Express News:
2025-09-18@12:06:30 GMT

نادر شاہ اور ٹرمپ

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

دنیا کا نظام بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ٹرمپ کی حکومت امریکا اور دنیا پرگہرے نقوش چھوڑتی نظر آرہی ہے۔ یوکرین اور زیلنسکی کے ساتھ جو کچھ ہوا اچھا نہیں ہوا۔ یوکرین، دنیا کی ایک مضبوط طاقت روس سے نبرد آزما تھا اور یوکرین کے ساتھ امریکا اور پورا یورپ کھڑا تھا مگر ٹرمپ صاحب کے چار جملوں نے یوکرین اور زیلنسکی پر جیسے میزائل داغ دیے، شاید ایسا نقصان یوکرین کو روس کے ساتھ تین سال جنگ میں بھی نہ ہوا۔

زیلنسکی سے پہلا سوال ٹرمپ نے یہ کیا کہ انھوں نے اب تک انتخابات کیوں نہیں کرائے؟ اور یہ بھی کہا کہ وہ جمہوری نظام سے نکلا ہوا ایک آمر ہے۔ یوکرین کی جنگ کے حوالے سے امریکا کے ساتھ روس کے ساتھ مذاکرات، سعودی عرب میں ہوچکے ہیں جب کہ ان مذاکرات میں یو کرین فریق نہیں ہے۔

ان مذاکرات میں یو کرین کو فریق نہ بنانا نفسیاتی اعتبار سے ان کو جھکانے کے برابر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیوتن کو یہ جنگ جیتنے میں تین سال لگے اور اب وہ اپنی مرضی سے جنگ بندی کا اعلان کریں گے۔ بائیڈن کے دورِ حکومت میں یو کرین کو امریکا سے بھاری امداد بھی ملی اور اسلحہ بھی۔ پورا یورپ یوکرین کے ساتھ تھا اور چین روس کے ساتھ۔

تقریبا تین صدیاں قبل نادر شاہ افشار ایران کا بادشاہ تھا۔ اس کی بہت بڑی سلطنت تھی۔ دہلی پر محمد شاہ رنگیلا کی حکومت تھی۔ نادر شاہ کو ہندوستان فتح کرنے سے کوئی سروکار نہ تھا، بس اس کو دلی کی دولت درکار تھی۔

مورخ یہ لکھتا ہے کہ نادر شاہ کی دلی پر چڑھائی، دنیا کی سب سے بڑی ڈکیتی تھی۔ نادر شاہ نے نہ صرف دلی کو لوٹا بلکہ ہندوستان کا بیش قیمت ہیرا کوہِ نور بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ بعد ازاں یہ ہیرا رنجیت سنگھ کی شان بنا اور رنجیت سنگھ کے بعد انگریز سامراج کے آنے کے بعد یہ ہیرا برطانیہ کی ملکہ کے تاج کی زینت بنا اور آج تک انھیں کے قبضے میں ہے۔ نادر شاہ کی پالیسی کے خدوخال، ٹرمپ سے ملتے جلتے ہیں۔ ایران اس وقت کی سپر پاور تھا اور امریکا آج کا سپر پاور ہے۔

سندھ کے بادشاہ نور محمد کلہوڑو کی حا لت خراب ہوئی، جس طرح ہمایوں نے 1542 میں شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد عمرکوٹ میں پناہ لی، ہمایوں کو عمرکوٹ میں راجپوتوں نے پناہ دی ۔ جہاں عمرکوٹ قلعہ میں اکبر بادشاہ پیدا ہوا، وہ صرف گیارہ سال کی عمر میں دلی کے تخت پر بیٹھا، اکبر نے ہندوستان میں رواداری کی روایت ڈالی۔

اکبر ہندوستان کا پہلا بادشاہ تھا جس نے عام رعایا میں مقبولیت حاصل کی۔ اکبر بادشاہ کے دور میں ہندو و مسلم عداوتیں کم ہوئیں، مگر ہندوستان پر راجپوتوں اور ٹھاکروں کی مخصوص ذہنیت ہمیشہ غالب رہی۔ نریندر مودی نے نادر شاہ کی ہندوستان پر چڑھائی اور ڈکیتی کا الزام بھی ہندوستان کے مسلمانوں پر لگا دیا اور اب وہ ان تمام آثارِ قدیمہ اور نقوش کو ہندوستان سے مٹانا چاہتا ہے جو مسلمان حکمرانوں سے منسلک ہیں مگر انتخابات میں ہندوستان کے عوام نے گاندھی کی سیکیولر ازم کو ترجیح دی۔ اب ہیں امریکا میں ٹرمپ اور ہندوستان میں مودی۔

دلی سے ایچ ٹی سورلے یہ لکھتے ہیں کہ سندھ کے بادشاہ نور محمد کلہوڑو کو نادر شاہ نے یہ پیغام بھجوایا کہ اتنا خراخ دے اور بطور ضمانت اپنا بیٹا غلام شاہ کلہوڑو ان کے حوالے کردے بہ صورتِ دیگر نادر شاہ سندھ پر حملہ کردے گا۔ غلام شاہ کلہوڑو، نادر شاہ کے پاس مغوی رہا اور سندھ کے بادشاہ نور محمد کلہوڑو اپنے بیٹے کے عوض نادر شاہ کو برابر تاوان بھیجتے رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ کے عظیم شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی حیات تھے۔

تاریخ کے ان صفحوں کو پلٹ کر میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ نادر شاہ کے بعد سے لے کر اب تک یہ دنیا بدلی نہیں۔ پہلے چنگیز خان تھا، نادر شاہ تھا، ہٹلرصاحب اس دنیا پر مسلط ہوئے جوکہ ایک بہت ہی مختلف آمر تھا اس کے بیج جمہوریت سے تھے اور پھر اس بات کی تصدیق مورخ کرے گا کہ یوکرین کا زیلنسکی آمر تھا یا پھر پیوتن؟ اور اگر بات کی جائے امریکا کی ، تو امریکی تاریخ میں سب سے انوکھے صدر جو آئے ہیں وہ ہیں صدر ٹرمپ! صدر ٹرمپ کا پہلا دورگزرگیا، مگر اس دورحکومت میں یعنی صرف ڈیڑھ مہینے میں جس طرح کے آرڈر وہ پاس کر رہے ہیں، امریکی مبصرین کو امریکا کی جمہوریت سے ایک آمر ابھرتا نظر آ رہا ہے۔

یہ ہے کیپٹل ازم نظام میں پنپتی جمہوریت کا عالم اور قصور جمہوریت کا نہیں کیپٹل ازم نظام کا ہے۔ جس کو لالچ یا پھر بزنس کی زبان میں پرافٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ انسانی ذہانت کے درپردہ یہ ہے اس دنیا کی شکل۔ امریکا کے اندر اس وقت ایلون مسک جیسے لوگوں کا راج ہے۔

ایلون مسک نے ٹیکنالوجی اور سائنس میں جو کمالات دکھائے ہیں وہ الگ لیکن منافع کمانے کے لیے لالچی سوچ جو وہ رکھتے ہیں، اس میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی جریدہ اکانومسٹ یہ لکھتا ہے کہ امریکا میں ٹرمپ حکومت بہت سی انڈر ڈیل کرسکتی ہے۔ ہم جیسے ممالک اور ہمارے سیاستدان بھی انڈر ڈیلزکرتے ہیں، واشنگٹن میں لابنگ کرتے ہیں۔ یہ ہے جدید دور میں نادر شاہ جیسی ٹرمپ کے امریکا کی نیم صورت۔

بے نظیرکی حکومت سے لے کر نواز شریف تمام سیاستدانوں نے ایسا ہی کچھ کیا۔ عمران خان نے تو لابنگ میں سب کو ہی پیچھے چھوڑ دیا، جو بیان ٹرمپ نے یوکرین کے زیلنسکی کے لیے دیا اگر وہ ہی میزائل وہ پاکستان پر داغتے تو یہاں کے حکمرانوں کو بھی لگ پتا جاتا۔

2014 بیرونی طاقتوں کو یہ نظر آیا کہ شاید پاکستان، چین کے بلاک میں جا رہا ہے۔ ہم نے چین کو بھی دیکھ لیا ہے کیونکہ ہمیں ہمیشہ سے اپنی بقاء کے لیے قرضے درکار تھے۔ اب ان بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے ہم آزاد نہیں رہ سکتے۔ ہم پر چین کے قرضوں کا بھی اتنا ہی بوجھ ہے جتنا کہ امریکا کے قرضوں کا۔

ریاست کے پیچھے اب بھی وہ ہی جنگل کا قانون ہے۔ وہ ہی غاروں سے نکلے ہوئے انسان ہیں جنھوں نے معاشرہ بنایا اور معاشرے نے خود اپنی ارتقاء کے قوانین بنائے، اخلاقیات مرتب کی اور پھر ایک ماڈرن انسان وجود میں آیا۔ ریاستوں نے آئین دیے اور آئین نے بنیادی حقوق اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ حقوق وسیع ہوتے گئے۔ امریکا کی عدالتوں نے ٹرمپ کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے کیونکہ عدالتیں انسانی حقوق کی محافظ ہیں۔ ایلون مسک سے یورپ نے گاڑیاں لینا بند کردی ہیں اور یہ چین کی فتح ہے، ایک پاگل پن ہے جو دنیا پر مسلط ہے۔

اس پسِ منظر میں بہ حیثیت ایک ملک ہم کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس کا حل ہے ہمارا آئین اور ہماری جمہوریت جو آج کل مشکل میں ہیں۔ اکانومسٹ جو جمہوریت کے حوالے سے اپنا انڈیکس ترتیب دیتا ہے اور اس ترتیب میں اس دفعہ ہم 37  سے35 نمبر پر جا چکے ہیں۔

ہم وہ ملک ہیں جن کا شمار دنیا کی دس بدترین جمہوری ریاستوں میں ہوتا ہے لیکن ہم ہیں جمہوری اور ہمارے پاس آئین بھی ہے اور انسانی حقوق بھی۔ ہم وفاق یا پھر وفاقی جمہوریت کے اعتبار سے اور بھی کمزور ہیں اور یہی روایت اب سندھ میں بھی چل پڑی ہے پھر ہم اس کو ہوا بھی دے رہے ہیں۔

مشکل یہ ہے کہ ہمارے پاس پیپلز پارٹی کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ جس طرح پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کو نعم البدل پی ٹی آئی ہے۔ سولہ سال سے سندھ پر بدترین حکمرانی، پیر پرستی اور وڈیرہ شاہی کا راج ہے۔کہیں ایسا نہ ہوکہ سندھ قوم پرستوں کے ہتھے چڑھ جائے۔ انگریزوں کی حکومت میں بھی سندھ کا یہ حال نہ تھا جو اب ہے۔ یہ ہماری ریاستی سوچ تھی کہ ان وڈیروں کو زندہ رکھا جائے۔ اسی طرح دیہی اور شہری سندھ کا تضاد بھی زندہ رکھا جائے، لیکن اس پسِ منظر میں مڈل طبقہ پس چکا ہے۔

پاکستان کو اب بدلتی دنیا کے تقاضے پورا کرنے ہوںگے۔پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف پانی کے مسئلے پر انتہائی کمزور ہے جب کہ قوم پرست اور پی ٹی آئی پانی کے مسئلے پر واضح موقف رکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکا کی نادر شاہ کی حکومت دنیا کی سندھ کے کے ساتھ کے بعد

پڑھیں:

صدر ٹرمپ کا ’گولڈن ڈوم‘ منصوبہ حتمی منصوبہ بندی کے مرحلے میں داخل

پینٹاگون کے عہدیدار اسٹیو فینبرگ، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’گولڈن ڈوم‘ میزائل دفاعی منصوبے کی نگرانی کر رہے ہیں، بدھ کے روز اس 175 ارب ڈالر کے پیچیدہ منصوبے کی ابتدائی بریفنگ حاصل کرنے والے تھے۔

یہ بریفنگ جنرل مائیک گوئٹلائن کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دی جا رہی ہے، جو گولڈن ڈوم کے روزمرہ معاملات کے انچارج ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: گولڈن ڈوم منصوبہ: ٹرمپ کا اسپیس ایکس سے فاصلہ، متبادل ٹھیکہ داروں کی تلاش شروع

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے دور میں شروع کیا گیا یہ سب سے بڑا دفاعی منصوبہ اب باقاعدہ منصوبہ بندی، فنڈنگ اور ترقی کے مراحل میں داخل ہو رہا ہے۔

پینٹاگون کے ترجمان کے مطابق، 17 ستمبر 2025 جنرل گوئٹلائن کی توثیق اور گولڈن ڈوم آفس کے قیام کے 60 دن مکمل ہونے کی تاریخ ہے، محکمہ جنگ نے منصوبے کی ابتدائی ساخت کی تیاری کی ڈیڈ لائن پوری کر لی ہے۔

مزید پڑھیں: گولڈن ڈوم منصوبہ: امریکی میزائل شیلڈ کی کمان، اسپیس فورس جنرل کو سونپ دی گئی

میڈیا رپورٹس کے مطابق جنرل گوئٹلائن نے پیر کے روز کانگریس کو گولڈن ڈوم کے اہداف اور شیڈول پر بریفنگ دی۔

یہ نظام زمین سے داغے جانے والے میزائل انٹرسیپٹرز، ریڈار سسٹمز اور ممکنہ لیزر ٹیکنالوجی کے ساتھ خلا میں موجود سینسنگ اور ٹارگٹنگ صلاحیتوں پر مشتمل ہوگا۔

مزید پڑھیں: امریکا کا گولڈن ڈوم منصوبہ دنیا کے لیے کتنا تباہ کن ہوسکتا ہے؟

ابتدائی بریفنگ میں سیٹلائٹس یا انٹرسیپٹرز کی درست تعداد ظاہر کیے جانے کی توقع نہیں ہے، یہ منصوبہ 2028 کی متعین ڈیڈ لائن کے ساتھ سامنے آیا ہے، جس کا مقصد بیلسٹک، ہائپرسونک اور جدید کروز میزائلز کے خطرات سے امریکا کا دفاع کرنا ہے۔

پیش کردہ ڈھانچے کے مطابق نظام میں 4 پرتیں شامل ہوں گی، ایک خلا میں اور 3 زمین پر۔ ’ان میں 11 مختصر فاصلے کے میزائل بیٹریز شامل ہیں جو امریکا کے براعظمی حصے، الاسکا اور ہوائی میں نصب کی جائیں گی۔‘

مزید پڑھیں:چین کا امریکی منصوبے ’گولڈن ڈوم‘ پر تحفظات کا اظہار، عالمی استحکام کے لیے خطرہ قرار

اگلا سنگ میل نومبر کے وسط میں متوقع ہے، جب جنرل گوئٹلائن کو مکمل نفاذ کا منصوبہ پیش کرنا ہوگا، جس میں سیٹلائٹس اور گراؤنڈ اسٹیشنز کی تفصیلات شامل ہوں گی۔

یہ منصوبہ اسرائیل کے ’آئرن ڈوم‘ سے متاثر ہے لیکن جغرافیائی اعتبار سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر ہے، اس میں لاک ہیڈ مارٹن، نارتھروپ گرومین، آر ٹی ایکس اور بوئنگ جیسے بڑے دفاعی ٹھیکیداروں کے شامل ہونے کی توقع ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئرن ڈوم الاسکا امریکا بیلسٹک پینٹاگون صدر ٹرمپ کروز میزائلز گولڈن ڈوم محکمہ جنگ میزائل ہائپر سونک ہوائی

متعلقہ مضامین

  • صدر ٹرمپ کا ’گولڈن ڈوم‘ منصوبہ حتمی منصوبہ بندی کے مرحلے میں داخل
  • چارلی کرک کا قتل
  • معاہدہ ہوگیا، امریکا اور چین کے درمیان ایک سال سے جاری ٹک ٹاک کی لڑائی ختم
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا نیویارک ٹائمز پر 15 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ
  • ٹک ٹاک کی ملکیت کا معاملہ، امریکا اور چین میں فریم ورک ڈیل طے پاگئی
  • قطر پر حملے سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کو آگاہ کر دیا تھا، امریکی میڈیا
  • قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا
  • ٹرمپ مودی بھائی بھائی
  • قطر امریکا کا بہترین اتحادی، اسرائیل کو محتاط رویہ اختیار کرنا ہوگا، ٹرمپ
  • یورپ میں امریکا چین تجارتی ملاقات بہت کامیاب رہی، ڈونلڈ ٹرمپ