دنیا کا نظام بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ٹرمپ کی حکومت امریکا اور دنیا پرگہرے نقوش چھوڑتی نظر آرہی ہے۔ یوکرین اور زیلنسکی کے ساتھ جو کچھ ہوا اچھا نہیں ہوا۔ یوکرین، دنیا کی ایک مضبوط طاقت روس سے نبرد آزما تھا اور یوکرین کے ساتھ امریکا اور پورا یورپ کھڑا تھا مگر ٹرمپ صاحب کے چار جملوں نے یوکرین اور زیلنسکی پر جیسے میزائل داغ دیے، شاید ایسا نقصان یوکرین کو روس کے ساتھ تین سال جنگ میں بھی نہ ہوا۔
زیلنسکی سے پہلا سوال ٹرمپ نے یہ کیا کہ انھوں نے اب تک انتخابات کیوں نہیں کرائے؟ اور یہ بھی کہا کہ وہ جمہوری نظام سے نکلا ہوا ایک آمر ہے۔ یوکرین کی جنگ کے حوالے سے امریکا کے ساتھ روس کے ساتھ مذاکرات، سعودی عرب میں ہوچکے ہیں جب کہ ان مذاکرات میں یو کرین فریق نہیں ہے۔
ان مذاکرات میں یو کرین کو فریق نہ بنانا نفسیاتی اعتبار سے ان کو جھکانے کے برابر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیوتن کو یہ جنگ جیتنے میں تین سال لگے اور اب وہ اپنی مرضی سے جنگ بندی کا اعلان کریں گے۔ بائیڈن کے دورِ حکومت میں یو کرین کو امریکا سے بھاری امداد بھی ملی اور اسلحہ بھی۔ پورا یورپ یوکرین کے ساتھ تھا اور چین روس کے ساتھ۔
تقریبا تین صدیاں قبل نادر شاہ افشار ایران کا بادشاہ تھا۔ اس کی بہت بڑی سلطنت تھی۔ دہلی پر محمد شاہ رنگیلا کی حکومت تھی۔ نادر شاہ کو ہندوستان فتح کرنے سے کوئی سروکار نہ تھا، بس اس کو دلی کی دولت درکار تھی۔
مورخ یہ لکھتا ہے کہ نادر شاہ کی دلی پر چڑھائی، دنیا کی سب سے بڑی ڈکیتی تھی۔ نادر شاہ نے نہ صرف دلی کو لوٹا بلکہ ہندوستان کا بیش قیمت ہیرا کوہِ نور بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ بعد ازاں یہ ہیرا رنجیت سنگھ کی شان بنا اور رنجیت سنگھ کے بعد انگریز سامراج کے آنے کے بعد یہ ہیرا برطانیہ کی ملکہ کے تاج کی زینت بنا اور آج تک انھیں کے قبضے میں ہے۔ نادر شاہ کی پالیسی کے خدوخال، ٹرمپ سے ملتے جلتے ہیں۔ ایران اس وقت کی سپر پاور تھا اور امریکا آج کا سپر پاور ہے۔
سندھ کے بادشاہ نور محمد کلہوڑو کی حا لت خراب ہوئی، جس طرح ہمایوں نے 1542 میں شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد عمرکوٹ میں پناہ لی، ہمایوں کو عمرکوٹ میں راجپوتوں نے پناہ دی ۔ جہاں عمرکوٹ قلعہ میں اکبر بادشاہ پیدا ہوا، وہ صرف گیارہ سال کی عمر میں دلی کے تخت پر بیٹھا، اکبر نے ہندوستان میں رواداری کی روایت ڈالی۔
اکبر ہندوستان کا پہلا بادشاہ تھا جس نے عام رعایا میں مقبولیت حاصل کی۔ اکبر بادشاہ کے دور میں ہندو و مسلم عداوتیں کم ہوئیں، مگر ہندوستان پر راجپوتوں اور ٹھاکروں کی مخصوص ذہنیت ہمیشہ غالب رہی۔ نریندر مودی نے نادر شاہ کی ہندوستان پر چڑھائی اور ڈکیتی کا الزام بھی ہندوستان کے مسلمانوں پر لگا دیا اور اب وہ ان تمام آثارِ قدیمہ اور نقوش کو ہندوستان سے مٹانا چاہتا ہے جو مسلمان حکمرانوں سے منسلک ہیں مگر انتخابات میں ہندوستان کے عوام نے گاندھی کی سیکیولر ازم کو ترجیح دی۔ اب ہیں امریکا میں ٹرمپ اور ہندوستان میں مودی۔
دلی سے ایچ ٹی سورلے یہ لکھتے ہیں کہ سندھ کے بادشاہ نور محمد کلہوڑو کو نادر شاہ نے یہ پیغام بھجوایا کہ اتنا خراخ دے اور بطور ضمانت اپنا بیٹا غلام شاہ کلہوڑو ان کے حوالے کردے بہ صورتِ دیگر نادر شاہ سندھ پر حملہ کردے گا۔ غلام شاہ کلہوڑو، نادر شاہ کے پاس مغوی رہا اور سندھ کے بادشاہ نور محمد کلہوڑو اپنے بیٹے کے عوض نادر شاہ کو برابر تاوان بھیجتے رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ کے عظیم شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی حیات تھے۔
تاریخ کے ان صفحوں کو پلٹ کر میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ نادر شاہ کے بعد سے لے کر اب تک یہ دنیا بدلی نہیں۔ پہلے چنگیز خان تھا، نادر شاہ تھا، ہٹلرصاحب اس دنیا پر مسلط ہوئے جوکہ ایک بہت ہی مختلف آمر تھا اس کے بیج جمہوریت سے تھے اور پھر اس بات کی تصدیق مورخ کرے گا کہ یوکرین کا زیلنسکی آمر تھا یا پھر پیوتن؟ اور اگر بات کی جائے امریکا کی ، تو امریکی تاریخ میں سب سے انوکھے صدر جو آئے ہیں وہ ہیں صدر ٹرمپ! صدر ٹرمپ کا پہلا دورگزرگیا، مگر اس دورحکومت میں یعنی صرف ڈیڑھ مہینے میں جس طرح کے آرڈر وہ پاس کر رہے ہیں، امریکی مبصرین کو امریکا کی جمہوریت سے ایک آمر ابھرتا نظر آ رہا ہے۔
یہ ہے کیپٹل ازم نظام میں پنپتی جمہوریت کا عالم اور قصور جمہوریت کا نہیں کیپٹل ازم نظام کا ہے۔ جس کو لالچ یا پھر بزنس کی زبان میں پرافٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ انسانی ذہانت کے درپردہ یہ ہے اس دنیا کی شکل۔ امریکا کے اندر اس وقت ایلون مسک جیسے لوگوں کا راج ہے۔
ایلون مسک نے ٹیکنالوجی اور سائنس میں جو کمالات دکھائے ہیں وہ الگ لیکن منافع کمانے کے لیے لالچی سوچ جو وہ رکھتے ہیں، اس میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی جریدہ اکانومسٹ یہ لکھتا ہے کہ امریکا میں ٹرمپ حکومت بہت سی انڈر ڈیل کرسکتی ہے۔ ہم جیسے ممالک اور ہمارے سیاستدان بھی انڈر ڈیلزکرتے ہیں، واشنگٹن میں لابنگ کرتے ہیں۔ یہ ہے جدید دور میں نادر شاہ جیسی ٹرمپ کے امریکا کی نیم صورت۔
بے نظیرکی حکومت سے لے کر نواز شریف تمام سیاستدانوں نے ایسا ہی کچھ کیا۔ عمران خان نے تو لابنگ میں سب کو ہی پیچھے چھوڑ دیا، جو بیان ٹرمپ نے یوکرین کے زیلنسکی کے لیے دیا اگر وہ ہی میزائل وہ پاکستان پر داغتے تو یہاں کے حکمرانوں کو بھی لگ پتا جاتا۔
2014 بیرونی طاقتوں کو یہ نظر آیا کہ شاید پاکستان، چین کے بلاک میں جا رہا ہے۔ ہم نے چین کو بھی دیکھ لیا ہے کیونکہ ہمیں ہمیشہ سے اپنی بقاء کے لیے قرضے درکار تھے۔ اب ان بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے ہم آزاد نہیں رہ سکتے۔ ہم پر چین کے قرضوں کا بھی اتنا ہی بوجھ ہے جتنا کہ امریکا کے قرضوں کا۔
ریاست کے پیچھے اب بھی وہ ہی جنگل کا قانون ہے۔ وہ ہی غاروں سے نکلے ہوئے انسان ہیں جنھوں نے معاشرہ بنایا اور معاشرے نے خود اپنی ارتقاء کے قوانین بنائے، اخلاقیات مرتب کی اور پھر ایک ماڈرن انسان وجود میں آیا۔ ریاستوں نے آئین دیے اور آئین نے بنیادی حقوق اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ حقوق وسیع ہوتے گئے۔ امریکا کی عدالتوں نے ٹرمپ کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے کیونکہ عدالتیں انسانی حقوق کی محافظ ہیں۔ ایلون مسک سے یورپ نے گاڑیاں لینا بند کردی ہیں اور یہ چین کی فتح ہے، ایک پاگل پن ہے جو دنیا پر مسلط ہے۔
اس پسِ منظر میں بہ حیثیت ایک ملک ہم کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس کا حل ہے ہمارا آئین اور ہماری جمہوریت جو آج کل مشکل میں ہیں۔ اکانومسٹ جو جمہوریت کے حوالے سے اپنا انڈیکس ترتیب دیتا ہے اور اس ترتیب میں اس دفعہ ہم 37 سے35 نمبر پر جا چکے ہیں۔
ہم وہ ملک ہیں جن کا شمار دنیا کی دس بدترین جمہوری ریاستوں میں ہوتا ہے لیکن ہم ہیں جمہوری اور ہمارے پاس آئین بھی ہے اور انسانی حقوق بھی۔ ہم وفاق یا پھر وفاقی جمہوریت کے اعتبار سے اور بھی کمزور ہیں اور یہی روایت اب سندھ میں بھی چل پڑی ہے پھر ہم اس کو ہوا بھی دے رہے ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ ہمارے پاس پیپلز پارٹی کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ جس طرح پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کو نعم البدل پی ٹی آئی ہے۔ سولہ سال سے سندھ پر بدترین حکمرانی، پیر پرستی اور وڈیرہ شاہی کا راج ہے۔کہیں ایسا نہ ہوکہ سندھ قوم پرستوں کے ہتھے چڑھ جائے۔ انگریزوں کی حکومت میں بھی سندھ کا یہ حال نہ تھا جو اب ہے۔ یہ ہماری ریاستی سوچ تھی کہ ان وڈیروں کو زندہ رکھا جائے۔ اسی طرح دیہی اور شہری سندھ کا تضاد بھی زندہ رکھا جائے، لیکن اس پسِ منظر میں مڈل طبقہ پس چکا ہے۔
پاکستان کو اب بدلتی دنیا کے تقاضے پورا کرنے ہوںگے۔پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف پانی کے مسئلے پر انتہائی کمزور ہے جب کہ قوم پرست اور پی ٹی آئی پانی کے مسئلے پر واضح موقف رکھتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکا کی نادر شاہ کی حکومت دنیا کی سندھ کے کے ساتھ کے بعد
پڑھیں:
مکار ،خون آشام ریاست
دنیا نے دہشت گردی کے بے شمار واقعات دیکھے ہوں گے، لیکن ایسا کوئی ملک نہیں جو خود اپنے شہریوں کو قتل کرکے الزام دشمن پر تھوپنے کی مہارت رکھتا ہو — سوائے بھارت کے۔ یہ وہ ریاست ہے جو اپنے فالس فلیگ آپریشنز سے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کا امن خطرے میں ڈال چکی ہے۔ کشمیر کے پہاڑوں سے لے کر ممبئی کی سڑکوں تک، جہاں کہیں خون بہا، وہاں بھارت کی بزدل، مکار اور منافق حکومت کا ہاتھ نظر آیا۔فالس فلیگ بھارت کی پرانی اور شرمناک روائت ہے ، جو ایک بار پھر 26بے گناہوں کا خون پی گئی ۔ بھارتی درندگی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ، ابھی کل کی بات ہے ، جب ابھی نندن کو چپیڑیں پڑی تھیں ، وہ بھی ایک فالس فلیگ ہی کا نتیجہ تھا ، یعنی پلوامہ کا حملہ جب فروری 2019 میںچالیس سے زائد بھارتی فوجی مارے گئے۔ مودی حکومت نے چند گھنٹوں میں الزام پاکستان پر تھوپ دیا۔ بعد ازاں خود بھارتی فوج کے سابق افسران اور ماہرین نے اشارہ دیا کہ یہ “اندرونی سازش” تھی تاکہ انتخابات سے قبل ہمدردی حاصل کی جائے۔ مودی نے اس کا خوب سیاسی فائدہ اٹھایا۔ اڑی حملہ،ستمبر 2016،خود ہی ایک فوجی کیمپ پر حملہ کیا، الزام پاکستان پر لگا کر دنیا کو گمراہ کیا۔ مگر بعد میں بی بی سی سمیت کئی بین الاقوامی ادارے اس حملے کی مشکوک نوعیت پر سوال اٹھاتے رہے۔بدنام زمانہ ممبئی حملے 26/11 – 2008، بھارت نے اسے بھی پاکستان سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن کئی سوالیہ نشان اٹھتے رہے، بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامی؟ حملہ آوروں کے داخلی نیٹ ورکس؟ یہاں تک کہ معروف بھارتی افسر “ہیمنت کرکرے” جو ان حملوں کی آزاد تحقیق کر رہے تھے، انہیں بھی مشکوک انداز میں قتل کر دیا گیا۔ سمجھوتا ایکسپریس آتش زدگی 2007، یہ وہ واقعہ ہے جو بھارت کے لیے سب سے بڑا طمانچہ بنا۔ 68 افراد، جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی، کو زندہ جلا دیا گیا۔ ابتدائی الزام پاکستان پر لگا، مگر بعد میں کرنل پروہت، سادھوی پرگیہ اور دیگر انتہاپسند ہندو رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔ یعنی یہ خالصتاً اندرونی بھارتی دہشت گردی تھی، جس میں بھارتی عدالتوں نے ثابت کیا کہ بھارتی فوج کے حاضر ڈیوٹی افسران خود ملوث تھے ، ابھی کل کی بات ہے ، خون آشام مودی نے ان تمام دہشت گردوں کو عام معافی دے کر رہا کیا ۔ اسی پر بس نہیں ، ڈانڈلی (کشمیر) میں خودساختہ حملے، بھارتی افواج نے خود ہی دہشت گردی کے واقعات کروائے تاکہ تحریک آزادی کو بدنام کیا جا سکے۔
بھارت کا سب سے بڑا فالس فلیگ نہ پلوامہ تھا، نہ اڑی، بلکہ سب سے خطرناک فالس فلیگ وہ ہے جو آج بھی مسلسل کشمیر کی گلیوں میں جاری ہے،’’ریاستی دہشت گردی کا نام جمہوریت رکھ کر دنیا کو دھوکہ دینا‘‘۔مقبوضہ کشمیر میں ہر روز بے گناہ نوجوان لاپتہ ہوتے ہیں، ان کے جسم جعلی انکاؤنٹر میں گولیوں سے چھلنی کر دیے جاتے ہیں، اور پھر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ’’دہشت گرد‘‘ تھے۔ ان کے جنازے بھی گھر والوں کو نصیب نہیں ہوتے۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟ کیا یہی سیکولر ازم ہے؟ کیا یہی وہ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ہے جس کے نعرے سے بھارت دنیا کو دھوکہ دیتا ہے؟
سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ عالمی برادری، خاص طور پر مغربی طاقتیں، بھارت کے ان جرائم پر خاموش ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے؟ یا اس لیے کہ بھارت نے تہذیب” کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے؟ لیکن یہ لبادہ خون آلود ہے، اس کے اندر وہ درندہ چھپا ہے جو اپنے فائدے کے لیے اپنے ہی شہریوں کی لاشوں پر سیاست کرتا ہے۔ہر وہ وقت جب کوئی امریکی یا یورپی وفد بھارت آتا ہے، بھارت ایک جعلی دہشت گرد حملہ کروا کر خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے — اور الزام پاکستان پر لگا کر دنیا کو گمراہ کرتا ہے۔پاکستان نے ہر بار بھارت کی فریب کاریوں کا مؤثر جواب دیا، مگر ہمیشہ اخلاقی دائرے میں رہ کر۔ پاکستان نے کبھی بچوں کی لاشوں پر سیاست نہیں کی، کبھی اپنے لوگوں کو مار کر الزام دوسروں پر نہیں لگایا۔ لیکن بھارت؟ وہ ایک ایسا شیطانی ذہن رکھتا ہے جو اپنے ہی خون سے اپنے چہرے کو دھو کر اسے دشمن کا رنگ دیتا ہے۔پاکستان کے دفتر خارجہ، عسکری قیادت اور سفارتی اداروں کے لئے اب مزید خاموشی کی گنجائش نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ان فالس فلیگ حملوں کی اقوام متحدہ میں باقاعدہ تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے۔ ہر جعلی حملے کی بین الاقوامی نگرانی میں انکوائری ہو تاکہ بھارت کی ننگی حقیقت دنیا کے سامنے بے نقاب ہو۔
بھارتی میڈیا، جو کبھی صحافت تھا، اب محض جنگی پروپیگنڈے کا آلہ بن چکا ہے۔ “ریپبلک ٹی وی”، زی نیوز”، اور “ٹائمز ناؤ” جیسے چینلز اپنے سٹوڈیوز میں بیٹھ کر پاکستان پر جنگ مسلط کر دیتے ہیں۔ ان کے اینکرز صحافی نہیں، غصے سے چیختے سپاہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہی میڈیا ہے جس نے پلوامہ جیسے حملے کو فلمی اسکرپٹ بنا کر پیش کیا، اور بھارتی عوام کو جنگ کے جنون میں مبتلا کر دیا، جواب میں جب پاکستان نے بھارتی وکاس کو دھو کر رکھ دیا تو میڈیا کو چپ لگ گئی ۔ سوال یہ ہے کہ بھارت جو پاکستان کی معاشی بحالی اور اپنی کٹھ پتلیوں کی ناکامی پر انگاروں پر لوٹ رہاہے ، کیا آگے چپ رہے گا ؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے ۔ وہ ایک بار پھر فالس فلیگ سازشوں کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ کشمیر میں حالیہ سیاحوں پر حملہ اسی شیطانی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بھارت اس وقت بلوچستان میں اپنی پراکسیز کے خاتمے، ایران میں نیٹ ورک کی بے نقابی، اور افغانستان میں رسائی ختم ہونے سے سخت بوکھلایا ہوا ہے۔ ان تمام محاذوں سے توجہ ہٹانے کے لیے کوئی نیا ڈرامائی حملہ” خارج از امکان نہیں۔ حالیہ حملہ جس میں غیر ملکی سیاح مارے گئے، اس بات کا عندیہ ہے کہ بھارت اب عالمی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ یہ ایک سفاک حکومت کی بدترین مثال ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ ہر فالس فلیگ آپریشن کا مکمل فیکٹ فائل تیار کرے، جس میں واقعات، مشکوک پہلو، انٹیلی جنس رپورٹس، میڈیا پراپیگنڈا اور بھارتی بیانات کو جمع کر کے اقوام متحدہ، او آئی سی، ہیومن رائٹس کونسل اور انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے رکھا جائے۔ ہر پاکستانی سفارت خانے کو یہ ہدف دیا جائے کہ وہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی پر ایک ایک رپورٹ متعلقہ ملک کے دفتر خارجہ، تھنک ٹینکس، اور میڈیا ہاؤسز کو فراہم کرے۔دوسری جانب یہ بھی لازم ہے کہ ہمارے ادارے جو پہلے ہی چوکس ہیں ، ریڈ الرٹ پر آجائیں ، متحرک اور متحد ہو کر بھارت کی ہر ممکنہ چال پر نظر رکھیں، پیشگی وارننگ اور پروف کے ساتھ دنیا کو بتایا جائے کہ بھارت کیا کرنے والا ہے، اور اگر ابھی نندن جیسی کوئی دوسری حماقت کرے تو پھر یہ اس کی آخری حماقت ہونی چاہئے ۔
بھارت ایک بار پھر چالاکی، سازش اور ظلم کا جال بُن رہا ہے — مگر ہم جاگ رہے ہیں۔ ہمیں ایک قوم بن کر، ایک مؤقف کے ساتھ، ایک آواز میں دنیا کو بتانا ہوگا:
ہم خاموش ضرور ہیں، مگر کمزور نہیں۔
ہم امن چاہتے ہیں، مگر بزدل نہیں۔
ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھو —
کیونکہ جب پاکستان بولتا ہے، دنیا سنتی ہے۔
اور جب ہم وار کرتے ہیں،
دشمن کی سانسیں بند ہو جاتی ہیں۔