یوکرین،نیٹواورامریکہ:بدلتی حکمت عملی
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
روس کی جوہری پالیسی اس کی عسکری حکمت عملی کاایک بنیادی عنصرہے۔روسی سربراہ پیوٹن نے نے حالیہ برسوں میں اس میں جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال سے متعلق اپنی جوہری ڈاکٹرائن میں خطے میں نئی تبدیلیوں کے مدنظر 2020ء میں اپنے جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں اہم ترامیم کرتے ہوئے تین نئی شرائط شامل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ اگر
٭روس پرکیمیکل/بائیو ہتھیاروں سے حملہ ہویااس کے جوہری کنٹرول سسٹم کونشانہ بنایاجائے تو۔
٭روایتی جنگ کاجوہری جواب،اس کی کمانڈاینڈکنٹرول سسٹم کونشانہ بنایاجائے۔
٭اگرروس کی بقاکوروایتی ہتھیاروں سے خطرہ لاحق ہو(جیسے یوکرین میں فوجی شکست)۔
تو وہ جوہری ہتھیاروں کااستعمال کرسکتا ہے۔ان تبدیلیوں نے امریکااوراس کے اتحادیوں کیلئے خدشات پیدا کر دیئے ہیں، کیونکہ یہ مغربی دفاعی حکمت عملی کو چیلنج کرتی ہیں اورنیٹو کو سخت ردعمل پرمجبورکرسکتی ہیں۔امریکاکاخیال ہے کہ یہ ترمیم روس کو یوکرین جیسے تنازعات میں جوہری دھمکی دینے کاموقع دے سکتی ہے۔
روس کے اس اعلان کے فوری بعد نیویارک ٹائمزنے ردعمل کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم روس کی’’جارحیت پسندی،غیر مستحکم‘‘ حکمت عملی کوظاہرکرتی ہے،جس سے جوہری جنگ کاخطرہ بڑھتاہے اوربعد ازاں امریکا نے اسے ’’دھمکی‘‘قراردیتے ہوئے نیٹوکی جوہری طاقت کومضبوط کرنے پرزوردیالیکن ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں اپنے ووٹرزسے یہ وعدہ کیاتھاکہ امریکانہ توکوئی نئی جنگ شروع کرے گااورنہ ہی جاری جنگوں میں مزیدشریک رہے گا۔لیکن اقتدارسنبھالتے ہی ٹرمپ اوران کے معاونین ان تمام انتخابی معاہدوں کوفراموش کرتے نظرآرہے ہیں۔
یوکرین پرروسی حملے کوتین برس ہوچکے ہیں۔اس دوران ڈونلڈٹرمپ نے کئی بارایسی باتیں کہیں جوبعدمیں غلط ثابت ہوئیں۔ دوسری طرف،ولادیمیرپیوٹن نے اس جنگ کواپنے سیاسی اورعسکری مقاصدکیلئے استعمال کیا،جبکہ یوکرین کے صدرولادیمیر زیلنسکی نے عالمی حمایت حاصل کرنے اوراپنی فوج کومضبوط رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔یہ جنگ سیاسی چالوں،سفارتی جوڑ توڑ اورعسکری محاذ آرائی کا ایک منفرد امتزاج ہے۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیاکہ ’’یوکرین نیٹوکارکن نہیں بن سکتا‘‘حالانکہ نیٹوکاآرٹیکل10کسی بھی یورپی ملک کو رکنیت دینے کی اجازت دیتا ہے۔ ٹرمپ نے یو کرین کے زیلنسکی پرالزام لگایاکہ وہ یورپ اورامریکاکولوٹ رہاہے۔علاوہ ازیں ٹرمپ کے حامی یوکرین کو ’’نازی حکومت‘‘قرار دے رہے ہیں،جبکہ مغربی میڈیاپیوٹن کوجنگی مجرم قرار دے رہے ہیں اور ٹرمپ کے بیان کوپیوٹن کے حق میں پروپیگنڈاقراردیتے ہوئے ٹرمپ بیانئے پرابھی تک محتاط ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس سے اتفاق نہیں کررہے۔
ادھریورپی یونین میں بھی اختلافات اور عدم اعتمادکی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔جرمن چانسلر اولاف شولزنے ٹرمپ کو’’غیرمعتبر‘‘قرار دیتے ہوئے ایک نئی بحث کاآغازکردیاہے۔ جرمنی صنعتی مفادات،فرانس یورپی فوج کواپنی قیادت میں چاہتاہے۔فائنانشل ٹائمز کے مطابق، امریکا یورپ کی خودمختاری کو’’نیٹوکیلئے خطرہ‘‘ سمجھتا ہے،جبکہ فاکس نیوزکے مطابق ٹرمپ کی پالیسی نے چین کے خلاف یورپ کومتحدکیاہے۔
ادھرروسی میڈیاآرٹی کے مطابق یہ ترمیم صرف’’دفاعی‘‘ہے اورمغرب کوروس کی طاقت کااحترام کرناچاہیے۔پیوٹن کامقصد یوکرین کو ’’غیر جانبدار‘‘بنانااورنیٹوکی توسیع روکناہے اور وہ اسے روس کے دفاع کیلئے نیٹوکی توسیع کوخطرہ سمجھتے ہیں۔ ڈونباس پرکنٹرول،یوکرین کو غیر مسلح کرنا،اورنیٹوکی مشرقی یورپ میں موجودگی کم کرناپیوٹن کے اہم اہداف ہیں۔
لیکن یوکرینی میڈیازیلنسکی کو’’قومی ہیرو‘‘ کے طورپرپیش کرتاہے،یوکرین میں 80 فیصد عوام زیلنسکی کی پالیسیوں کے حمایتی ہیں جبکہ روسی میڈیااسے’’مغرب کاکٹھ پتلی کہتاہے۔ زیلنسکی یورپی یونین سے مشترکہ فوجی ڈھانچہ بنانے کی اپیل کررہے ہیں،جس میں وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ یورپ کواپنی فوجی طاقت بڑھانی چاہیے تاکہ روس کے خلاف خودکفیل ہو سکیں۔
زیلنسکی نے حالیہ بیانات میں یورپی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ روس کے خلاف ایک متحدہ یورپی فوج تشکیل دیں۔اس کی بنیادی وجہ نیٹوکی مبہم پالیسی اورامریکی عسکری امدادمیں تاخیر ہے۔ زیلنسکی کی خواہش ہے کہ یورپ اپنے دفاع کیلئے خودمختار حکمت عملی اختیارکرے،تاکہ روس کی جارحیت کاموثرجواب دیاجاسکے۔زیلنسکی کا کہنا ہے کہ روس کے خلاف یورپ کوامریکا پر انحصار کم کرناہوگا۔یوکرین کویورپی یونین کے ساتھ 10سالہ طویل المدتی فوجی معاہدوں کی ضرورت ہے۔
لیکن مغربی میڈیاکے مطابق یہ خیال ابھی ’’خیالی‘‘ ہے،کیونکہ یورپی ممالک فوجی بجٹ اور خودمختاری پرمتفق نہیں۔یورپی ممالک (جرمنی، فرانس) یوکرین کومالی اورہلکی اسلحہ امداد دے رہے ہیں،لیکن بھاری اسلحہ(جیسے ٹینک، طیارے) کیلئے امریکا پرانحصار کرتے ہیں۔یورپ کی فوجی صنعت امریکاجتنی ترقی یافتہ نہیں،نیزنیٹوکاڈھانچہ امریکا کے بغیرنامکمل ہے۔جرمنی کے پاس صرف 200لڑاکا ٹینک ہیں،جبکہ امریکاکے پاس2,500 ہیں۔ فرانس کادعویٰ ہے کہ ہماری فوجی صنعت صرف اپنی ضروریات پوری کر سکتی ہے۔ پولینڈ کے وزیراعظم نے کہاکہ اب وقت آگیاہے کہ ’’یورپ کواپنی فوجی پیداواربڑھانی ہوگی جبکہ یوکرین کوہتھیار فروخت کرکے امریکااپنی فوجی صنعت کوبھی تقویت دے رہاہے۔ امریکا اب تک یوکرین کو75ارب ڈالرکی امداددے چکاہے لیکن یورپ میں بھی اب’’تھکاوٹ‘‘کے آثار نظر آ رہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی میں روس کیلئے نرمی دکھانے کے متعددواقعات سامنے آئے۔ بعض تجزیہ کاراسے امریکی خارجہ پالیسی کی غلطی قراردیتے ہیں،جبکہ کچھ کے نزدیک یہ ایک سیاسی چال تھی تاکہ امریکاکوغیر ضروری جنگوں سے بچایاجا سکے۔تاہم،اس حکمت عملی نے نیٹو اتحادیوں میں بے چینی پیداکی اورروس کوزیادہ جارحانہ اقدامات پرآمادہ کیا۔
جبکہ دوسری طرف ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ’’امریکافرسٹ‘‘پالیسی کاحصہ تھا تاکہ روس سے تعلقات بہترہوں لیکن مخالفین (جیسے ڈیموکریٹس)کاکہناہے کہ ٹرمپ نے اپنے سابقہ دورِحکومت(2017-2020)میں روس پر سخت پابندیاں نہیں لگائیں، ڈیموکریٹس کایہ بھی کہناہے کہ ٹرمپ نے پیوٹن کویوکرین پرحملے کی چھوٹ دی جس کی بناپرپیوٹن ایک طاقتوررہنمابن کر سامنے آگیاہے۔ٹرمپ کے موجودہ پالیسی بیانات سے ایک مرتبہ پھریورپی اتحادیوں میں عدم اعتمادمیں اضافہ کاموجب قراردیتے ہوئے اسے ’’پیوٹن کورعایت اورفائدہ ‘‘قراردیاہے۔سیاسی ناقدین ٹرمپ کے بیانات کوپیوٹن کی خوشنودی کیلئے پروپیگنڈا قراردیتے ہوئے اسے ٹرمپ انتظامیہ کی غلطی اوربعض اسے چال قرار دے رہے ہیں۔
مشرقِ وسطی بالخصوص سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کی ثالثی سے2023میں سفارتی تعلقات کی بحالی کومغربی میڈیا نے ’’سعودی عرب کامشرق کی طرف جھکاؤ‘‘ کو ایک سفارتی دھماکہ قراردیتے ہوئے اسے امریکاکیلئے باعثِ تشویش قراردیا ہے۔ایک اوررائے یہ بھی ہے کہ بالآخرسعوی عرب نے امریکی اثرکوکم کرنے کیلئے چین اورایران سے تعلقات بہترکئے ہیں اور عرب میڈیا(الجزیرہ)اس خطے کے استحکام کی بروقت کامیاب کوشش قراردے رہاہے اور چینی میڈیانے اسے’’امن کی فتح‘‘قراردیا ہے۔اس کے علاوہ سعودی عرب نے مستقبل کے اقتصادی تنوع کیلئے آئل پرانحصارکم کرنے کیلئے چین کے ساتھ کئی بڑے تجارتی معاہدے بھی کئے ہیں اور چین اب اپنی ملک کی ضرورت کا28 فیصدتیل سعودی عرب سے خریدرہاہے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: قراردیتے ہوئے دے رہے ہیں یوکرین کو کرتے ہوئے حکمت عملی کے مطابق ہیں جبکہ ٹرمپ کے ہیں اور ہوئے اس کہ روس روس کی روس کے
پڑھیں:
یوکرین کا زیلنسکی-پیوٹن براہِ راست مذاکرات کا مطالبہ، روس کی مختصر جنگ بندی کی تجویز
یوکرین کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ اس کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان آئندہ چند ہفتوں میں براہِ راست مذاکرات کیے جائیں۔
دوسری جانب روس نے استنبول میں ہونے والے تازہ مذاکرات میں کسی بڑی پیشرفت کی امیدوں کو کمزور کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پیٹریاٹ میزائل کیا ہیں، اور یوکرین کو ان کی اتنی اشد ضرورت کیوں ہے؟
روسی میڈیا کے مطابق روسی مذاکرات کار نے کہا کہ ماسکو نے قیدیوں کے تبادلے کے ایک اور مرحلے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے اور جنگی محاذوں پر ہلاک و زخمی فوجیوں کی بازیابی کے لیے مختصر جنگ بندی کی تجویز پیش کی ہے۔
میزبان ملک ترکی نے پائیدار جنگ بندی اور امن معاہدے کی طرف پیشرفت پر زور دیا، تاہم کریملن نے 3 سال سے زائد عرصے پر محیط جنگ کے بعد کسی فوری بریک تھرو کی توقعات کو کم قرار دیا۔
یوکرین کے مرکزی مذاکرات کار رستم عمراؤف نے مذاکرات کے بعد صحافیوں کو بتایا ’ہماری اولین ترجیح دونوں صدور کی ملاقات کا انعقاد ہے‘۔
ان کے مطابق یوکرین نے تجویز دی ہے کہ یہ ملاقات اگست کے اختتام تک ہو، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر رجب طیب اردوان بھی شریک ہوں۔
روسی مذاکرات کار ولادیمیر میدینسکی نے بتایا کہ دونوں فریقوں کے درمیان طویل گفت و شنید ہوئی، مگر انہوں نے اعتراف کیا کہ فریقین کے مؤقف ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں۔ ہم نے رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:یوکرین جنگ پر معاہدہ نہ ہوا تو روس پر سخت ٹیرف نافذ کریں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
ان کے مطابق دونوں ممالک نے 12 سع قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا، اور روس نے یوکرین کو 3 ہزار ہلاک شدہ فوجیوں کی لاشیں واپس دینے کی پیش کش کی۔
انہوں نے مزید کہا ہم نے ایک بار پھر یوکرینی فریق کو تجویز دی ہے کہ رابطہ لائن پر 24 سے 48 گھنٹوں کی مختصر جنگ بندی کی جائے تاکہ طبی ٹیمیں زخمیوں کو اٹھا سکیں اور کمانڈر اپنے فوجیوں کی لاشیں لے جا سکیں۔
گزشتہ ماہ صدر پیوٹن نے کہا تھا کہ روس اور یوکرین کے امن مطالبات ’بالکل متضاد‘ ہیں، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات کا مقصد ان اختلافات کو کم کرنا ہے۔
گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نے روس کو 50 دن کی مہلت دی تھی کہ وہ جنگ ختم کرے، ورنہ اسے پابندیوں کا سامنا ہو گا، لیکن کریملن نے کسی مصالحت کی نیت ظاہر نہیں کی۔
یہ بھی پڑھیں:یوکرین کا اپنی خفیہ ایجنسی کے افسر کو قتل کرنے والے روسی ایجنٹس کو ہلاک کرنے کا دعویٰ
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے قبل ازیں کہا تھا کہ کسی بڑی پیشرفت کی توقع رکھنا ’غلط فہمی‘ ہو گی، کیونکہ مذاکرات میں کئی پیچیدہ عوامل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
پیسکوف نے مزید کہا کہ کوئی بھی آسان مذاکرات کی توقع نہیں کر رہا۔ یہ فطری طور پر ایک نہایت مشکل گفتگو ہو گی، کیونکہ دونوں فریقوں کی تجاویز ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں۔
دوسری جانب صدر زیلنسکی نے ایک بار پھر پیوٹن سے براہِ راست ملاقات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے، لیکن کریملن کا کہنا ہے کہ زیلنسکی کی جانب سے 2022 میں جاری کردہ ایک صدارتی فرمان کے تحت ان کا پیوٹن سے براہِ راست مذاکرات کرنا قانونی طور پر ممنوع ہے۔
یہ بھی پڑھیں:یوکرینی میزائل حملے میں روس کی ایلیٹ میرین یونٹ کا کمانڈر ہلاک
یاد رہے کہ روس اور یوکرین اس سال 2 مرتبہ براہِ راست امن مذاکرات کر چکے ہیں، پہلی بار 16 مئی اور دوسری بار 2 جون کو۔
اگرچہ ان بات چیت کے نتیجے میں قیدیوں کے تبادلے کی پیش رفت ہوئی، لیکن وسیع جنگ بندی یا مکمل جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
استنبول امریکا پیوتن پیوٹن ترکیہ جنگ بندی زیلنسکی صدر ٹرمپ یوکرین