ٹرمپ نے انگریزی کو امریکا کی سرکاری زبان قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ انگریزی ہماری جمہوریہ کے قیام سے ملک کی زبان رہی ہے، اور آزادی کے اعلان اور آئین سمیت ہمارے ملک کی تاریخی حکومتی دستاویزات تمام انگریزی میں لکھی گئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انگریزی کو امریکا کی سرکاری زبان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے دنیا بھر کے تارکین وطن کی میزبانی کرنے والے ملک میں ہم آہنگی آئے گی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس نے صدر ٹرمپ کی جانب سے جاری کردہ ایک انتظامی حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انگریزی کو ملک کی سرکاری زبان قرار دیے جانے کو بہت عرصہ گزر چکا ہے۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ قومی سطح پر نامزد کردہ زبان ایک متحد اور ہم آہنگ معاشرے کی بنیاد ہے، اور ریاستہائے متحدہ ایک ایسے شہری سے مضبوط ہے جو آزادانہ طور پر ایک مشترکہ زبان میں خیالات کا تبادلہ کر سکتا ہے۔
اس حکم نامے کے تحت 1990 کی دہائی میں اس وقت کے صدر بل کلنٹن کے دور میں جاری کیے گئے صدارتی مینڈیٹ کو منسوخ کر دیا گیا ہے جس کے تحت وفاقی فنڈنگ حاصل کرنے والی وفاقی ایجنسیوں اور اداروں کو غیر انگریزی بولنے والوں کو مدد فراہم کرنے کی ضرورت تھی۔ نئی دستاویز کے مطابق ایجنسیوں کے پاس اب بھی یہ فیصلہ کرنے کی لچک ہوگی کہ انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں میں کتنی مدد کی جائے۔ ایگزیکٹو آرڈر میں کہا گیا ہے کہ اس حکم نامے میں کچھ بھی نہیں ہے، ایگزیکٹو آرڈر میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ایجنسی کے ذریعہ فراہم کردہ خدمات میں کسی بھی تبدیلی کی ضرورت یا تبدیلی کی ہدایت نہیں کی گئی ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ایجنسیوں کے سربراہان کو یہ تعین کرنے کا اختیار حاصل ہے کہ اپنی متعلقہ ایجنسیوں کے مشن کو پورا کرنے اور امریکی عوام کو موثر طریقے سے سرکاری خدمات فراہم کرنے کے لیے کیا ضروری ہے۔ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد ابتدائی ہفتوں میں ہی ملک پر دائیں بازو کی مہر لگانے کے لیے انتظامی احکامات جاری کیے ہیں۔ تاہم، ان کے بہت سے احکامات کو عدالت میں چیلنج کیا جا رہا ہے، خاص طور پر جب وہ کانگریس کی طرف سے منظور کردہ وفاقی فنڈنگ کو منسوخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ وائٹ ہاؤس اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ امریکا میں 350 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ انگریزی ہماری جمہوریہ کے قیام سے ملک کی زبان رہی ہے، اور آزادی کے اعلان اور آئین سمیت ہمارے ملک کی تاریخی حکومتی دستاویزات تمام انگریزی میں لکھی گئی ہیں۔ امریکی حکومت کے 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 6 کروڑ 80 لاکھ افراد اپنے گھروں میں انگریزی کے علاوہ دوسری زبان بولتے ہیں۔ اگرچہ انگریزی اب تک ملک کی اکثریتی زبان ہے، لیکن امریکا میں 4 کروڑ سے زیادہ افراد گھر پر ہسپانوی بولتے ہیں۔ چینی اور ویتنامی سمیت دیگر تارکین وطن گروپوں کے علاوہ، پیچیدہ امریکی لسانی منظر نامے میں مقامی امریکی زبانیں شامل ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میں کہا گیا ہے کہ کہ انگریزی ملک کی
پڑھیں:
گورنر کیلیفورنیا نے صدر ٹرمپ کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے دیا
مظاہروں کے بارے میں ٹرمپ کی بیان بازی کے باوجود، صدر ٹرمپ نے بغاوت ایکٹ، 1807 کا قانون صدر کو سول ڈس آرڈر جیسے واقعات کو دبانے کے لیے امریکی فوج کو تعینات کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ اس حوالے سے جب صحافیوں نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ کیا وہ اس کا اطلاق کریں گے؟ جس پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ اس بات پر منحصر کہ بغاوت ہوتی ہے یا نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ لاس اینجلس میں امیگریشن قوانین کیخلاف تارکین وطن کے تیسرے روز بھی مظاہرے جاری ہیں، احتجاج کو کنٹرول کرنے کیلیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لاس ایجنلس میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے، جسے کیلفورنیا کے ڈیموکریٹک گورنرگیون نیوسم نے غیرقانونی فیصلہ قرار دیا ہے۔ عالمی خبررساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق مجموعی طور پر 39 مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے، نیشنل گارڈز سرکاری عمارتوں پر مامور ہے جبکہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان لاس اینجلس میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
لاس ایجنلس کی پولیس نے مظاہروں کو غیرقانونی قار دیتے ہوئے کہا کہ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ اور بوتلوں سمیت دیگر نقصان دہ اشیا سے حملے کیے۔ لاس اینجلس کے مرکزی علاقے میں کچھ جگہوں پر سیلف ڈرائیونگ گاڑیوں کو آگ لگانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے، شہر میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے جہاں مظاہرین کو تمھیں شرم آنی چاہیے، کے نعرے لگاتے سنا گیا، اس دوران چند مظاہرین نے شہر کے مرکزی علاقے کو ملانے والی شاہراہ 101 فری وی کو بلاک کر دیا۔
مظاہروں میں شریک بیشتر مظاہرین کو میکسیکو کے جھنڈے اٹھائے دیکھا گیا جو ٹرمپ انتظامیہ کے تارکین وطن کیخلاف قوانین کی مخالفت کر رہے تھے۔ کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے مقامی ٹی وی ’ایم ایس این بی سی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے صدر ٹرمپ سے لاس ایجنلس میں 2 ہزار نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے فیصلے کو واپس لینے کی درخواست کی ہے ساتھ ہی انھوں نے صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کو غیرقانونی بھی قرار دیا۔
گیون نیوسم نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا کہ صدر ٹرمپ تشدد کو بڑھاوا دے رہے ہیں، بڑے پیمانے پر افراتفری پھیلانے، شہروں میں مسلح افواج کی تعیناتی اور مخالفین کو حراست میں لے رہے ہیں، یہ اقدامات کسی آمر کے ہو سکتے ہیں صدر کے نہیں۔ دوسری جانب لاس اینجلس کے پولیس چیف جیم میکڈونلڈ نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ مظاہرین اب پولیس کے قابو سے باہر ہورہے ہیں۔ پولیس چیف نے کہا ہے کہ ہم درست سمت میں جا رہے ہیں، ہمیں دوبارہ سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔
صدر ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر کہا کہ پولیس چیف جیم میکڈونلڈ کو یہ کرنا ہوگا، ان ٹھگوں کو یہاں سے بھاگنے نہیں دینا چاہیے، امریکا کو دوبارہ سے عظیم بنانا ہوگا۔ ترجمان وائٹ ہاوس نے بھی کیفلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم کے الزامات کو صدر ٹرمپ کی ذات پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ لاس ایجنلس میں پھیلی افراتفری، پر تشدد واقعات اور لاقانونیت سب نے دیکھ لی ہے۔ نیشنل گارڈز سرکاری عمارتوں کے گرد مظاہرے کرنے والے مظاہرین کو پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
یو ایس ناردرن کمانڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کیلیفورنیا کے300 نیشنل گارڈز کو لاس اینجلس کے 3 مختلف حصوں میں تعنیات کیا گیا ہے، ان گارڈز کو سرکاری اہلکاروں اور املاک کی حفاظت کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر لاس اینجلس میں مظاہرے کرنے والے مظاہرین کو پرتشدد، تشدد کو بڑھاوا دینے والے مظاہرین کہا اور ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے بتایا کہ انھوں نے کابینہ کے افسران کو مظاہرین کیخلاف تمام ضروری اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ہے تاکہ شہر میں جاری ان فسادات کو روکا جا سکے۔
نیوجرسی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے مظاہرین کو دھمکی دی کی اگرمظاہرین پولیس یا نیشنل گارڈز پر تھوکیں گے تو بھی ان پر جوابی حملہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں محسوس ہوا کہ ملک اور شہریوں کی کسی بھی قسم کا خطرہ ہے تو پھر قانون کے مطابق سختی سے نمٹا جائے گا۔ دوسری جانب ایف بی آئی نے پولیس کی گاڑیوں پر پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کی معلومات دینے پر 50 ہزار ڈالر انعام کا بھی اعلان کیا ہے۔
مظاہروں کے بارے میں ٹرمپ کی بیان بازی کے باوجود، صدر ٹرمپ نے بغاوت ایکٹ، 1807 کا قانون صدر کو سول ڈس آرڈر جیسے واقعات کو دبانے کے لیے امریکی فوج کو تعینات کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ اس حوالے سے جب صحافیوں نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ کیا وہ اس کا اطلاق کریں گے؟ جس پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ اس بات پر منحصر کہ بغاوت ہوتی ہے یا نہیں۔