمانت اپنا بیٹا غلام شاہ کلہوڑو ان کے حوالے کردے بہ صورتِ دیگر نادر شاہ سندھ پر حملہ کردے گا۔ غلام شاہ کلہوڑو، نادر شاہ کے پاس مغوی رہا اور سندھ کے بادشاہ نور محمد کلہوڑو اپنے بیٹے کے عوض نادر شاہ کو برابر تاوان بھیجتے رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ کے عظیم شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی حیات تھے۔

تاریخ کے ان صفحوں کو پلٹ کر میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ نادر شاہ کے بعد سے لے کر اب تک یہ دنیا بدلی نہیں۔ پہلے چنگیز خان تھا، نادر شاہ تھا، ہٹلرصاحب اس دنیا پر مسلط ہوئے جوکہ ایک بہت ہی مختلف آمر تھا اس کے بیج جمہوریت سے تھے اور پھر اس بات کی تصدیق مورخ کرے گا کہ یوکرین کا زیلنسکی آمر تھا یا پھر پیوتن؟ اور اگر بات کی جائے امریکا کی ، تو امریکی تاریخ میں سب سے انوکھے صدر جو آئے ہیں وہ ہیں صدر ٹرمپ! صدر ٹرمپ کا پہلا دورگزرگیا، مگر اس دورحکومت میں یعنی صرف ڈیڑھ مہینے میں جس طرح کے آرڈر وہ پاس کر رہے ہیں، امریکی مبصرین کو امریکا کی جمہوریت سے ایک آمر ابھرتا نظر آ رہا ہے۔

یہ ہے کیپٹل ازم نظام میں پنپتی جمہوریت کا عالم اور قصور جمہوریت کا نہیں کیپٹل ازم نظام کا ہے۔ جس کو لالچ یا پھر بزنس کی زبان میں پرافٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ انسانی ذہانت کے درپردہ یہ ہے اس دنیا کی شکل۔ امریکا کے اندر اس وقت ایلون مسک جیسے لوگوں کا راج ہے۔

ایلون مسک نے ٹیکنالوجی اور سائنس میں جو کمالات دکھائے ہیں وہ الگ لیکن منافع کمانے کے لیے لالچی سوچ جو وہ رکھتے ہیں، اس میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی جریدہ اکانومسٹ یہ لکھتا ہے کہ امریکا میں ٹرمپ حکومت بہت سی انڈر ڈیل کرسکتی ہے۔ ہم جیسے ممالک اور ہمارے سیاستدان بھی انڈر ڈیلزکرتے ہیں، واشنگٹن میں لابنگ کرتے ہیں۔ یہ ہے جدید دور میں نادر شاہ جیسی ٹرمپ کے امریکا کی نیم صورت۔

بے نظیرکی حکومت سے لے کر نواز شریف تمام سیاستدانوں نے ایسا ہی کچھ کیا۔ عمران خان نے تو لابنگ میں سب کو ہی پیچھے چھوڑ دیا، جو بیان ٹرمپ نے یوکرین کے زیلنسکی کے لیے دیا اگر وہ ہی میزائل وہ پاکستان پر داغتے تو یہاں کے حکمرانوں کو بھی لگ پتا جاتا۔

2014 بیرونی طاقتوں کو یہ نظر آیا کہ شاید پاکستان، چین کے بلاک میں جا رہا ہے۔ ہم نے چین کو بھی دیکھ لیا ہے کیونکہ ہمیں ہمیشہ سے اپنی بقاء کے لیے قرضے درکار تھے۔ اب ان بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے ہم آزاد نہیں رہ سکتے۔ ہم پر چین کے قرضوں کا بھی اتنا ہی بوجھ ہے جتنا کہ امریکا کے قرضوں کا۔

ریاست کے پیچھے اب بھی وہ ہی جنگل کا قانون ہے۔ وہ ہی غاروں سے نکلے ہوئے انسان ہیں جنھوں نے معاشرہ بنایا اور معاشرے نے خود اپنی ارتقاء کے قوانین بنائے، اخلاقیات مرتب کی اور پھر ایک ماڈرن انسان وجود میں آیا۔ ریاستوں نے آئین دیے اور آئین نے بنیادی حقوق اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ حقوق وسیع ہوتے گئے۔ امریکا کی عدالتوں نے ٹرمپ کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے کیونکہ عدالتیں انسانی حقوق کی محافظ ہیں۔ ایلون مسک سے یورپ نے گاڑیاں لینا بند کردی ہیں اور یہ چین کی فتح ہے، ایک پاگل پن ہے جو دنیا پر مسلط ہے۔

اس پسِ منظر میں بہ حیثیت ایک ملک ہم کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس کا حل ہے ہمارا آئین اور ہماری جمہوریت جو آج کل مشکل میں ہیں۔ اکانومسٹ جو جمہوریت کے حوالے سے اپنا انڈیکس ترتیب دیتا ہے اور اس ترتیب میں اس دفعہ ہم 37  سے35 نمبر پر جا چکے ہیں۔

ہم وہ ملک ہیں جن کا شمار دنیا کی دس بدترین جمہوری ریاستوں میں ہوتا ہے لیکن ہم ہیں جمہوری اور ہمارے پاس آئین بھی ہے اور انسانی حقوق بھی۔ ہم وفاق یا پھر وفاقی جمہوریت کے اعتبار سے اور بھی کمزور ہیں اور یہی روایت اب سندھ میں بھی چل پڑی ہے پھر ہم اس کو ہوا بھی دے رہے ہیں۔

مشکل یہ ہے کہ ہمارے پاس پیپلز پارٹی کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ جس طرح پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کو نعم البدل پی ٹی آئی ہے۔ سولہ سال سے سندھ پر بدترین حکمرانی، پیر پرستی اور وڈیرہ شاہی کا راج ہے۔کہیں ایسا نہ ہوکہ سندھ قوم پرستوں کے ہتھے چڑھ جائے۔ انگریزوں کی حکومت میں بھی سندھ کا یہ حال نہ تھا جو اب ہے۔ یہ ہماری ریاستی سوچ تھی کہ ان وڈیروں کو زندہ رکھا جائے۔ اسی طرح دیہی اور شہری سندھ کا تضاد بھی زندہ رکھا جائے، لیکن اس پسِ منظر میں مڈل طبقہ پس چکا ہے۔

پاکستان کو اب بدلتی دنیا کے تقاضے پورا کرنے ہوںگے۔پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف پانی کے مسئلے پر انتہائی کمزور ہے جب کہ قوم پرست اور پی ٹی آئی پانی کے مسئلے پر واضح موقف رکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکا کی نادر شاہ کی حکومت دنیا کی سندھ کے کے ساتھ کے بعد

پڑھیں:

ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا

اسلام ٹائمز: یہ نام نہاد تنظیمیں دہرے معیار رکھتی ہیں، یوکرین پر حملہ ہو تو پورا مغرب چیخ اٹھتا ہے، روس پر پابندیاں لگتی ہیں، میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ لیکن فلسطین کے لیے وہی دنیا صرف "تشویش" اور "فکر" ظاہر کرکے چپ ہو جاتی ہے۔ یہ دوہرا معیار انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔۔ آخر میں وہی جو امید کی کرن ہیں، ظلم کی سیاہ رات میں روشنی کا چراغ ہیں، غریب اور بے بسوں کی آس ہے، دل کی صدا ہیں۔ مولا آجائیے، مولا آجائیے۔ جب دنیا ظلم سے بھر جائے، جب انصاف سو جائے، جب آنکھیں اشکبار ہوں، تب ایک ہی صدا دل سے نکلتی ہے: "یا صاحبَ الزمان! أدرِکنا!" (اے زمانے کے آقا! ہماری مدد کو پہنچیں!) تحریر: سیدہ زہراء عباس

ظلم کا لفظ کم پڑ گیا ہے۔ غزہ اور فلسطین میں ایسے مظالم کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں کہ رہتی دنیا تک انسانیت ان کو سن کر شرمائے گی۔ ظالم صہیونی اپنی درندگی کی تمام حدیں پار کرچکے ہیں، لیکن۔۔۔۔ نہ کوئی روکنے والا ہے، نہ پوچھنے والا۔ خالی باتیں، جلوس، ریلیاں، کانفرنسیں۔۔۔۔ اور عمل؟ آہ! کیسا ظلم ہے یہ کہ روحیں کانپ جاتی ہیں، دل دہل جاتے ہیں۔ قاہرہ کے ایک اسکول میں موجود بےگھر فلسطینی خاندانوں پر جب اسرائیلی فضائی حملہ ہوا، تو ایک بچے کا بازو اس کے جسم سے الگ ہوگیا۔۔۔۔ وہ بچہ اذیت میں تڑپتا رہا، بلکتا رہا، لیکن انصاف ساکت و صامت رہا۔

مسلمانوں! کیا تمہیں ان معصوموں کی آہ و بکا سنائی نہیں دیتی۔؟ کیا بچوں کی کٹی ہوئی لاشیں، ان کی سسکیاں، ان کی رُکتی سانسیں تمہارے دل پر دستک نہیں دیتیں۔؟ (رونے کی بھی ہمت ختم ہوچکی ہے) ظلم پر ظلم۔۔۔۔ دھماکے۔۔۔ تباہی۔۔۔ بھوک، پیاس، قحط۔۔۔۔ کون سی ایسی اذیت باقی رہ گئی ہے، جس سے وہ نہیں گزرے۔؟ الفاظ بے بس ہیں۔ کبھی کسی ماں کو گولی لگی، کہیں کوئی بچہ دم توڑتا رہا۔۔۔۔ اور غزہ کے بچے سوال کرتے ہیں: "امتِ مسلمہ کہاں ہے۔؟" معصوم لاشیں ہم سے پوچھتی ہیں: "مسلمانوں، تم کب جاگو گے۔؟" اوہ مجالس و ماتم برپا کرنے والو! یہ ظلم تمہیں نظر نہیں آرہا۔؟ کیا یہی درسِ کربلا ہے۔؟ کیا یہی پیغامِ مولا حسینؑ ہے۔؟

کربلا تو ہمیں ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام دیتی ہے، مگر ہم کیا کر رہے ہیں۔؟ مجالس میں رو دھو کر، ماتم کرکے، چند لوگوں میں نذر و نیاز بانٹ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ حق ادا ہوگیا؟ کہ ہم نے مولا کو راضی کر لیا۔ نہیں! کربلا کو سمجھو۔۔۔ اگر مقصدِ کربلا سمجھ آ جاتا، تو ہم آج ہر ظالم کے خلاف اور ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ "ظالم کے آگے خاموش رہنا، ظلم سے بھی بڑا ظلم ہے!" امام حسینؑ کا کردار ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ظلم کے خلاف خاموشی بھی گناہ کے زمرے میں آتی ہے۔ آج ظلم کی سیاہ چادر غزہ کے افق پر چھا چکی ہے۔ غزہ میں تقریباً 2.1 ملین انسان رہ رہے ہیں۔ ان میں سے 96%، یعنی 2.13 ملین افراد شدید قحط اور خوراک کے بحران کا شکار ہیں۔

4700,000 ہزار افراد ایسے ہیں، جو مکمل فاقے اور موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ 71,000 بچے اور 17,000 مائیں شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور موت کے خطرے میں ہیں۔ غزہ ہمیں پکار رہا ہے۔ اس مظلوم خطے میں لوگ درد، ظلم، تباہی، بھوک، افلاس، قحط میں گھرے ہیں بچے، عورتیں، بوڑھے بزرگ سب اپنے بنیادی حقوق کے لیے ترس رہے ہیں اور ان کی چیخ و پکار عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ آج جب پوری دنیا میں آزادی اور حقوق انسانی اور جمہوریت کی بات ہوتی ہے، کسی کو غزہ اور فلسطین کے مظلوم نظر نہیں آرہے، کہاں ہیں وہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے علمبردار؟ جس کا قیام اور مقصد انسانی حقوق کا تحفظ تھا۔

یہ نام نہاد تنظیمیں دہرے معیار رکھتی ہیں، یوکرین پر حملہ ہو تو پورا مغرب چیخ اٹھتا ہے، روس پر پابندیاں لگتی ہیں، میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ لیکن فلسطین کے لیے وہی دنیا صرف "تشویش" اور "فکر" ظاہر کرکے چپ ہو جاتی ہے۔ یہ دوہرا معیار انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔۔ آخر میں وہی جو امید کی کرن ہیں، ظلم کی سیاہ رات میں روشنی کا چراغ ہیں، غریب اور بے بسوں کی آس ہے، دل کی صدا ہیں۔ مولا آجائیے، مولا آجائیے۔ جب دنیا ظلم سے بھر جائے، جب انصاف سو جائے، جب آنکھیں اشکبار ہوں، تب ایک ہی صدا دل سے نکلتی ہے: "یا صاحبَ الزمان! أدرِکنا!" (اے زمانے کے آقا! ہماری مدد کو پہنچیں!)

متعلقہ مضامین

  • تھائی لینڈ، کمبوڈیا لڑائی نے پاک بھارت تنازع کی یاد دلا دی، جنگ بندی کا خواہاں ہوں، ٹرمپ
  • ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
  • ہمارے حکمرانوں نے غزہ میں مظالم کی پشت پناہی کرنیوالے ٹرمپ کو نوبل انعام کیلئے نامزد کردیا، حافظ نعیم
  • ٹرمپ غزہ میں مظالم کی پشت پناہی کر رہا ہے جبکہ حکمرانوں نوبل انعام کیلئے نامزد کردیا ہے، حافظ نعیم
  • امریکا سے گوشت نہ خریدنے والے ممالک ‘نوٹس’ پر ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا انتباہ
  • ٹرمپ کا ‘اے آئی ایکشن پلان’ کا اعلان، کیا امریکا چین کی مصنوعی ذہانت میں ترقی سے خوفزدہ ہے؟
  • ٹرمپ کا گوگل، مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیوں کو بھارتی شہریوں کو ملازمتیں نہ دینے کا انتباہ
  • امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی نے قانونی جنگ ختم کرنے اور وفاقی فنڈنگ پر ٹرمپ انتظامیہ سے ڈیل کر لی
  • ٹرمپ انتظامیہ کاامریکا کا سفر کرنے والے ہر فرد پر 250 ڈالرز اضافی رقم عائد کرنے کا فیصلہ
  • تیل کی قیمت نیچے لانا چاہتے ہیں، امریکا میں کاروبار نہ کھولنے والوں کو زیادہ ٹیرف دینا پڑے گا، ٹرمپ