اقوام عالم غزہ میں جنگ کی تباہ کاریاں دیکھ رہی ہے اور جنگ بند کرانے کے لیے کہیں سنجیدہ کارروائی نظر نہیں آ رہی حالانکہ 20روز پہلے کی ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ بندی کے لیے درکار شرائط مان لی ہیں جب کہ حماس نے بھی کہا تھا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ ’’حتمی‘‘ جنگ بندی تجویزکا جائزہ لے رہی ہے۔
برطانوی اخبار دی ٹائمز نے بھی بتایا تھا کہ قطری ثالثوں نے دوحہ میں موجود حماس کی اعلیٰ قیادت سے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے لیے اپنے ذاتی ہتھیار حوالے کردیں۔لیکن یہ سب کچھ عملی صورت اختیار نہ کر سکا۔اب غزہ کی زمینی صورتِ حال بدستور خون ریزی میں ڈوبی رہی۔اسرائیل غزہ میںمسلسل وحشیانہ بمباری جاری رکھے ہوئے ہے ‘اسرائیل ٹارگٹڈ کارروائیاں کر کے غزہ میں فلسطینیوں کے گھر تباہ کر رہا ہے ‘غزہ کا زیادہ تر حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ‘صورت حال اس حد تک خراب ہو گئی ہے کہ غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے لیے غذائی قلت سنگین ہونے لگی ہے۔
کئی گھرانے فاقے سے دوچار ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اگلے روز بھوک سے مزید 10فلسطینی جان کی بازی ہار گئے۔اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ اب تک غذائی قلت سے اموات کی تعداد سو سے زیادہ ہو گئی جن میں80 بچے شامل ہیں۔7 اکتوبر 2023 سے اب تک6ہزار کے قریب فلسطینی شہری جان کی بازی ہار چکے ہیں۔میڈیا کے مطابق بدھ کی صبح سے غزہ کی پٹی پر مسلسل اسرائیلی فضائی حملے جاری ہیں‘ان حملوں سے 17فلسطینی شہری مارے گئے ہیں جب کہ مرنے والوں میں چار بچوں اور ایک شیر خوار بچہ بھی شامل ہے۔شہداء میں ایک ہی خاندان کے 7 افراد بھی شامل ہیں۔
غزہ کی یہ صورت حال ہے۔ غزہ کو ایک منظم منصوبے کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جب تک غزہ سے تمام فلسطینی انخلا پر تیار نہیں ہوں گے‘اسرائیل کی فوجی کارروائی جاری رہے گی جب کہ امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ بھی اس سلسلے میں مصلحت کوشی اختیار کرتے ہوئے چپ رہے گی کیونکہ صدر ٹرمپ بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ غزہ کوفلسطینیوں سے مکمل طور پر خالی کرانے کے حق میں ہیں اور اگر فلسطینی اس پر تیار ہو جائیں تو انھیں کسی متبادل جگہ پرآباد کرایا جا سکتا ہے اور اس کے لیے تمام فلسطینیوں کو پورا انفراسٹرکچر بھی تعمیر کر کے دیا جائے گا اور انھیں گھر بھی بنا کر دیے جائیں گے لیکن فلسطینی کسی بھی صورت میں غزہ خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ادھر 115 عالمی امدادی اداروں نے ایک دستخط شدہ انتباہی بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں امداد کے مکمل محاصرے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بھوک پھیل رہی ہے۔غزہ میں موجود گوداموں میں کئی ٹن خوراک، پانی اور ادویات موجود ہیں لیکن امدادی اداروں کی ان تک رسائی کو روکا گیا ہے۔مکمل سیز فائر ،امداد کے لیے تمام زمینی راستوں کو فوری کھولا جائے۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے کہا ہے کہ غزہ میں امداد کے منتظر شہریوں کا قتل ناقابلِ جواز ہے۔فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے مسلم ممالک اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ غزہ میں بھوک اور تباہی روکنے کی کوشش کریں۔
ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی صدر قتل عام روکنے، بنا رکاوٹ امداد پہنچانے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالیں۔ اسلامی تعاون تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی برادری غزہ میں فوری جنگ بندی کرائے۔اسلامی ممالک اسرائیلی مظالم کو عالمی سطح پر بے نقاب کریں۔ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے خبردار کیا ہے کہ روٹی کے ایک ٹکڑے یا گھونٹ پانی کے لیے فلسطینیوں کا مرنا ناقابلِ قبول ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ وہاں قحط ہر دروازے پر دستک دے رہا ہے اور بدترین غذائی قلت کے سبب لوگ مر رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایران کی ایوین جیل پر اسرائیلی حملے کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے فوری بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔
اقوام عالم کی لیڈر شپ اور اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام مسلسل غزہ کے لیے ہمدردانہ بیانات دے رہے ہیں ‘لیکن یہ بیانات محض بیانات ہی ہیں کیونکہ اسرائیل پر ان بیانات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔اس قسم کے ہمدردانہ بیانات تو امریکا کے صدر بھی دیتے رہتے ہیں لیکن اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ عملی کام کیا جائے لیکن عملی کام کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔
روس اور چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ہیں اور ان کے پاس ویٹو پاور بھی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان دو ممالک نے بھی اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر محض سفارتی حد تک ہی فلسطینیوں کی حمایت کی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر کچھ نہیں کیاگیا ۔
پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول، خاص طور پر تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز، بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول پاکستان کی صدارت میں منعقدہ تقریبات کے لیے کلید رہیں گے۔
سلامتی کونسل میں پاکستان کی اس ماہ کی صدارت کے حوالے سے استقبالیہ تقریب میں اسحاق ڈار نے کہا عالمی امن و سلامتی صرف کثیرالجہتی، تنازعات کے پرامن حل، جامع مکالمے اور بین الاقوامی قانون کے احترام سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ سلامتی کونسل کو صرف ردعمل کا ایوان نہیں بلکہ روک تھام، مسائل کے حل اور اصولی قیادت کا فورم ہونا چاہیے۔
سلامتی کونسل میں مشرق وسطیٰ اور مسئلہ فلسطین پر اپنی زیرصدارت مباحثے میں اسحاق ڈار نے کہا مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل ناگزیر ہے۔ غزہ میں انسانیت کا قتل عام ہو رہا ہے، ہر طرف بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، سلامتی کونسل مسئلہ فلسطین کے حل میں اپنا کردار ادا کرے، پاکستان مسئلہ فلسطین کے لیے اصولی موقف، یکجہتی کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔ غزہ میں انسانی امداد کی بلاتعطل فراہمی کو فوری ممکن بنایا جائے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اپنے چارٹر کے اعتبار سے بہت مضبوط ادارہ ہے۔ اس ادارے نے دنیا میں کئی اہم ممالک کے بارے میں متفقہ فیصلے کیے ہیں ‘کئی ملکوں کو آزادی بھی ملی ہے جس میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل دونوں میں اہم کردار ادا کیے ہیں۔ان میں انڈونیشیا سے آزاد ہونے والے ملک مشرقی تیمور کی مثال سب کے سامنے ہے۔ مشرقی تیمور کو آزادی ملی ہے ۔اسی طرح جنوبی سوڈان کو بھی ایک آزاد ملک کا درجہ ملا ہے لیکن فلسطینیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کا کردار زیادہ اہم نہیں رہا ہے۔
اس حوالے سے امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک نے اقوام متحدہ کے ہر فورم میں اسرائیل کی حمایت میں ووٹ کاسٹ کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے معاملات میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کوئی کردار ادا نہیں کر سکا۔ تنازع کشمیر بھی ایسے ہی تنازعوں میں شامل ہے۔کشمیر کے حوالے سے بھی امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک کی حکومتوں کا طرز عمل یکطرفہ چلا آ رہا ہے اور سب نے بھارت کی حمایت کی ہے۔
اقوام متحدہ اور طاقتور اقوام کی دہری اور امتیازی پالیسیوں کے باعث فلسطین میں مسلسل خونریزی جاری ہے حالانکہ اگر امریکا اور مغربی یورپ چاہیں تو فلسطین کا تنازع حل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اسرائیل میں اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر فلسطینیوں کو دبا کر رکھے یا وہ اکیلا عرب ملکوں پر بھاری ہو سکے۔
اسرائیل دراصل امریکا کا ہی دوسرا نام ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ غزہ کا تنازعہ حل کرائیں گے۔ لیکن وہ صدر بننے کے بعد تاحال اس تنازعے کو حل نہیں کرا سکے۔ امریکا صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے، وہ مشرق وسطی میں مستقل قیام امن کے لیے ایک بیلنس پالیسی اختیار کرے تاکہ جس کا جو حق ہے وہ مل سکے۔
اسرائیل کے مفادات کا تحفظ اصولی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی یہ پالیسی امریکا کے طویل المیعاد مفادات کے حق میں ہے۔ فلسطینیوں کی بقا کو بھی مساوی اہمیت دینا ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کرائی جائے اور اس تنازعہ کا مستقل حل نکالا جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل مسئلہ فلسطین ہے کہ غزہ میں کہا ہے کہ حوالے سے نہیں ہے ہے اور کے لیے تھا کہ رہا ہے کیا ہے
پڑھیں:
امریکہ و اسرائیل امن کیبجائے فلسطین کی نابودی کے درپے ہیں، سید عبدالمالک الحوثی
اپنے ہفتہ وار خطاب میں انصار الله کے سربراہ کا کہنا تھا کہ خود کو فوجی کہنے والے صہیونی رژیم کے غنڈے فخر سے ایسی ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں جن میں بچوں کا قتل عام دکھایا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ یمن کی مقاومتی تحریک "انصار الله" کے سربراہ "سید عبدالمالک بدرالدین الحوثی" نے غزہ کے تازہ ترین واقعات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہفتہ غزہ کی عوام کے لیے سب سے مشکل اور المناک رہا۔ غزہ کے بچوں کی حالت اور ان کے مسائل کی داستان دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ یہ تصاویر انسانی معاشرے خاص طور پر مسلمانوں کے لیے بدنماء داغ ہیں۔ غزہ کے بچے انتہائی مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیلی دشمن نے اپنے ظالمانہ اقدامات کے لیے انہیں اہم ہدف بنا لیا ہے۔ انصار الله کے سربراہ نے غزہ میں بچوں کے لیے خشک دودھ کی ترسیل روکنے کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسرائیل کا مقصد صرف نسل کشی ہے۔ اسی لیے وہ ان اشیاء کی درآمد پر پابندی لگا رہا ہے۔ خود کو فوجی کہنے والے صہیونی رژیم کے غنڈے فخر سے ایسی ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں جن میں بچوں کا قتل عام دکھایا گیا۔ وہ محض تفریح کے لیے غزہ کے معصوم بچوں کو مار رہے ہیں۔ انہوں نے مغربی ممالک کے دوغلی رویوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "عورت کے حقوق" ایک ایسا عنوان ہے جسے مغرب نے دھوکہ دینے اور منفی پروپیگنڈہ کرنے کے لیے استعمال کیا تاکہ ہماری معاشرتی اقدار کو نشانہ بنایا جا سکے اور ہماری اجتماعی وحدت کو پارہ پارہ کیا جا سکے۔
سید الحوثی نے کہا کہ اس وقت اسرائیل، غزہ میں فلسطینی خواتین پر ہر قسم کا ظلم روا رکھے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں انتہائی المناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ اسرائیل، فلسطینی خواتین کو امریکی بموں سے شہید کر رہا ہے۔ دوسری جانب اس ہفتے غزہ کے بیشتر لوگوں نے کھانا نہیں کھایا۔ وہ گزشتہ پانچ دن سے بھوکے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے قائم کردہ انسانی امداد کے مراکز کو موت کا جال قرار دیا۔ اس سلسلے میں سید عبدالمالک الحوثی نے کہا کہ ان امدادی مراکز پر صیہونی فوجیوں نے گولیاں چلا کر ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں قحط، انسانی معاشرے، مسلمانوں اور عربوں کے لیے ایک شرمناک ہے۔ اس وقت 71 ہزار فلسطینی بچے غذائی قلت کی وجہ سے موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ تقریباً 17 ہزار ماؤں کو غذائی کمی کے بعد فوری طبی امداد کی ضرورت ہے تاکہ انہیں بچایا جا سکے۔ انصار الله کے سربراہ نے کہا کہ طبی اور انسانی حالات بگڑنے کی وجہ سے غزہ میں بچوں اور شیر خوار بچوں کی اموات میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں 9 لاکھ بچے بھوک کا شکار ہیں اور ان میں سے 70 ہزار شدید غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔
یمن میں انقلاب کے روحانی پیشواء نے کہا کہ OIC نے غزہ کے لوگوں کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔ سید الحوثی نے سوال اٹھایا کہ عرب تنظیمیں کہاں ہیں؟ اور وہ فلسطینیوں کے خلاف بھوک، نسل کشی اور جبری بے دخلی کے مجرمانہ اقدامات کے خلاف کیا کر رہی ہیں؟۔ اس وقت اسرائیل، مہاجرین پر حملوں سے باز نہیں آرہا، حالانکہ اس نے انہیں دوسرے علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل فی الحال غزہ کے رہائشیوں کو پیاس کی شدت میں مبتلا کر کے ان علاقوں کی طرف جانے پر مجبور کر رہا ہے جہاں شاید انہیں تھوڑا سا پانی مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے لوگ دیکھ رہے ہیں کہ عرب اور مسلم ممالک نے انہیں تنہا چھوڑ دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عرب کہاں ہیں؟۔ مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے؟۔ ہم کیوں خاموش ہیں؟۔ ہم غزہ میں یہ المناک واقعات کیوں دیکھ رہے ہیں؟۔ آپ کا انسانی، اسلامی اور اخلاقی فرض کہاں گیا؟۔ سب جان لیں کہ اسرائیل تمام مسلمانوں کا دشمن ہے۔ سید عبدالمالک الحوثی نے کہا کہ عرب ممالک کی بے حسی اور خاموشی ان کے اجتماعی ضمیر کی موت کی نشاندہی کرتی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ غزہ کے معاملے میں کوتاہی کے نتائج سب کو بھگتنے پڑیں گے۔
دو ارب مسلمانوں کی امت میں سے سوائے چند ایک کے، غزہ کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔ امریکہ نے اسرائیل کو غزہ میں ہر قسم کے جرائم کے ارتکاب کی مکمل آزادی دے رکھی ہے۔ انصار الله کے سربراہ نے کہا کہ صیہونیت ایک عالمی سوچ اور نظریہ ہے۔ یہ نظریہ دو بازوؤں پر مشتمل ہے جن کے نام امریکہ اور اسرائیل ہیں۔ عالمی صیہونیت کا مقصد دوسرے لوگوں کو غلام بنانا ہے۔ صیہونیت، مغربی استعماری قوتوں کے جرائم کی میراث ہے۔ صیہونیت کے قیام کا مقصد دیگر قوموں کے وسائل کو لوٹنا، انہیں غلام بنانا، ان کی شناخت ختم کرنا اور ان کی آزادی و خودمختاری کو چھیننا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطین پر حملے کے آغاز سے ہی عرب ممالک کی یکجہتی بہت کمزور رہی اور انہوں نے اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ سید الحوثی نے کہا کہ صیہونی رژیم کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا، محض ایک غاصب اور مجرم ریاست کے ساتھ تعلقات بحال کرنا نہیں، بلکہ یہ مسلمانوں کے دشمن کے ساتھ تعاون کے مترادف ہے۔ اسرائیل مسلمانوں کے لیے ذرہ بھر احترام کا قائل نہیں بلکہ نفرت اور ظلم کے ساتھ ان پر تشدد کرتا ہے۔ تاہم دشمن اس بات کو جانتا ہے کہ وہ غزہ میں جتنے بھی جرائم کا ارتکاب کرے، مسلمان اور خاص طور پر عرب ممالک کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔
انصار الله کے سربراہ نے امریکہ اور صہیونی رژیم کی حزب الله کو غیرمسلح کرنے کی کوششوں کا حوالہ دیا۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ حزب الله کو غیرمسلح کرنے کی کوشش صرف دشمنوں کے فائدے میں ہے۔ امت اسلامیہ کو اس وقت سب سے زیادہ اسلحے کی ضرورت ہے۔ دشمن صرف اس لئے حزب الله کو غیرمسلح کرنا چاہتا ہے تاکہ لبنان پر قبضہ کر سکے۔ سید الحوثی نے واضح طور پر کہا کہ کیا فلسطینی مجاہدین کی جانب سے اپنا اسلحہ جمع کروانے کے بعد لبنان میں صبرا اور شاتیلا کا قتل عام نہیں ہوا؟۔ فلسطین میں کب بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا؟۔ اس وقت جب فلسطینی قوم کے پاس مناسب مقدار میں اسلحہ نہیں تھا۔ جب ابتدائی مراحل میں وہ خاطر خواہ فوجی کارروائی کرنے سے قاصر تھے اور نہ ہی عرب و اسلامی ممالک نے ان کی حمایت کی۔