ایک زمانہ وہ تھا جب یورپ اپنی کوئی پہچان رکھتا تھا، تب وہاں ایسے ادوار آئے جب مختلف سلطنتوں نے اس براعظم پر راج کیا اور اپنی طاقت کا لطف لیا۔ ان میں سے کچھ سلطنتیں ایسی بھی رہیں جو یورپ سے باہر تک پھیلاؤ حاصل کرگئیں۔ اس پورے عرصے میں یورپ کی اپنی پہچان اور خود مختاری تو تھی، مگر اس کی ایک شناخت اور بھی تھی، یہ باہم دست و گریباں براعظم بھی تھا۔ دوسری جنگ عظیم اس کی آخری بڑی مثال تھی، اس جنگ نے پورے یورپ کو ہی اتنا بدحال کردیا کہ ان کے لیے اپنے دم پر واپس اپنے قدموں پر کھڑے ہونا لگ بھگ محال نظر آتا تھا۔
ان کی اس بدحالی کا امریکا نے دو طرح سے فائدہ اٹھایا۔ ایک تو امیگریشن کا چارہ استعمال کرکے یورپ سے بڑی سطح کا برین ڈرین کرادیا۔ جس سے امریکا کے لیے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی اسپیڈ حاصل کرنا ممکن ہوگیا جو دوسری جنگ عظیم سے فقط پرل ہاربر کی حد تک ہی متاثر ہوا تھا۔ یورپ کی بدحالی کا دوسرا فائدہ امریکا نے یہ حاصل کیا کہ مارشل پلان کے ذریعے اس نے گویا یورپ کو خرید ہی ڈالا اور وہ بھی ممنون بنا کر۔ یوں وجود میں آیا وہ یورپ جہاں اب کوئی سلطنت تھی اور نہ ہی کوئی قومی خود مختاری، مشرقی یورپ سوویت تسلط میں چلا گیا تو مغربی یورپ نے امریکی ڈنڈے کی اطاعت قبول کرلی۔ سوویت زوال کے بعد مشرقی یورپ کی بھی بیشتر ریاستوں نے بھی امریکی ڈنڈے کو بوسہ اطاعت دے ڈالا۔
لگ بھگ 80 برس کا یہ عرصہ ایسا ہے جس میں یورپ باہم دست و گریباں نظر نہیں آتا، ان کی باہمی نفرت وقتاً فوقتاً سر اٹھاتی رہی مگر نوبت کسی جنگ تک نہ جاسکی، کیونکہ امریکا نے انہیں یورپین یونین اور نیٹو کی مشترکہ چھت فراہم کرکے مفادات کے نقطہ نظر سے باہم جوڑ دیا تھا۔
سال 2025 کے بس پہلے ہی 20 دن یورپ سکون سے گزار پایا ہے، اس کے بعد کا ڈیڑھ ماہ یورپ کے لیے ایک ایسے ڈراؤنے خواب جیسا ہے جس سے یہ اب بھی ہڑبڑاہٹ کی حالت میں ہیں۔ واقعات کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ابھی یورپ یہی طے نہ کرپایا تھا کہ وہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس کا ملبہ سمیٹنے کے لیے کیا کرے؟ کہ وائٹ ہاؤس میں پہلے برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر اور اس سے اگلے روز یوکرینی کامیڈین زیلینسکی کی طبیعت ٹرمپ نے صاف کرڈالی۔ زیلینسکی کے ساتھ جو ہوا وہ وائٹ ہاؤس کی تاریخ کا ہی نہیں بلکہ پورے جدید عہد کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے۔ ملکوں کے مابین صورتھال اتنی تلخ ہو جایا کرتی ہے کہ مہلک جنگ کی نوبت آجاتی ہے، مگر دشمن ممالک بھی ایک دوسرے کے سربراہوں کا وقار مجروح نہیں کرتے۔
صورتحال کو سمیٹنے کی بجائے یورپ حیرت انگیز طور پر زیلینسکی کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے، انہیں لندن مدعو کرکے کمر تھپکی گئی اور یقین دلایا گیا کہ قبر میں اتارنے تک ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ذرا صورتحال کی مضحکہ خیزی دیکھیے۔ سلیکٹڈ یورپین لیڈروں کی جس میٹنگ میں زیلینسکی کی کمر تھپکی گئی اس کے اختتام پر برطانوی وزیراعظم نے ایک اعلامیہ بھی جاری فرمایا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم یوکرین کو فضائی و زمینی تحفظ فراہم کرنے کے لیے اپنی فوج یوکرین بھیجنے کو تیار ہیں، مگر ہماری شرط یہ ہے کہ ہماری اس فوج کو امریکی فوج تحفظ فراہم کرے جو یوکرین کو تحفظ فراہم کرے گی۔ آپ نے دنیا کی جدید سیاسی تاریخ میں ایسا لطیفہ پہلے کبھی سنا؟ سوال یہ ہے کہ اگر برطانیہ اتنا طاقتور ہے کہ یوکرین کو روس جیسی بڑی سپر پاور سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے تو پھر اتنا کمزور کیسے ہے کہ یوکرین کو تحفظ فراہم کرنے والی اس کی فوج کو امریکی فوج کا تحفظ درکار ہے؟
اس سوال کا جواب مغربی پوڈ کاسٹس کی دنیا میں قہقہوں سمیت دستیاب ہے۔ عسکری امور کے آزاد تجزیہ کاروں کے ہاں برطانوی فوج سے متعلق یہ جملہ زبان زدعام ہے کہ برطانوی مسلح افواج میں اس وقت گھوڑوں کی تعداد توپوں سے، اور ایڈمرلز کی تعداد وارشپس سے زیادہ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ برطانیہ اسی سلطنت کا نام ہے آج سے 70 سال قبل تک جس کی حدود میں سورج غروب نہ ہوتا تھا، اور جس کی نیوی چار براعظموں میں پھیلی ہوئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کا عرصہ غیر معمولی سائنسی ترقی کا دور ہے، یہی وہ دورانیہ ہے جب ترقی یافتہ اور ترقی پذیر کی تقسیم پولیٹکل سائنس کا حصہ بنی، اس ترقی میں برطانیہ کا حصہ کتنا ہے اس کا اندازہ آپ کو کیئراسٹارمر کے بیان سے ہو گیا ہوگا۔
حال خراب سہی مگر ماضی کے لحاظ سے برطانیہ پرشکوہ تاریخ والا ملک تو ہے، آپ ذرا اس یورپین ملک کا تکبر دیکھیے جسے نقشے پر دیکھنے کے لیے عدسے کی ضرورت پیش آئے۔ استونیا نام ہے اس کا، اس کی کل آبادی 14 لاکھ ہے، اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جو فوج بنائی گئی ہے اس کی کل تعداد 7700 ہے۔ ان میں سے بھی 3500 فوجی جبری بھرتی کے ہیں۔ اس عظیم ملک کی سابق وزیراعظم کایا کالس آج کل یورپین یونین کی خارجہ امور کی سربراہ ہیں۔ زیلینسکی والے واقعے پر اس خاتون نے ٹویٹ فرمایا وقت آگیا ہے کہ فری ورلڈ کے لیے نیا لیڈر ڈھونڈا جائے۔ یورپ کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ گویا مت اتنی ماری گئی ہے کہ خاتون یہی بھول گئیں کہ یہ وہی امریکا ہے جس نے انہیں روس سے بچانا تھا۔ اگر روس دشمن ہے، اور اپنے فری ورلڈ کے لیے آپ کو امریکا کی جگہ کوئی نیا لیڈر چاہیے تو پھر روس اور امریکا دونوں سے آپ کو کون بچائے گا؟
ہر چند کہ یورپ تاثر یہ دے رہا ہے جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کی اسے کوئی خاص پروا نہیں، مگر ہم اسے ایسا بلف سمجھتے ہیں جسے ٹرمپ کسی بھی وقت کال کرسکتے ہیں۔ مثلاً یہی دیکھ لیجیے کہ کیا روس کو نیٹو کی نسبت سے امریکا سے بس یوکرین والی شکایت ہی ہے ؟ نہیں، روس کو ان میزائلوں پر بھی اعتراض ہے جو امریکا نے پولینڈ اور جرمنی سمیت کئی یورپین ممالک میں نصب کیے ہیں۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ ان میزائلوں کو ہٹانے کا اعلان کردیں تو یورپ کے اوسان کھڑے کھلوتے خطا ہوسکتے ہیں۔
مگر فرض کیجیے کہ دھتکارے جانے کے بعد یورپ امریکا سے الگ ہوجاتا ہے تو اس کے مستقبل کا نقشہ کیا بنے گا؟ یہ ایک بار پھر وہی یورپ ہوگا جس کی دوسری جنگ عظیم سے قبل کی پوری تاریخ باہمی جنگوں سے عبارت ہے۔ اٹلی، اسپین، جرمنی، فرانس، برطانیہ، نیدرلینڈ اور ہنگری یہ سب ماضی کی وہ سلطنتیں ہیں جو اس براعظم پر ڈنڈے کے زور پر راج کرتی رہی ہیں۔ چنانچہ ان کے ماضی کا یہ تاریخی تکبر انہیں آج بھی چین نہیں لینے دیتا۔ یہ صرف امریکا ہے جس کی چھتری تلے یہ ایک دوسرے سے لڑے بغیر چلے ہیں۔ یہ چھتری ہٹتے ہی یہ سب ایک بار پھر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑیں گے۔ یہ ایک دوسرے سے کتنی شدید نفرت کرتے ہیں، یہ سمجھنے کے لیے ان کا ڈومیسٹک میڈیا دیکھ لینا کافی ہے۔ بالخصوص ان کے ایک دوسرے سے متعلق لطائف ہی سرچ کر لیجیے جو توہین، تذلیل اور تحقیر کی بدترین مثال ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ڈونلڈ ٹرمپ وی نیوز یورپ یوکرین تحفظ فراہم یوکرین کو امریکا نے ایک دوسرے کے لیے کے بعد
پڑھیں:
معدنی وسائل کی کان کنی سے قدیم مقامی افراد کے حقوق پامال ہو رہے ہیں، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ نے قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والی معدنیات کے حصول کی دوڑ کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قدیمی مقامی لوگوں کی زندگی اور رہن سہن پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایمیزون کی خواتین جنگجوؤں کی 3 نسلیں روس کے ایک قدیم مقبرے سے برآمد
قدیمی مقامی لوگوں کے مسائل پر اقوام متحدہ کے فورم سے خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتیرش کا کہنا ہے کہ ایسے بیشتر معدنی وسائل ایسی جگہوں پر ملتے ہیں جہاں ان لوگوں کا بسیرا ہوتا ہے۔ یہ وسائل حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی کان کنی کے نتیجے میں ان لوگوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں۔
سیکریٹری جنرل نے قدیمی مقامی لوگوں کے حقوق سے متعلق اعلامیے پر مکمل عملدرآمد کے ذریعے اس صورتحال کا ازالہ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ اعلامیہ دنیا بھر میں ان لوگوں کی بقا، وقار اور بہبود کو تحفظ دینے کا خاکہ ہے۔
انتونیو گوتیرش نے اقوام متحدہ میں قدیمی مقامی لوگوں کی شمولیت کو بڑھانے اور اسے مزید بامعنی بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کی زندگی پر اثرانداز ہونے والے اہم فیصلوں میں خود انہیں بھی اعلیٰ سطحی نمائندگی دینا ہو گی اور ان کے مسائل پر قائم کردہ ٹرسٹ فنڈ کو مضبوط بنانا ہو گا۔ انہوں نے حکومتوں اور اداروں پر بھی زور دیا کہ وہ ان لوگوں کی قیادت، حقوق اور ضروریات پر توجہ دیں اور انہیں فیصلہ سازی کے ہر فورم میں جگہ دی جائے۔
مزید پڑھیے: 3 ہزار سال قبل یورپی باشندوں کی رنگت کیسی ہوتی تھی؟
اس موقعے پر فورم کی نومنتخب سربراہ الوکی کوٹیرک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قدیمی مقامی لوگوں کے حقوق سے متعلق کی جانے والی باتوں کو عملی اقدامات میں تبدیل کرنا ہو گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ قدیمی مقامی لوگوں سے متعلق اعلامیے کو قوانین اور پالیسیوں کا حصہ ہونا چاہیے اور ترقی، ماحولیاتی تحفظ اور قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کو اس اعلامیے پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: ’ساتھی ہاتھ بڑھانا‘: چیلسی کے رہائشیوں کا ہزاروں کتابیں شفٹ کرنے کا انوکھا طریقہ
الوکی کوٹیرک نے قدیمی مقامی خواتین کو لاحق منفرد مسائل کا تذکرہ بھی کیا جنہیں نسلی تفریق، استعماریت اور پسماندگی کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حیاتیاتی تنوع کی محافظ، ثقافتی رہنماؤں اور تبدیلی لانے والی خواتین کی حیثیت سے ان کے کردار کا اعتراف ہونا اور انہیں درکار ضروری وسائل اور احترام دینا ضروری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ قدیم افراد قدیم مقامی افراد کان کنی