Express News:
2025-09-19@04:50:20 GMT

سیلاب کی روک تھام، حکمت عملی کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, July 2025 GMT

ملک کے مختلف علاقوں میں مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، جاں بحق افراد کی مجموعی تعداد 250 افراد سے زائد ہوچکی ہے۔ تاحال کئی مقامی سیاح لاپتہ ہیں، مری، گلیات،کشمیر اورگلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ اور ندی نالوں میں طغیانی کا خطرہ ہے۔ ساڑھے چار لاکھ کیوسک کا بڑا سیلابی ریلا تونسہ سے گزر رہا ہے، انتظامیہ نے آبادی کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کے اعلانات کروائے ہیں۔

 وطن عزیز ان دنوں ایک ایسی آزمائش سے گزر رہا ہے جو صرف فطری آفات کی نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی کی بھی غماز ہے۔ شدید بارشوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور اس کے نتیجے میں جو تباہی ہمارے دیہی و شہری علاقوں میں برپا ہوئی ہے، وہ کسی بھی ذی شعور دل کو دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع، مال و متاع کی بربادی، کھڑی فصلوں کی تباہی، مکانات کا گرنا اور مواصلاتی نظام کی درہم برہم صورتِ حالیہ سب کچھ ہمیں صرف قدرت کے قہر کا نہیں، بلکہ اپنی کوتاہیوں کا بھی آئینہ دکھاتا ہے۔

بارشوں کے تسلسل سے دریاؤں کا جوبن خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے۔ خاص طور پر دریائے سندھ، جو ماضی میں بارہا اپنی بے قابو موجوں سے سندھ کو اجاڑ چکا ہے، ایک بار پھر غضبناک صورت اختیار کرسکتا ہے، سیلاب محض پانی کی زیادتی نہیں، بلکہ یہ معیشت کی بربادی، غربت کی شدت، اور انسانی المیے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ کسان جو پہلے ہی مہنگائی، پانی کی قلت اور زرعی مداخل کی قیمتوں سے نڈھال ہیں، وہ اب کھیت کھلیان پانی میں ڈوبتے دیکھ رہے ہیں۔

شہروں میں چھتیں گر رہی ہیں، سڑکیں نالوں میں بدل گئی ہیں اور کاروبار زندگی مفلوج ہو چکا ہے۔ موسم کی یہ سختی محض فطرت کا فیصلہ نہیں، بلکہ اس میں انسان کے خود ساختہ اعمال کا بھی عمل دخل ہے۔ قدرتی نظام میں خلل ڈال کر ہم نے خود اپنے لیے مصیبتوں کا بازار گرم کیا ہے۔ اربنائزیشن کی دوڑ میں دریاؤں کے قدرتی راستے بند کردیے گئے، جنگلات کاٹ دیے گئے، پہاڑ کھود دیے گئے اور آبی ذخائر کو نظر انداز کیا گیا، نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔

دریاؤں کی سطح بلند ہوتی جا رہی ہے، خاص طور پر دریائے سندھ، جو پاکستان کی شہ رگ سمجھا جاتا ہے، اب غضبناک موجوں کی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ جب سندھ پر سیلاب کا قہر ٹوٹتا ہے تو اس کی تباہ کاری صرف مقامی نہیں رہتی، بلکہ اس کے اثرات پورے ملک کی معیشت، فوڈ سیکیورٹی اور سیاسی ماحول تک پھیل جاتے ہیں۔

یہ المیہ صرف سندھ کا نہیں، بلکہ پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان تک پھیلا ہوا ہے۔ جہاں بارشیں کہیں زمین کی زرخیزی بن کر برستی ہیں، وہیں جب ان کی شدت حد سے تجاوز کرتی ہے، تو زمین بھی انسان کی طرح بغاوت پر اُتر آتی ہے۔ مٹی کٹنے لگتی ہے، پہاڑ کھسکنے لگتے ہیں، درخت جڑوں سے اکھڑ جاتے ہیں اور بستیاں ملیامیٹ ہو جاتی ہیں۔

 ندی نالوں اور برساتی راستوں کی مستقل صفائی اور نگرانی کے نظام کو مضبوط بنایا جائے۔ شہروں کے اندر نکاسی آب کے نظام کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے، خاص طور پر کراچی، لاہور، ملتان، اور پشاور جیسے بڑے شہروں میں چند گھنٹوں کی بارش پورے شہر کو پانی میں ڈوبا ہوا دکھاتی ہے۔ یہ کوئی اتفاقیہ حادثہ نہیں، بلکہ ناقص منصوبہ بندی، کرپشن، اور غفلت کی داستان ہے، جس کا انجام عوام بھگت رہے ہیں۔

معاشی لحاظ سے بھی سیلاب ایک بھیانک خواب ہے۔ ایک طرف زرعی زمینیں پانی میں ڈوبتی ہیں، تو دوسری جانب کسان اپنے قرضوں میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ کھاد، بیج، مشینری اور زرعی ادویات کی پہلے ہی آسمان کو چھوتی قیمتیں، جب فصل کے تباہ ہو جانے کے بعد بھی معاف نہ کی جائیں، تو کسان کو اس ملک میں جینے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ ہمیں ایک ایسا زرعی و مالیاتی نظام تشکیل دینا ہوگا جو قدرتی آفات کے متاثرین کو فوری سہارا دے، تاکہ وہ دوبارہ زندگی کی دوڑ میں شامل ہو سکیں۔

 2010 اور 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلابوں نے سندھ کو جس معاشی، زرعی، اور سماجی تباہی سے دوچار کیا تھا، اس کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ 2022کے سیلاب میں صرف سندھ میں 800 سے زائد اموات ہوئیں اور 12.

3 ملین افراد متاثر ہوئے تھے۔ اُس وقت صوبے کے 23 میں سے 21 اضلاع آفت زدہ قرار دیے گئے تھے، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں، اور ہزاروں اسکول، اسپتال، سڑکیں اور پل مکمل یا جزوی طور پر برباد ہو چکے تھے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ان سانحات سے کچھ سیکھا؟ کیا 2022 کے بعد کوئی جامع منصوبہ بندی کی گئی؟ کیا برساتی نالوں کی صفائی مستقل بنیادوں پر ہوئی؟ کیا سندھ میں موجود قدرتی آبی گزرگاہوں پر تجاوزات ہٹائی گئیں؟ کیا جدید سیلاب پیشگی انتباہی نظام (Early Warning Systems) کو موثر بنایا گیا؟ سچ تو یہ ہے کہ ان تمام سوالوں کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہے۔

پہلا اور سب سے اہم قدم یہ ہونا چاہیے کہ سندھ کے تمام اضلاع میں ماحولیاتی نقشہ سازی (Environmental Zoning) کی جائے تاکہ یہ طے ہو سکے کہ کون سے علاقے سیلاب کے لیے حساس ہیں۔ ان علاقوں میں مستقل بنیادوں پر آبادی کو روکنا یا مخصوص تعمیراتی ضوابط نافذ کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

دوسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ نالوں، برساتی راستوں اور دریائی حفاظتی بندوں کی سالانہ صفائی اور مرمت کا عمل صرف کاغذی کارروائی نہ ہو بلکہ شفافیت سے مکمل کیا جائے۔ سندھ کے کئی اضلاع میں برساتی پانی کے لیے مخصوص راستے تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات سے بند ہو چکے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں ریور ری کلیمیشن (River Reclamation) پروجیکٹس کی فوری ضرورت ہے۔ تیسرا قدم ڈرینج ماسٹر پلان کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد ہے، خاص طور پر کراچی، حیدرآباد اور سکھر جیسے شہروں میں، جہاں شہری سیلاب (Urban Flooding) ایک مستقل خطرہ بن چکا ہے، اگر حکومت صرف ان تین شہروں کے نکاسی آب کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کر دے، تو آدھے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔

چوتھا اہم اقدام یہ ہے کہ سندھ میں چھوٹے ڈیمز اور رین واٹر ہارویسٹنگ سسٹمز کو فروغ دیا جائے۔ تھرپارکر، عمرکوٹ، جامشورو اور دادو جیسے اضلاع میں اگر بارش کا پانی محفوظ کر لیا جائے تو نہ صرف سیلاب کے خطرات میں کمی آئے گی، بلکہ پینے کے پانی اور زراعت کے لیے بھی انقلابی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ سندھ کے تعلیمی اداروں، مساجد، اور کمیونٹی سینٹرز کو سیلاب آگاہی مراکز کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عوام کو تربیت دی جائے کہ بارشوں کے دوران کن احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہے، کہاں پناہ لینا ہے، اور کس نمبر پر مدد کے لیے رابطہ کرنا ہے۔ یہ شعور وقتی نہیں بلکہ مسلسل مہم کے تحت اجاگر کیا جانا چاہیے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ حکومت اپنے ترقیاتی بجٹ میں سیلاب سے بچاؤ اور ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کو پہلی ترجیح دے۔ 2024-25 کے صوبائی بجٹ میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے مختص رقم کل بجٹ کا صرف 1.4 فیصد تھی، جو ایک مذاق سے کم نہیں۔ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں یہ تناسب 5 سے 7 فیصد تک بڑھانا ہوگا۔

بین الاقوامی سطح پر بھی سندھ کو مدد حاصل کرنے کے لیے اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اور کلائمیٹ رسک انشورنس اداروں کے ساتھ فوری اشتراک کی ضرورت ہے۔ 2022 میں UNDP اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی مدد سے سندھ میں کچھ منصوبے شروع کیے گئے تھے، مگر وہ ناکافی تھے اور ان کا دائرہ بہت محدود تھا۔ صرف حکومت نہیں، بلکہ عوام، میڈیا، تعلیمی ادارے، اور کاروباری برادری سب کو مل کر اس ماحولیاتی چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ وقت الزامات کا نہیں، اقدامات کا ہے۔ ہمیں اب ماضی کی غفلتوں کو دفن کر کے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی، ورنہ ہر سال بارشیں آئیں گی، اور ہم ان کے ساتھ بہتے چلے جائیں گے۔

سیلاب کی روک تھام کے لیے ہمیں ایک کثیرالجہتی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمیں پانی کے قدرتی بہاؤ کو بحال کرنے کے لیے ڈیمز اور واٹر ریگولیشن سسٹمز کی فوری تعمیر کرنا ہوگی۔ کالا باغ ڈیم جیسے متنازع منصوبوں پر صرف سیاست کرنے کے بجائے، ہمیں قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا۔ بڑے اور چھوٹے ڈیمز نہ صرف پانی ذخیرہ کرنے میں مدد دیں گے بلکہ وہ زمینوں کی سیرابی، بجلی کی پیداوار، اور سیلاب کے خطرات میں بھی نمایاں کمی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

اب وقت ہے کہ حکومت تمام سطحوں پر سیلاب سے بچاؤ کو اپنی اولین ترجیح بنائے۔ یہ کام محض ایک وزارت یا ادارے کے بس کی بات نہیں، بلکہ ایک قومی ایمرجنسی کی مانند تمام محکموں، شعبوں اور اسٹیک ہولڈرز کو یکجا ہو کر مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی سطح پر مربوط اور ہم آہنگ حکمت عملی ہی سیلاب جیسے عفریت کا مقابلہ کرسکتی ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: علاقوں میں ضرورت ہے کے لیے چکا ہے

پڑھیں:

اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب

اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب

سعودی وزیرِ دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کے رات گئے تحریر مختصر الفاظ پاک سعودی تعلقات کے دریا کو کوزے میں بند کردیتے ہیں، انہوں پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجی دفاعی معاہدہ سائن ہونے کے بعد اردو میں لکھا کہ ’سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں۔۔ہمیشہ اور ابد تک‘، یہی وہ جملہ ہے جس نے حالیہ اسٹریٹیجک مشترکہ دفاعی ایگریمنٹ کو محض ایک معاہدہ نہیں، بلکہ ایک تاریخی اور تہذیبی اشارہ بنا دیا ہے۔ یہ معاہدہ صرف دو ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون نہیں، بلکہ ایک مشترکہ مقدر کا اعلان ہے، ایسا عہد جو وقت کی آزمائشوں سے گزری ہوئی رفاقت پر کھڑا ہے۔

معاہدے میں یہ طے ہوا ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوگا تو اسے دونوں پر حملہ سمجھا جائے گا۔ گویا ایک کی سرحد پر خطرہ، دوسرے کے وجود پر بھی دستک سمجھی جائے گی۔

رائٹرز نے اس معاہدے کو دہائیوں پر محیط دفاعی تعلقات کا ادارہ جاتی تسلسل کہا ہے، اور زور دیا ہے کہ یہ محض کسی حالیہ واقعے کا ردِ عمل نہیں بلکہ طویل مشاورت اور سوچ سمجھ کا نتیجہ ہے۔ سعودی عرب کی یہ حکمتِ عملی بھی قابلِ غور ہے کہ وہ ایک طرف پاکستان کے ساتھ اسٹریٹیجک گہرائی قائم کر رہا ہے، تو دوسری طرف بھارت کے ساتھ اپنے مضبوط اقتصادی تعلقات کو بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔

واشنگٹن پوسٹ اور ایسوسی ایٹڈ پریس نے معاہدے کے مشترکہ اعلامیے کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی قسم کی جارحیت دونوں ملکوں پر حملے کے مترادف ہوگی، اور یہ اقدام دفاعی تعاون کو وسعت دینے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ فائنانشل ٹائمز نے اس پیشرفت کو اس زاویے سے دیکھا کہ خلیجی ممالک اب علاقائی سطح پر اپنی سیکیورٹی کا بندوبست خود کرنا چاہتے ہیں، تاکہ کسی ایک طاقت پر انحصار نہ رہے۔ سعودی عرب نے ایک سال سے زائد کی گفت وشنید کے بعد یہ خاکہ مکمل کیا اور اس دوران جوہری عدمِ پھیلاؤ کی اپنی پالیسی پر بھی زور دیا۔

بلومبرگ نے اس معاہدے کو دفاعی تعاون کی نئی سطح قرار دیا، جس میں حملہ صرف ایک ملک پر نہیں رہتا بلکہ پورے اتحاد پر حملہ بن جاتا ہے، اور اس کا جواب بھی مشترکہ ہوتا ہے۔ یہی بات پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں بھی دہرائی گئی، جہاں ریڈیو پاکستان نے اسے دو طرفہ دفاعی تعلقات کی تاریخ میں ایک سنگِ میل قرار دیا۔

روزنامہ ڈان نے اسے صفحہ اول پر نمایاں جگہ دی اور واضح کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ولی عہد محمد بن سلمان نے ایک ایسا فریم ورک طے کیا ہے جس میں ’ایک پر حملہ، دونوں پر حملہ‘ کا اصول قانونی حیثیت اختیار کرتا ہے۔ جیو نیوز کے تبصروں میں ماہرین نے اسے حیران کن نہیں بلکہ فطری ارتقا قرار دیا جو مشترکہ مشقوں اور عسکری ہم آہنگی کا حاصل ہے۔

سعودی میڈیا نے بھی اس معاہدے کو محض ایک خبر کے طور پر نہیں بلکہ ایک علامت کے طور پر پیش کیا۔ العربیہ انگلش اور سعودی پریس ایجنسی نے اس موقع کی کوریج کرتے ہوئے ریاض کے ٹاورز پر سبز وسفید روشنیوں کی جھلک دکھائی، اور سرکاری اعلامیے میں نمایاں انداز میں لکھا کہ دورے کے اختتام پر اسٹریٹیجک دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس سب کے پیچھے ایک سنجیدہ پیغام تھا کہ سعودیہ اور پاکستان اب اپنی سلامتی کی کہانی ایک مشترکہ صفحے پر لکھنے جا رہے ہیں۔

اس سب کو اگر تاریخی سیاق میں رکھ کر دیکھا جائے تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ 2015 میں جب اسلامی فوجی اتحاد قائم ہوا تو اس کا صدر دفتر ریاض میں رکھا گیا اور اس کے پہلے کمانڈر پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بنے۔ یہ عسکری رشتہ محض رسمی نہیں، عملی اور ادارہ جاتی ہے، جس کی ایک جھلک سالہا سال کی مشترکہ مشقوں مثلاً الصمصام میں دیکھی جا سکتی ہے۔

جب معاہدے کے ساتھ معاشی پہلو کو جوڑ کر دیکھا جائے تو تصویر اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ 2019 میں شہزادہ محمد بن سلمان کے دورۂ پاکستان کے دوران 20 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری معاہدے طے پائے۔ ان میں توانائی، پیٹرو کیمیکل، معدنیات اور خوراک جیسے اہم شعبے شامل تھے۔ اس کے بعد بھی سعودی سرمایہ کاری پاکستان میں جاری رہی، 2024 میں 2 ارب ڈالر کے مزید ایم او یوز پر دستخط ہوئے، اور 3 ارب ڈالر کا ڈپازٹ مسلسل پاکستان کی مالی بنیاد کو سہارا دیتا رہا۔ ان سب اقتصادی اقدامات کو دفاعی اشتراک سے الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں رہا۔

پاکستانی ترسیلات زر میں بھی سعودی عرب کی حیثیت ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔ صرف مارچ اور جون 2025 کے اعداد وشمار دیکھے جائیں تو سعودی عرب سے بھیجی گئی رقوم تمام ممالک سے زیادہ تھیں۔ یہ انسانی اور مالی رشتہ اب دفاعی و معاشی شراکت کو ایک سماجی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔

بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے اس معاہدے کے حساس پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھا۔ فائنانشل ٹائمز نے سعودی قیادت کی جوہری عدمِ پھیلاؤ سے وابستگی کو سراہا، جب کہ رائٹرز نے اس معاہدے کو ایک جامع دفاعی خاکے کے طور پر بیان کیا۔ بلومبرگ نے اسے علاقائی سیکیورٹی کے منظرنامے میں ایک نئے عنصر کے طور پر دیکھا جس سے آئندہ کسی بحران کی صورت میں ردِعمل کا دائرہ اور رفتار دونوں بدل سکتے ہیں۔

پاکستانی میڈیا نے ایک اور پہلو پر بھی زور دیا، اور وہ یہ کہ اس معاہدے کے موقع پر وزیر اعظم، ولی عہد اور آرمی چیف تینوں کی مشترکہ موجودگی نے ملک میں سیاسی اور عسکری قیادت کے یکجہتی کا پیغام دیا۔ یہ صرف ایک رسمی تصویر نہیں تھی بلکہ ایک اسٹریٹیجک اشارہ ہے کہ ریاست اپنی تمام سطحوں پر اس معاہدے کی پشت پر کھڑی ہے۔

سعودی میڈیا میں بھی یہی تاثر دیا گیا کہ یہ طویل المیعاد مشاورت کا فطری نتیجہ ہے۔ شہزادہ خالد بن سلمان کا جملہ (ہم ایک ہی صف میں ہیں) اب سفارتی بیان سے بڑھ کر عوامی سطح پر وحدت کے بیانیے میں ڈھل چکا ہے۔

اگر دیکھا جائے کہ اس معاہدے سے پاک سعودی رشتہ کیسے بدلتا ہے، تو 3 باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ دفاع اور معیشت اب ایک دوسرے کی لازم و ملزوم شرائط بنتے جا رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ عسکری ادارہ جاتی سطح پر اشتراک کو مزید منظم کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ انٹیلی جنس شیئرنگ، مشترکہ منصوبہ بندی اور انٹروپریبلٹی کے شعبے میں پیشرفت۔ تیسرا یہ کہ اس معاہدے میں ’صفر جمع‘ کا کھیل نہیں کھیلا گیا، بلکہ ریاض نے اسلام آباد کے ساتھ گہرائی بڑھاتے ہوئے بھارت کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بھی قائم رکھا ہے۔

آگے کیا ہو سکتا ہے؟ اگر دونوں ملک مشترکہ ورکنگ گروپس بنا کر عملی خاکہ ترتیب دیں، شعبہ وار تعاون کی ٹائم لائن طے کریں، اور معیشت کے بنیادی ستونوں کو اس دفاعی فریم ورک سے جوڑ دیں تو یہ معاہدہ صرف ایک اعلامیہ نہیں رہے گا بلکہ ایک قابلِ عمل حقیقت بن جائے گا۔ پاکستانی عوام کی طرف سے ہر ماہ سعودی عرب سے آنے والی ترسیلات زر اس وحدت کو زندہ رکھتی رہیں گی، اور یہ شراکت روزمرہ معیشت کا حصہ بن کر اور مضبوط ہو جائے گی۔

یہ معاہدہ درحقیقت ایک تاریخ کا اگلا باب ہے۔ ایک ایسا باب جس میں سعودیہ اور پاکستان اپنے دفاع کو ایک دوسرے کی تقدیر سے باندھ رہے ہیں۔ اور جب سعودی وزیرِ دفاع کہتے ہیں کہ ہم ایک ہی صف میں ہیں، تو یہ صرف ایک جملہ نہیں بلکہ ایک قانونی، اخلاقی اور انتظامی عہد ہے، ایسا عہد جو اب تحریر سے عمل میں ڈھلنے کو ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

طلحہ الکشمیری

اسرائیل امریکا پاکستان خالد بن سلمان دفاعی معاہدہ سعودی عرب قطر

متعلقہ مضامین

  • اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب
  • حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
  • طالبان نے غیر اخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کیلیے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کردی
  • اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
  • سیلاب نقصانات، پہلے تخمینہ پھر ریلیف کیلئے حکمت عملی: وزیراعظم
  • سیلاب کے نقصانات کا مکمل تخمینہ لگنے کے بعد بحالی کے کاموں کی حکمت عملی بنائی جائیگی، وزیراعظم
  • انقلاب – مشن نور
  • سیلاب کے نقصانات کا مکمل تخمینہ لگنے کے بعد بحالی کے کاموں کی حکمت عملی بنائی جائے گی، وزیراعظم
  • وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت سیلابی نقصانات کا جائزہ اجلاس، بحالی کے لیے مؤثر حکمتِ عملی کی ہدایت
  • قطر پر حملہ؛ مسلم ملکوں کو بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے،اسحاق ڈار