پاکستان: بنوں میں فوجی اڈے پر خودکش حملے میں 12 افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 مارچ 2025ء) پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں حکام اور مقامی ہسپتال کے اہلکاروں کے مطابق منگل کی شام کو بنوں شہر میں واقع فوجی چھاؤنی پر عسکریت پسندوں کی جانب سے حملہ کرنے کی کوشش کے دوران کم از کم ایک درجن افراد ہلاک اور تیس کے قریب زخمی ہو گئے۔
حکام کے مطابق دوسرے حملہ آوروں کے کمپاؤنڈ میں داخل ہونے سے پہلے دو خود کش حملہ آور بنوں چھاؤنی کی دیوار کو توڑنے میں کامیاب ہوئے، تاہم پاکستانی فورسز نے ان کے اس حملے کو پسپا کر دیا۔
پاکستان: عسکریت پسندوں کے حملے میں تین پولیس اہلکاروں سمیت چار ہلاک
شدت پسندوں کا افطار کے دوران حملہشدت پسندوں کی جانب سے یہ حملہ افطار کرنے کے دوران کیا گیا، جس میں کم از کم 12 افراد ہلاک اور دس فوجیوں سمیت 30 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
(جاری ہے)
ہائی سکیورٹی زون میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران عسکریت پسندوں کی جانب سے بنوں چھاؤنی کے احاطے میں بارود سے بھری دو گاڑیاں ٹکرانے کے سبب بہت زور کا دھماکہ ہوا، جس میں پانچ خواتین اور چار بچوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
عسکریت پسندوں نے چھاؤنی کے داخلی راستے پر تعینات سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے روکنے کے بعد گیٹ پر ہی گاڑیوں کو دھماکے سے اڑا دیا۔ دھماکوں کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ قریب کے مکانات اور مسجد منہدم ہو گئی اور افطار کے لیے جمع ہونے والے متعدد افراد ملبے تلے دب گئے۔
پاکستان کا افغانستان سے 'دہشت گردوں' کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
چھ حملہ آور بھی ہلاکحکام کے مطابق دھماکوں کے بعد "عسکریت پسندوں کی ایک غیر متعینہ تعداد" نے کیمپ کے اندر گھسنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا۔
خبر رساں ادارے اے پی نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک مقامی اہلکار کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ "دیوار میں شگاف پڑنے کے بعد، پانچ سے چھ مزید حملہ آوروں نے چھاؤنی میں داخل ہونے کی کوشش کی، لیکن انہیں مار دیا گیا۔"
ایک مقامی اہلکار نے پاکستانی میڈیا ادارے ڈان کو بتایا، "حملہ افطار کے چند منٹ بعد شام ساڑھے چھ بجے شروع ہوا۔
حملے کے دوران عسکریت پسندوں نے آر پی جی اور دستی بم داغے۔ اضافی دستے اور ایس ایس جی کمانڈوز کو علاقے میں بھیج دیا گیا ہے۔"ڈیرہ اسماعیل خان میں عسکریت پسندوں کے نئے حملے میں متعدد افراد ہلاک
پاکستانی طالبان نے ذمہ داری قبول کر لیپاکستانی طالبان سے وابستہ ایک گروپ جیش فرسان محمد نامی گروپ نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اس کا تعلق حافظ گل بہادر مسلح گروپ کے ایک دھڑے سے بتایا جاتا ہے۔اس نے اس حملے میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے درجنوں ارکان کے ہلاک کرنے کا بھی دعوی کیا اور کہا، "ہمارے جنگجوؤں نے ایک اہم ہدف تک رسائی حاصل کی اور کنٹرول حاصل کر لیا۔" تاہم ان دعووں کی آزاد ذرائع سے کوئی تصدیق نہیں ہو سکی۔
پاکستانی فوج نے بھی فوری طور پر کسی جانی نقصان کی تصدیق نہیں کی، تاہم بنوں کے ڈسٹرکٹ ہسپتال کا کہنا ہے کہ کم از کم ایک درجن افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
بنوں چھاؤنی پر حملہ، آٹھ پاکستانی سکیورٹی اہلکار ہلاک
متعدد مکانات منہدم اور امدادی کاروائیاں جاریدھماکوں کی شدت کے باعث آس پاس کے متعدد مکانات کی چھتیں اور دیواریں گرنے کی اطلاع ہے۔ فوجی چھاؤنی کے داخلی دروازے سے متصل ایک مسجد بھی منہدم ہو گئی اور مبینہ طور پر متعدد نمازی ملبے کے نیچے دب گئے۔ انہیں ملبے سے نکالنے کے لیے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
ایک امدادی اہلکار نے بتایا کہ امدادی کارروائیوں کے لیے ایمبولینسوں کے ساتھ طبی ٹیموں کو علاقے میں روانہ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "لوگ تباہ شدہ مکانات اور ایک مسجد کے ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے ہیں اور امدادی کارکن انہیں نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
ایک مقامی پولیس افسر زاہد خان نے بتایا کہ دھماکے کے سبب دھوئیں کے بادل فضا میں بلند ہوئے اور دھماکوں کے بعد گولیاں چلنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
ہسپتال کے حکام نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں چار بچے تھے، جو دھماکوں کی جگہ کے قریب ہی رہتے تھے۔پاکستان: بنوں کینٹ پر دہشت گردوں کا حملہ، متعدد افراد زخمی
بنوں ڈسٹرکٹ ہسپتال کے ترجمان محمد نعمان نے بتایا کہ شام کو ہونے والے دھماکوں سے گھروں اور دیگر عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھتیں اور دیواریں گر گئیں اور اسی وجہ سے جانی نقصان ہوا ہے۔
ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر احمد فراز خان نے کہا، "اب تک ہمیں 42 متاثرین، 12 ہلاک اور 30 زخمی موصول ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی حالت نازک ہے لیکن زیادہ تر کی حالت مستحکم ہے۔ تمام ڈاکٹروں بالخصوص سرجنز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو ڈیوٹی پر طلب کر لیا گیا ہے اور میڈیکل ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔"
حملے کی مذمتچند روز قبل ہی پاکستان کے ایک مدرسے میں خودکش حملہ ہوا تھا، جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس کے بعد یہ نیا حملہ ہوا ہے۔
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے ایک بیان میں اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے "گھناؤنا" قرار دیا اور کہا کہ "پوری قوم اس طرح کی نفرت انگیز کارروائیوں کو مسترد کرتی ہے۔"
بنوں میں بم حملہ، سابق وزیراعلیٰ بال بال بچ گئے
وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا اور واقعے میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔
وزیر اعظم نے کہا، "بزدل دہشت گرد جو رمضان کے مقدس مہینے میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں، وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان دشمن ہے اور اس کے مذموم عزائم کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔"
خیبر پختونخوا کی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے ایک بیان میں کہا کہ تمام حملہ آوروں کو سکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "دھماکے کے نتیجے میں قریبی مسجد کی چھت گر گئی، جس کے سبب نمازی ہلاک ہو گئے۔"
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عسکریت پسندوں نے بتایا کہ افراد ہلاک دھماکوں کی کی جانب سے ہسپتال کے پسندوں کی کے دوران حملے میں ہلاک ہو کی کوشش نے کہا کے بعد نے ایک کہا کہ
پڑھیں:
ایران کے شہر زاہدان میں عدالت پر دہشت گردوں کا حملہ
تہران ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 26 جولائی 2025ء ) ایران میں مسلح دہشت گردوں نے عدالت پر حملہ کردیا۔ ایرانی میڈیا کے مطاقب ایران کے سرحدی شہر زاہدان میں عدالت پر دہشت گردوں کی جانب سے حملہ کیا گیا ہے، مسلح دہشت گردوں کے اس حملے میں متعدد افراد کے جاں بحق ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، حملے کی اطلاع ملتے ہی سکیورٹی فورسز فوری طور پر موقع پر پہنچ گئیں اس کے علاوہ ایمرجنسی سروسز نے بھی موقع پر ریسکیو اور زخمیوں کے لیے فوری امداد پہنچنانے کا کام شروع کردیا۔ اس سے پہلے رواں برس جنوی میں دارالحکومت تہران میں سپریم کورٹ میں فائرنگ کے حملے میں دو سینیئر ایرانی جج جاں بحق ہو گئے تھے، تب ہونے والے حملے میں ایک مسلح شخص نے عدالت میں فائرنگ کرنے کے بعد خود کی بھی گولی مار کی جان لے لی تھی، حملے میں مقتولین کی شناخت مسلم سکالرز علی رضانی اور محمد مغیث کے طور پر ہوئی، دونوں حجت الاسلام کے عہدے پر فائز تھے اور ہر ایک عدالت کی مختلف شاخوں کی صدارت کر رہے تھے۔(جاری ہے)
عدلیہ کے ترجمان اصغر جہانگیر نے ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا تھا کہ ہینڈگن سے مسلح ایک شخص دو ججوں کے کمرے میں داخل ہوا اور انہیں گولی مار دی جس کے بعد حملہ آور نے خودکشی کی، حملہ آور کی شناخت اور اس کا مقصد فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا تھا، تاہم ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا تھا کہ مجرم کے خلاف سپریم کورٹ میں پہلے سے کوئی کیس نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس کے رشتہ داروں مین سے کسی کا کیس زیر سماعت تھا۔ سرکاری خبر رساں ادارے تہران ٹائمز نے بتایا تھا کہ حملے میں ایک جج کا ایک محافظ بھی زخمی ہوا، واقعے کے بعد عدالت کی عمارت میں کام کرنے والے متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا جہاں یہ حملہ ہوا تھا، صدر مسعود پیزیشکیان نے کہا تھا کہ دہشت گردانہ اور بزدلانہ ایکٹ کے خلاف سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس مین ملوث افراد کا جلد از جلد تعاقب کریں گے۔