یوکرین کی صورتحال اور پاکستان کا فائدہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
یوکرینی صدر زیلنسکی نے کہا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ منرل ڈیل کرنے کو تیار ہیں۔ یہ بیان زیلنسکی نے لندن میں برٹش میڈیا کے سامنے دیا ہے۔ 28 فروری کو یوکرینی صدر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس سے ایک ملاقات کی تھی۔ میڈیا کیمروں کے سامنے یہ ملاقات شاؤٹنگ میچ میں تبدیل ہو گئی۔ اپنی ہر ممکن عزت افزائی کروا کر زیلنسکی لندن آ گئے تھے۔
امریکیوں نے زیلنسکی کے لیے جو کھانا تیار کیا وہ بھی پھر اوول آفس کے اسٹاف نے کھایا تھا ۔ یوکرینی صدر کے ساتھ امریکا میں جو کچھ ہوا اس پر یورپ کی ممتا جاگی تھی۔ امریکا دورے کے بعد یہ واضح تھا کہ یوکرین کو اگر روس کے سامنے کھڑا رہنا ہے تو پھر یورپ کا آسرا لینا ہو گا۔
یورپ کی روس کے ساتھ مخاصمت کی ایک تاریخ ہے۔ یورپ کی مشترکہ اکانومی روس سے بہت بڑی ہے۔ یورپ کے پاس بیلجیم میں روس کے بیرونی اثاثے بھی منجمد ہیں۔ ان منجمد اثاثوں کی مالیت 211 ارب ڈالر ہے۔ یہ بیلجیم کے یورو کلئر ادارے کے پاس ہیں۔ روس نے بھی یورپ کے 30 ارب پاؤنڈ کے اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔ یورپ روس کے یہ منجمد اثاثے یا ان کا کچھ حصہ بھی یوکرین کو جنگ میں مدد کے لیے فراہم کر سکتا ہے۔ عملی طور پر یہ کوئی بہت قابل عمل آئیڈیا نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ریکوڈک سے بلوچستان کو فائدہ ہوا تو بہت کچھ بدل جائے گا
فرانس کے صدر ایمانوئل میکراں یوکرین میں یورپ کے فوجی دستوں کی تعیناتی کے حامی ہیں۔ ان کا آئیڈیا یہ ہے کہ مغربی یوکرین میں ایک لاکھ یورپی فوجی تعینات کیے جائیں۔ یوکرین اپنے مغربی حصے کے دفاع سے بے فکر ہو کر روس سے مشرقی یوکرین میں لڑائی جاری رکھے۔
فرانس کے پاس 2 لاکھ، برطانیہ کے پاس ایک لاکھ 50 ہزار اور جرمنی کے پاس ایک لاکھ 80 ہزار فوجی ہیں۔ کوئی بھی ملک نہ تو لڑائی کے لیے تیار ہے نہ اکیلے یا مل کر اتنی فوج یوکرین میں تعیناتی کے لیے فراہم کرنے کے قابل ہے۔ فوجی تعیناتی کے ساتھ ائر سپورٹ فراہم کرنا بھی شامل ہے ۔ تاکہ روس یوکرین کے مغربی حصے کی طرف نہ آئے ۔ اس سب میں کوئی یہ نہیں سوچ رہا اگر روس کا دل کیا آنے کو وہ آ گیا تو پھر؟
ایسا نہ بھی ہو تو اصل بنیادی سوال موجود رہتا ہے۔ وہ یہ کہ اتنی فوجی ڈپلائمنٹ اور ائر سپورٹ کا بل کون ادا کرے گا؟ ۔ یورپ یوکرین کو اسٹارم شیڈو، ٹورس لانگ رینج میزائل فراہم کر سکتا ہے۔ ایئر ڈیفنس سسٹم فراہم کر سکتا ہے۔ یوکرین کو درکار 25 لاکھ سالانہ آرٹلری شیل میں سے 20 لاکھ فراہم کر سکتا ہے۔ ایسا ہوا تو روس کے لیے فوجی چیلنج بڑھ جائے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ یوکرین کو درکار اسلحہ کا صرف 25 فیصد ہی فراہم کرنے کے قابل ہے۔
یورپ یوکرین کے انرجی منصوبوں اور صلاحیت کی بحالی میں مدد دے سکتا ہے اور یوکرین کو تعمیر نو میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔ یورپ سفارتی حوالے سے روس پر اچھا خاصا پریشر ڈال سکتا ہے۔ روس پر پابندیاں بھی لگا سکتا ہے۔ امریکا کے بغیر یہ پابندیاں البتہ زیادہ اثر نہیں کریں گی۔ یورپ سب کچھ کر کے بھی یوکرین کو زیادہ سے زیادہ 6 ماہ سے ایک سال مزید روس کے سامنے کھڑا رکھ سکتا ہے۔
مزید پڑھیے: مودی کا شائننگ انڈیا اور ٹرمپ کا ریگ مال
اس 6 ماہ سال کھڑا رہ کر اور اربوں ڈالر مزید پھوک کر کیا ملے گا۔ اس حاصل وصول کا حساب یوکرین کو کرنا ہے۔ انہیں ہی اس کو بھگتنا ہے۔ شاید اسی لیے یوکرینی صدر نے منرل ڈیل پر سائن کرنے کے لیے دوبارہ واشنگنٹن جانے کا کہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ روس امریکا نے یوکرین جنگ پر سعودیہ میں براہ راست مذاکرات کیے تھے۔
روس امریکا مذاکرات میں زیلنسکی کو ہٹانے پر بھی غور ہوا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ زیلنسکی کو ڈکٹیٹر کہہ چکے ہیں۔ جس کی حمایت صرف 4 فیصد ہے۔ سنہ 2024 کے وسط میں اپنی مدت پوری ہو جانے کے باوجود یوکرین میں نئے الیکشن نہیں کرائے گئے۔ یوکرین کا آئین ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یوکرین الیکشن کے لیے سیز فائر اگر ہو جاتا ہے۔ نیا یوکرینی صدر آ کر نئے سرے سے مذاکرات اور معاہدے کر سکتا ہے۔ وہ بھی شاید بہتر پوزیشن سے۔
پاکستان کے حوالے سے یہ دلچسپ صورتحال ہے۔ جب یوکرین جنگ شروع ہوئی تو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اس دن روس میں موجود تھے۔ پاکستان جنگ شروع ہونے کے بعد سے مسلسل روس کے ساتھ روابط بڑھاتا رہا ہے۔ روسی صدر پاکستان کو نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کاریڈور میں شمولیت کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ سفارتی فوجی معاشی اور انرجی تعاون واضح طور پر بڑھتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔
مزید پڑھیں: چابہار پر امریکی پابندیاں، پاکستان کے لیے نئے امکانات
ایسے وقت میں جب امریکا اور روس ایک پیج پر آ چکے ہیں۔ پاکستان کے لیے صورتحال میں سکون کے کئی پہلو ہیں۔ بظاہر پاکستان امریکا کے ساتھ الائنمنٹ میں ہی چلتا رہے گا۔ یہ الائنمنٹ ہی وہ وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اپنی مقبولیت اور امریکی رابطوں کے باوجود اپنے لیے اب تک کوئی حمایت حاصل کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت کو اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ روس کے ساتھ سفارتی معاشی تعلقات بڑھا سکے گی اور امریکی دباؤ سے بچی رہے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
امریکا امریکا یوکرین معاہدہ پاکستان روس یوکرین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکا یوکرین معاہدہ پاکستان یوکرین فراہم کر سکتا ہے یوکرینی صدر یوکرین میں پاکستان کے یوکرین کو کے سامنے کے ساتھ کے پاس کے لیے روس کے
پڑھیں:
دیرپا کیمیکل سے ذیابیطس کا خطرہ 31 فیصد تک بڑھ سکتا ہے، تحقیق
حالیہ سائنسی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ دیرپا کیمیکل (پرفلوروالکائل اور پولی فلوروالکائل سبسٹینسز)، جنہیں ’فورایور کیمیکلز‘ کہا جاتا ہے، کے زیادہ استعمال سے ٹائپ 2 ذیابیطس کے خطرے میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیمیکل جسم کے میٹابولزم کو متاثر کرتے ہیں اور بلڈ شوگر ریگولیشن میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ فورایور کیمیکلز کو روزمرہ کی اشیا جیسے نان اسٹک کوک ویئر، فوڈ پیکجنگ اور کپڑوں کو داغ سے محفوظ کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں 26 منرل واٹر برانڈز انسانی صحت کے لیے غیرمحفوظ قرار
اس تحقیق کے دوران ماہرین نے حال ہی میں ٹائپ 2 ذیابیطس کے شکار 180 افراد کے خون کے نمونوں کا موازنہ 180 صحت مند افراد سے کیا۔ نتائج کے مطابق، جب فورایور کیمیکلز کی سطح کم سے معتدل اور پھر معتدل سے زیادہ ہوئی تو ذیابیطس کے امکانات میں 31 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا۔
مزید میٹابولک ٹیسٹنگ سے اس ممکنہ تعلق کی وجوہات بھی سامنے آئیں۔ محققین نے بتایا کہ دیرپا کیمیکل جسم میں امینو ایسڈز، جو پروٹین کے بنیادی اجزا ہیں، کی تیاری اور دواؤں کے انہضام کے عمل کو متاثر کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پلاسٹک انسانی صحت اور قدرتی ماحول کس طرح تباہ کر رہاہے؟
تحقیق کے سینیئر مصنف کے مطابق بڑھتی ہوئی ہوئی سائنسی شواہد سے پتا چلتا ہے کہ فارایور کیمیکل کئی دائمی بیماریوں، جیسے موٹاپا، جگر کی بیماری اور ذیابیطس، کے خطرے کا باعث بنتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ نتائج دیرپا کیمیکل سے بچنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں تاکہ عوامی صحت کو فروغ دیا جاسکے۔
دریں اثنا، PFAS پر پابندی کے معاملے کو اقوامِ متحدہ کے مجوزہ پلاسٹک معاہدے میں شامل کرنے پر عالمی سطح پر غور جاری ہے۔ اس معاہدے پر بات چیت رواں سال اگست میں جنیوا میں متوقع ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انسانی صحت پرفلوروالکائل اور پولی فلوروالکائل سبسٹینسز تحقیق خطرہ دیرپا کیمیکل ذیابیطس فور ایور کیمیکلز ماہرین صحت