Express News:
2025-07-26@15:25:35 GMT

رمضان المبارک کی آمد ، مزید مہنگائی اورسروے

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

الحمد للہ، 2025 کا رمضان المبارک طلوع ہو چکا ہے۔ سب اہلِ اسلام کو رمضان کی مبارک ۔ آج پاکستان میں دوسرا روزہ ہے ۔ہم میں سے مگر کتنے ہیں جو کماحقہ اِس ماہِ مبارک کی برکات اور سعادتوں سے مستفید ہوسکیں گے ؟ کتنے ہوں گے جو رمضان المبارک کی اصل رُوح کے مطابق اِس کی رُوحانی برکتیں سمیٹ سکیں گے؟یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتاہے کہ وہی انسان کی نیتوں ، دل کی حالتوں اور کیفیتوں سے آگاہ ہے۔

رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی ہمارے سماج اور ہماری معاشرت میں ہلچل سی پیدا ہو جاتی ہے۔ مساجد کی رونقوں میں اچانک کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے محلّے کی مسجد میں ، جہاں نمازِ فجر کے وقت صرف ایک صف بمشکل بھری ہوتی تھی ، اب رمضان شریف کی آمد پر اچانک چار صفیں نمازیوں سے بھری نظر آتی ہیں ۔اِسی طرح دوسری نمازوں کی حاضری میں بھی، عددی اعتبار سے، خاصا اضافہ ہو گیا ہے ۔

رمضان شریف کے ختم ہوتے ہی مگر یہ رونقیں غائب ہو جاتی ہیں ، حالانکہ رمضان شریف کے ایک مہینے کی ٹریننگ کا مطلب و معنی ہی یہ ہیں کہ سارا سال یہ اسپرٹ قائم رہے ۔ عادات میں پختگی آئے ۔ گفتگو ، لین دین اور باہمی سماجی معاملات میں اگر رمضان شریف کی آمد پر بہتری آتی ہے تو پھر یہ اخلاقی و سماجی رویئے پورا برس پوری تندہی سے جاری رہنے چاہئیں۔ ایسا مگر بالعموم ہوتا نہیں ہے ۔

شیطانی قوتیں پھر غالب آجاتی ہیں ۔ شائد اس لیے کہ رمضان شریف کے ختم ہوتے ہی شیطان پھر زنجیروں سے آزاد کر دیے جاتے ہیں۔سب اپنی پرانی ڈگر پر واپس لَوٹ جاتے ہیں ۔ہماری تاجر و دکاندار برادری خصوصاً رمضان المبارک کی آمد پر پہلے سے بھی زیادہ کھل کھیلنا شروع کر دیتی ہے۔ اِن کے پاؤں میں مگر زنجیریں ڈالنے والا کوئی نظر نہیں آتا ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے شیطنت اور ہوس ان پر پوری طرح غلبہ پا لیتی ہے ۔ حکومت بھی ان کی متجاوز منافع خوری کی ہوس کے سامنے بے بس نظر آتی ہے ۔

2025کا رمضان شریف بھی2024 اور گزشتہ کئی رمضانوں کی طرح مزید مہنگائی لے کر طلوع ہُوا ہے ۔ گروسری اور فروٹ کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ ابھی یہ رمضان طلوع بھی نہیں ہُوا تھا کہ دکانداروں نے چینی کی قیمتوں میں 20روپے فی کلو اضافہ کر دیا ۔حکومت کے اقدامات اور فیصلوں کے کارن پہلے ہی مہنگائی سے عوام کی کمر ٹوٹ رہی ہے ۔ اور اب رمضان شریف کی وجہ سے مزید کی گئی مہنگائی نے عوام کا جینا مزید دُو بھر کر دیا ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ اُس نے مہنگائی میں ’’بے حد کمی‘‘ کر دی ہے۔ یہ دعوے مگر اُس وقت ہوا میں اُڑ جاتے ہیں جب انسان سودا سلف لینے کسی دکان کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے یا جب آپکی اہلیہ محترمہ بازار سے واپسی پر شوہر کی گو شمالی بھی کرتی ہے اور حکومت کو صلواتیں بھی سناتی ہے ۔ حکومت اور حکمران مگر تواتر سے گردان پڑھے جا رہے ہیں کہ مہنگائی 40فیصد سے کم کرکے 4فیصد تک لے آئے ہیں ۔ حکومت اور حکمرانوں کو ہر طرف ہرا ہی ہرا اس لیے نظر آتا ہے کہ حکمرانوں نے ارکانِ اسمبلی، سینیٹروں ، وزیروں اور مشیروںکی تنخواہوں میں ڈھائی سو سے ساڑھے تین سو فیصد اضافہ کر دیا ہے ۔

اِس رمضان کی آمد کے ساتھ ہی پھلوں اور خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے ۔ مزید مہنگائی کا مطلب یہ بھی ہے کہ حکومت تاجروں اور دکانداروں پر چیک رکھنے اور ان کا احتساب کرنے میں، حسبِ سابق، ناکام ہے۔ چینی 130  روپے فی کلو لینے کے لیے شناختی کارڈ دکھانے کی شرط نے عوام کو زیادہ خوار کررکھا ہے ۔ پھر بھی عوام قومی شناختی کارڈز تھامے لائنوں میں لگے ہیں اور اپنی بیچارگی پر سینہ کوبی کررہے ہیں ۔

حکومت ہے کہ مہنگائی کم کرنے کا مسلسل الاپ کررہی ہے۔ یہ سرکاری الاپ دراصل مجبور، بے بس اور غریب عوام کے زخموں پر نمک پاشی سے کم نہیں ہے ۔ رمضان کے دوران مہنگائی میں مزید اضافہ کرنے والے عناصر پر حکومت ہاتھ ڈالنے سے قاصر ہے ، شائد اُسی طرح جس طرح لاہور میں موٹر بائیک لین کا سبز رنگ پہلی بارش ہی میں غائب ہونے پر ذمے دار عناصر کی ابھی تک کسی نے پرسش کی ہے نہ اُن کا احتساب کیاہے ۔

رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی کے نئے طوفان کی شدت اور حدت کم کرنے کے لیے حکومت نے ’’رمضان پیکیج‘‘ متعارف کروایا ہے ، تاکہ مستحق و غریب طبقات کی مالی دستگیری کی جا سکے ۔پنجاب کی آبادی تقریباً12کروڑ ہے۔ مبینہ صوبائی رمضان پیکیج سے مگر چند لاکھ ہی مستفید ہو سکیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ اِس پیکیج سے فی کس دس ہزار روپے تک استفادہ کیا جا سکے گا۔اِس کے حصول کے لیے رمضان سے قبل مستحقین کو، رجسٹریشن کے لیے، ایک سرکاری فارم پُر کرنا پڑا ہے ۔ اِس فارم کی کئی شقیں ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق، دوسرا روزہ گزرنے کے باوجود، ابھی رمضان پیکیج مستحقین تک پہنچنا شروع نہیں ہو سکا ہے۔

شائد ایک دو روز میں اِس کا آغاز ہو جائے۔ ہماری سماجی آلودگی ہے کہ یہ شواہد اور شکایات بھی مگر ساتھ ہی منصہ شہود پر آ رہی ہیں کہ لاتعداد غیر مستحق افراد، گروہ اور خاندان جعلسازی اور کذب گوئی سے رمضان پیکیج ہتھیانے کی کوشش کررہے ہیں۔مجھے ایک واقف کار نے ( جو مستحقین کے لیے متعلقہ رمضان پیکیج سرکاری فارمز پُر کرنے کا کام کرتا ہے) بتایا ہے کہ کس طرح غیر مستحق افراد اور خاندان بھی رمضان پیکیج پر ہاتھ صاف کرنے کی کوششوں میں ہیں ۔ یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ رمضان شریف کے دوران بھی جھوٹ کا کاروبار کرنے والے باز نہیں آ رہے اور یہ کہ ہمارا لالچ بے مہار اور بے لگام ہے ۔

مگر کیا کِیا جائے ؟ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں!شائد ہر روز بڑھتی مہنگائی نے مجبور انسانوں کو اِس گراوٹ تک پہنچا دیا ہے۔ بھوک اور ہوس انسان کو اخلاقیات کی نچلی ترین سطح تک پہنچا دیتی ہے۔ اِسی لیے ایک مغربی مفکر کا کہنا ہے :’’ انسان فطری طور پر کمینے نہیں ہوتے ۔ یہ سماجی جبر ، بھوک اور معاشی تنگدستی ہے جو انسانوں کو کمینہ بنا دیتی ہے ۔‘‘ ماضی قریب میں ہم سب نے دیکھا کہ BISPکے تحت غریبوں ، بیواؤں اور تنگدستوں کو دیے جانے والے چند ہزار روپے ماہانہ معمولی سے وظیفے میں بھی ذمے دار افسران گھپلے اور غبن کر تے پکڑے گئے ۔ ہیرا پھیری کرنے والوں کو مگر کوئی عبرت انگیز سزا نہ دی جا سکی ۔اِسی لیے وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، نے بھی اگلے روز اپنے ایک خطاب میں یہ کہنا ضروری سمجھا کہ وفاقی رمضان پیکیج میں شفافیت کو اولیت دی جائے گی ۔سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو خصوصاً یہ بات کیوں ارشاد فرمانا پڑی؟

وزیر اعظم کے جاری کردہ مبینہ 20ارب روپے مالیت کے رمضان پیکیج سے،بقول وزیر اعظم، 2کروڑ افراد مستفید ہو سکیں گے ۔ پاکستان کی آبادی کے دس حصے پھر بھی محروم ہی رہیں گے۔ دو کروڑ افراد میں فی کس ایک ہزار روپے حاصل کر سکیں گے۔ یہ اگرچہ ناکافی ہے مگر غنیمت ہے ۔ حکومت اب اپنی 50رکنی وفاقی کابینہ کے بھاری اخراجات پورے کرے یا غربت اور مہنگائی کی ماری عوام کی بھوک کا علاج کرے؟ یکم رمضان کو ایک انگریزی معاصر نے یہ خبر بھی پھوڑی ہے کہ ’’وفاقی حکومت نے ارکانِ قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں حالیہ بے تحاشہ اضافے کے بعد پیدا ہونے والے اخراجات پورے کرنے کے لیے قومی اسمبلی کے 220ملازمین کو ملازمتوں سے نکال دیا ہے ۔‘‘ واضح رہے کہ ایم این ایز کی تنخواہوں میں حکومت نے 300فیصد کیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ارکانِ قومی اسمبلی کے پیٹ گرم کرنے کے لیے حکومت نے 220سرکاری ملازمین کے چولہے ٹھنڈے کر دیے ہیں۔ ایسے میںعالمی ادارے (ipsos) نے تازہ سروے جاری کیا ہے کہ ’’ پاکستان کے 70فیصد عوام حکومت سے مطمئن نہیں ہیں ۔‘‘ باقی سب خیریت ہے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رمضان المبارک کی ا رمضان شریف کے رمضان پیکیج حکومت نے سکیں گے ساتھ ہی ہے کہ ا کی ا مد ہیں کہ کے لیے دیا ہے

پڑھیں:

ممبئی ٹرین دھماکہ

ڈاکٹر سلیم خان

وزیر اعظم نریندر مودی کے گیارہ سالہ تاریک دور اقتدارکی سنہری لکیر ممبئی ٹرین دھماکے کے گیارہ بے گناہ قیدیوں کے باعزت رہائی ہے۔ مودی کے زمانے کو محض اس لیے نہیں یاد کیا جائے گا کہ بلقیس بانو کے ساتھ ظلم کرنے والوں پر رحم کھاکر رہا کردیا گیابلکہ عدالتِ عظمیٰ کے ذریعہ ان لوگوں کا رسوا ہو کرجیل لوٹنا بھی یادگارہو گا۔ سابق رکن پارلیمان سادھوی پرگیہ ٹھاکر کی خاطر خود وزارتِ داخلہ کے تحت کام کرنے والی این آئی اے کا سخت سے سخت سزا یعنی پھانسی کا مطالبہ مودی یُگ کا وہ معجزہ ہے جس کا تصور محال تھا ۔ اس فیصلے نے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کو بے چین کردیا ہے ۔ مہاراشٹر کی صوبائی حکومت عدالتِ عالیہ کے خلاف سپریم کورٹ میں جارہی ہے لیکن وہاں فیصلہ جو بھی ہو پرگیہ کے لیے پھانسی مطالبہ اور ٹرین دھماکے میں گرفتار بے گناہ قیدیوں کی رہائی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں اور نہ تمام ہندو بھی دیش بھگت ہیں۔ ممبئی ٹرین دھماکہ معاملہ میں دیر سے سہی مگر انصاف تو ملا۔
11 جولائی 2006 کو ممبئی کی لوکل گاڑیوں میں ٧سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے تھے جن میں 180 سے زائد افراد کی موت اور تقریباً 800 لوگ زخمی ہوگئے ۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ممبئی آکر سوگواروں کے آنسو پونچھے اور جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا وعدہ کیاتھا۔ آگے چل کر انتظامیہ نے 13 مسلم نوجوانوں پر دھماکہ کرنے کا الزام لگا کر گرفتار کرلیا۔ ان میں سے کمال انصاری تو فیصلے سے قبل دارِ فانی سے کوچ کرگئے ۔ ان کے علاوہ محمد فیصل عطاء الرحمن شیخ’ احتشام قطب الدین صدیقی’ نوید حسین خان ، آصف خان ،تنویر احمد محمد ابراہیم انصاری’ کو سیشن کورٹ نے 2015 میں پھانسی کی سزا سنادی نیز باقی ٧ محمد ماجد محمد شفیع’ شیخ محمد علی عالم شیخ’ محمد ساجد مرغوب انصاری’ مزمل عطاء الرحمن شیخ’ سہیل محمود شیخ ،ضمیر احمد لطیف الرحمن شیخ کوعمرقید کی سزا سنائی گئی نیز وحید شیخ کو بری کردیا گیا۔ مذکورہ بالا فیصلے کو عدالتِ عالیہ میں چیلنج کیا تو اگلے نو سالوں تک سماعت ہی نہیں ہوئی اور بالآخر 19 برس بعد بمبئی ہائی کورٹ نے تمام 12 ملزمین کو بری کردیا کیونکہ استغاثہ کیس کو ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔
جسٹس انیل کلور اور جسٹس شیام چنڈک کی خصوصی بنچ نے بہت تفصیل و انہماک کے ساتھ یہ فیصلہ لکھا جس کا لب لباب یہ ہے کہ استغاثہ یہ تک نہیں ثابت کر سکا کہ آخر کس قسم کے بم استعمال کئے گئے تھے ۔ اس کے ذریعہ جو شواہد پیش کیے گئے ان کی بنیاد پر ملزمین کو خاطی نہیں قراردیاجاسکتا ہے ۔اس کے علاوہ گواہوں کے بیانات اور ملزمین سے مبینہ برآمدگی ہائی کورٹ کو مطمئن نہیں کرسکی استغاثہ یعنی پولیس کی بابت یہ انکشاف کیاگیا کہ وہ اہم گواہوں پر جرح میں ناکام رہا۔ اس نے نہ تو برآمدکردہ اشیاء کی ٹھیک سے مہربندی کی تھی اور نہ ہی انہیں سنبھال کر رکھا تھا۔ ہائی کورٹ نے بعض ملزمین کے اقبالیہ بیانوں کو بھی یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ وہ انہیں اذیت دے کر لئے گئے تھے نیز ناکافی اور جھوٹے تھے ۔ یہ ایک دوسرے کے کاپی پیسٹ بھی پائے گئے ۔ عدالت کے مطابق ملزمین نے ثابت کردیا کہ اقبال ِ جرم کرواتے وقت انہیں اذیت دی گئی تھی۔ یعنی پولیس کے جھوٹ کی ہانڈی بھری عدالت میں پھوٹ گئی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں تکنیکی لاپرواہیوں پر بھی گرفت کی ۔ جج صاحبان نے ملزمین کی شناختی پریڈ کواس بنیاد پر مسترد کردیا کہ پولیس کے جن عہدیداروں نے یہ پریڈ کرائی انہیں اس کا اختیار ہی نہیں تھا۔ عدالت نے شواہد کی گواہی کو اس لیے قبول کرنے سے انکار کردیا کیونکہ عینی شاہدین نے پولیس کے سامنے واقعہ کے 4 ماہ بعد ملزمین کی شناخت تھی اور عدالت میں اس کی نوبت 4 سال بعدآئی۔ عدالت نے اس حقیقت کی جانب بھی انگشت نمائی کی کہ واقعہ کے دن تو گواہوں کے لیے ملزمین کو اچھی طرح دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا اس لیے ان سے درست شناخت کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ؟ تعجب کی بات یہ ہے اتنی بڑی خامیوں کی جانب سیشن کورٹ کی توجہ کیوں نہیں گئی؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام طور ایسے نازک معاملات میں نچلی عدالتیں گہرائی جانے کے بجائے انتظامیہ کی تائید کردیتی ہیں لیکن خدا کا شکر ہے عدالتِ عالیہ نے اپنی ذمہ داری بخیر و خوبی ادا کی۔ یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر کی مختلف جیلوں قید ملزمین نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ عدالت اور وکیلوں کا شکریہ ادا کیا۔
ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے جہاں بے قصور قیدیوں کے اہل خانہ اور سماج کے سارے عدل پسند لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہیں مسلمانوں سے نفرت کرنے والے زعفرانی تلملا اٹھے ۔ دھماکے سے متاثرین کو چونکہ باور کرادیا گیا تھا کہ یہی ملزمین دھماکے کے مجرم بھی ہیں اس لیے فیصلے سے مایوسی ہوئی ۔ اب وہ سوال کررہے ہیں کہ اگر یہ لوگ بے قصور ہیں آخر اصلی مجرم کون ہے ؟ اتفاق سے شیو سینا
( شندے ) کے ترجمان سنجے نروپم نے بھی ایسے ہی سوالات کیے ۔ انہوں نے فیصلہ پر مایوسی کا اظہار کرنے کے بعد کہا کہ اگر ان ملزمین میں سے کوئی بھی سلسلہ وار ٹرین بم دھماکہ کے لئے ذمہ دار نہیں ہے تو پھر یہ بم دھماکے کس نے کئے ؟کیا ہماری جانچ ایجنسی کے کام میں کوئی کمی رہ گئی ہے ؟ انہوں نے جانچ ایجنسی سے پوچھا کہ کیاجن ملزمین کو انہوں نے پکڑا تھا ان کے خلاف ضروری ثبوت نہیں ملے تھے ؟کیاوہ ثبوت جمع نہیں کر سکے تھے ؟
سنجے نروپم نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت اور جانچ ایجنسی بامبے ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف اونچی عدالت جائے گی لیکن سوال یہ ہے کہ ان جعلی شواہد کی بنیاد پر بے قصور لوگوں کو سزا دلوانے کے بجائے کیا اصلی مجرموں کو پہچانا جاسکے گا؟ بی جے پی کے ترجمان کریٹ سومیا صدمہ میں ہیں اور ممبئی کے شہریوں کی خاطر انصاف کی خاطردھماکہ کرنے والے دہشت گردوں کو پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں مگر اس کے لیے کسی بے قصور کے بجائے قصور وار کی شناخت لازمی ہے ۔ وزیر محصولات چندر کانت باونکلے نے کہا کہ ”اس معاملے میں وزیر اعلیٰ سے بات چیت کے دوران کمیوں کو دور کر کے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے پرغور و خوض کیا جائے گا ۔ این سی پی(شردپوار ) کے ریاستی صدر ششی کانت شندے نے اس معاملے میں حکومت اور ایجنسی کو جائزہ لے کر سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی رائے دی ۔ سماجوادی پارٹی نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے بری ہونے والے سبھی لوگوں کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کردیاکیونکہ جھوٹے الزام میں گرفتار کر کے حکومت نے ان کے 19سال ضائع کردیئے ۔
اس بابت سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی رئیس شیخ نے کہا کہ ” ہم بامبے ہائی کورٹ کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہیں اور شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے ان نوجوانوں کو انصاف دیا”۔ انہوں نے سوال کیا کہ ” حکومت کیسے کسی بے گناہ کو اس طرح قید میں رکھ کر ان کی عمر کے بیش قیمتی 19 سال ضائع کر دیئے ؟ وہ بولے ” جاپان میں ایک شخص کو با عزت بری کیاگیاتو وہاں کی حکومت نے اس نوجوان کو نہ صر ف معاوضہ دیا بلکہ معافی بھی مانگی۔ دیگر ممالک میں جس طرح ملزمین کوبے قصور ثابت ہونے پر حکومت کی جانب سے معاوضہ دیاجاتا ہے اسی طرح حکومت مہاراشٹر کو بھی ان12 بے گناہوں کو معاوضہ دینا چاہئے ۔” ممبئی کانگریس کی صدر و رکن پارلیمان ورشا گائیکواڑ نے بامبے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے توازن قائم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ موصوفہ نے کہا کہ”ہمیں عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے نیز ممبئی کے دیگر شہریوں کی طرح ہمارا بھی یہی مطالبہ ہے کہ ممبئی ٹرین بم دھماکے کے جو بھی اصل مجرم ہیں انہیں یقینی طور پر سخت سے سخت سزا دی جائے یعنی جعلی مجرمین پر نزلہ نہ اتارا جائے ۔
ورشا گائیکواڑ نے ریاستی حکومت سے درخواست کی کہ وہ مجرمین کے خلاف ضروری ثبوتوں اور دستاویزات کے ساتھ سپریم کورٹ میں اپیل کرے کیونکہ جب بھی اس طرح کا دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے تواس میں بے گناہ شہریوں کی جان جاتی ہے اور سرکاری و نجی املا ک کا بھی نقصان ہوتا۔ یہ بات درست ہے مگرایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسے حملوں کی تفتیش میں سرکاری ایجنسیاں اپنی ذمہ داری کما حقہُ ادا نہیں کرتیں ۔ افسران اپنے سیاسی آقاوں کو خوش کرنے کی خاطر بے قصور مسلمانوں کو گرفتار کرکے اپنی ترقی کرواتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو تو انعام و اکرام سے نوازہ جاتا ہے مگر ونود بھٹ جیسا انصاف پسند افسرجب سرکار کی تائید کرکے جھوٹے الزامات گھڑنے سے انکار کردے تو اس پر اتنا دباو ڈالا جاتا ہے کہ وہ خود کشی پر مجبور ہوجائے لیکن وہ زندہ ضمیر لوگ بے قصور کو پھنسانے کے بجائے اپنی جان گنوانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یہ فیصلہ اگر کانگریس کے دور اقتدار میں آتا تو اس کو مسلمانوں کی ناز برداری کا نام دیا جاتا مگر یہ تو مودی راج میں آگیا ایسے میں ارشادِ قرآنی کی یاد آتی ہے ” کیا یہ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں؟ (اگر یہ بات ہے ) تو کفر کرنے والوں پر ان کی چال الٹی ہی پڑے گی”۔

متعلقہ مضامین

  • صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ کا شرح سود میں 5فیصد کمی کا مطالبہ
  • مودی حکومت نے مزید 3 کشمیری مسلمانوں کو املاک سے محروم کر دیا
  • غزہ میں تشدد اور انسانی بحران شدت اختیار کرگیا، مزید 80 فلسطینی شہید
  • ممبئی ٹرین دھماکہ
  • امریکا میں کتنے فیصد ملازمین کو خوراک کے حصول، بچوں کی نگہداشت میں مشکل کا سامنا؟
  • عام صارفین اور تاجروں کیلئے اکاؤنٹ کھولنا مزید آسان، جامع فریم ورک متعارف کرا دیا گیا
  • پاکستان میں بینک اکاؤنٹ کھولنا مزید آسان، جامع فریم ورک متعارف
  • ہفتہ وار مہنگائی کی شرح بڑھ کر 4.07فیصد ہو گئی ، 14اشیائے ضروریہ مزید مہنگی
  • وزیرِاعظم شہبازشریف کی ڈاکٹرفوزیہ صدیقی سے ملاقات
  • بلوچستان حکومت کے نوجوان پائلٹس کے تربیتی پروجیکٹ میں اہم پیشرفت