جنگ بندی کا اختتام، اسرائیل نے غزہ کو امداد کی فراہمی روک دی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
حماس کی جانب سے مذاکرت سے انکار کے بعد غزہ کو امداد کی سپلائی روکنے کا فیصلہ کیا، نیتن
امداد کی ترسیل روکنا سستی بلیک میلنگ ہے، جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ شروع کیا جائے، حماس
جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کا اختتام، اسرائیل نے غزہ کیلئے امداد کا داخلہ روک دیا، اسرائیل نے غزہ میں کھانے پینے سمیت ہر قسم کے سامان کا داخلہ روک دیا۔جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اختتام کے بعد اسرائیل نے غزہ میں کھانے پینے سمیت ہر قسم کے سامان کا داخلہ روک دیا۔اسرائیلی وزیراعظم نے کہا گیا کہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اختتام اور حماس کی جانب سے بامقصد بات چیت کو جاری رکھنے سے انکار کے بعد 2 مارچ سے اسرائیل نے غزہ کو امداد کی سپلائی مکمل طور پر روکنے کا فیصلہ کیا۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز جنگ بندی کے پہلے مرحلے کی مدت ختم ہونے پر اسرائیل نے جنگ بندی میں عارضی توسیع کا اعلان کیا تھا۔توسیع کی تجویز امریکا نے دی تھی مگر اب اسرائیل نے یوٹرن لیتے ہوئے امداد کو مکمل طور پر روک دیا ہے۔ دوسری جانب حماس نے جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے پر زور دیا ہے۔حماس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ غزہ کے لیے امداد کی فراہمی روکنا ‘سستی بلیک میلنگ’ ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ خطے میں استحکام اور قیدیوں کی واپسی کا واحد راستہ معاہدے پر عمل درآمد ہے۔بیان کے مطابق اسرائیلی اقدام جنگی جرم اور معاہدے کی واضح خلاف ورزی ہے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: اسرائیل نے غزہ کے پہلے مرحلے امداد کی روک دیا
پڑھیں:
عرب ممالک کی مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اسرائیلی مطالبات کی مذمت
دوحہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔03 جولائی ۔2025 )عرب ممالک نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے سرکاری اسرائیلی مطالبات کو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے عرب نشریاتی ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو 14 اسرائیلی وزرا اور کنیسٹ کے اسپیکر عامر اوحانا کے دستخطوں کے ساتھ ارسال کردہ خط میں مطالبہ کیا گیا کہ مقبوضہ مغربی کنارے کو فوری طور پر اسرائیل میں ضم کر دیا جائے.(جاری ہے)
اسرائیلی وزیر انصاف یاریو لیوین نے بھی اسی مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی خودمختاری نافذ کریںفلسطینی اتھارٹی نے ایک بیان میں ان مطالبات کو خطے کے استحکام کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ہے اردن کی وزارت خارجہ نے اسرائیلی حکومت کے اراکین کی جانب سے دیے گئے ان بیانات کو انتہائی خطرناک اور شدید قابل مذمت قرار دیا. سعودی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر جاری بیان میں فلسطین کے مغربی کنارے پر اسرائیلی خودمختاری نافذ کرنے کے سرکاری اسرائیلی مطالبے کی شدید مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیا سعودی وزارت خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سعودی عرب فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کی ہر کوشش کو مسترد کرتا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی حکام کو عالمی فیصلوں کے مطابق جواب دہ بنایا جانا چاہیے. مصری وزارت خارجہ نے بھی اسرائیلی مطالبات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی اور فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضے کو مضبوط کرنے کی کوشش قرار دیا دوسری جانب امریکی جریدے”نیویارک ٹائمز“نے ذرائع کے حوالے سے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والے ممکنہ معاہدے کی تفصیلات شائع کی ہیں اسرائیلی سیکیورٹی ذرائع اور حماس سے قریبی تعلق رکھنے والے فلسطینی ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس معاہدے میں دس اسرائیلی زندہ یرغمالیوں کی رہائی اور اٹھارہ زخمیوں کی منتقلی شامل ہے جن کے بدلے فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا. ان یرغمالیوں کی رہائی اور لاشوں کی منتقلی پانچ مراحل میں مکمل کی جائے گی جو ساٹھ دن کی مجوزہ جنگ بندی کے دوران انجام پائے گی اسرائیلی ذریعے کے مطابق اس منصوبے کے تحت حماس سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اس بار یرغمالیوں کی رہائی کے وقت پہلے کی طرح کسی قسم کی ”رہائی کی تقاریب“ منعقد نہ کرے جیسا کہ اس سال کے اوائل میں ایک عارضی جنگ بندی کے دوران ہوا تھا حماس نے ایک بیان میں کہا کہ اسے جنگ بندی سے متعلق نئی تجاویز موصول ہوئی ہیں جو ثالثوں کے ذریعے پیش کی گئی ہیں اور اس کا مقصد ایسا معاہدہ حاصل کرنا ہے جو اس تصادم کو ختم کرے اور اسرائیلی افواج کے غزہ سے انخلا کی ضمانت دے. حماس نے اپنے سرکاری ٹیلیگرام صفحے پر جاری ایک بیان میں کہاکہ ثالث تمام فریقوں کے درمیان خلا کو پاٹنے اور ایک فریم ورک معاہدہ حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ مذاکرات کے آغاز کی خاطر بھرپور کوششیں کر رہے ہیں بیان میں کہا گیاکہ ہم اس معاملے کو اعلیٰ درجے کی ذمہ داری کے ساتھ لے رہے ہیں اور قومی مشاورت کر رہے ہیں تاکہ ثالثوں کی طرف سے موصول ہونے والی تجاویز پر غور کیا جا سکے اور ایسا معاہدہ حاصل کیا جا سکے جو جارحیت کے خاتمے، انخلا کی تکمیل، اور ہمارے عوام کے لیے فوری امداد کی ضمانت دے، خاص طور پر غزہ کی پٹی میں. اسی سلسلے میں امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی حکام غزہ میں عارضی جنگ بندی کے لیے آمادہ نظر آ رہے ہیںامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس بات نے کہ اسرائیل نے ساٹھ روزہ جنگ بندی کی شرائط سے اتفاق کر لیا ہے، غزہ کی پٹی میں امیدیں دوبارہ زندہ کر دی ہیں. قبل ازیں سوشل میڈیا پر جاری ایک پیغام میںصدر ٹرمپ نے کہا کہ میرے نمائندوں نے آج اسرائیلیوں کے ساتھ غزہ کے حوالے سے ایک طویل اور تعمیری ملاقات کی ہے انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل نے ساٹھ روزہ جنگ بندی کے لیے ضروری شرائط سے اتفاق کر لیا ہے اور اس مدت کے دوران ہم تمام فریقوں کے ساتھ مل کر جنگ کے خاتمے کے لیے کام کریں گے. انہوں نے کہاکہ قطری اور مصری، جنھوں نے امن کے لیے سخت محنت کی ہے اس حتمی تجویز کو پیش کریں گے ٹرمپ نے بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ میں مشرقِ وسطیٰ کے مفاد میں یہ امید کرتا ہوں کہ حماس اس معاہدے کو قبول کرے گی کیونکہ صورت حال بہتر ہونے والی نہیں بلکہ مزید خراب ہو جائے گی.