منگھوپیر سے محنت کش کا چھوٹا بھائی اغوا، 6 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
کراچی:
منگھوپیر سے نامعلوم اغوا کاروں نے محنت کش کے چھوٹے بھائی کو اغوا کر کے رہائی کے لیے 6 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کر دیا اور صوبائی وزیر داخلہ سندھ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تفصیلات طلب کرلیں۔
منگھوپیر پولیس نے عمر گوٹھ الجنت سٹی کے قریب رہائشی رشید اللہ کی مدعیت میں اس کے چھوٹے بھائی کو اغوا کر کے تاوان طلب کرنے کا مقدمہ نمبر 190 سال 2025 بجرم دفعہ 365 اے کے تحت درج کرلیا۔
مقدمے میں درخواست گزار نے کہا کہ میرا چھوٹا بھائی 17 سالہ عابد اللہ نویں جماعت کا طالب علم ہے اور 5 مارچ کو وہ میرے ساتھ گھر پر موجود تھا کہ اس نے مجھے سے کہا کہ وہ عشا کی نماز پڑھنے عمر گوٹھ جامع مسجد عیدگاہ جا رہا ہوں اور وہ گھر سے رات 8 بجے نماز پڑھنے کے لیے نکلا جس کے بعد رات 10 بج کر 47 منٹ پر میرے چھوٹے بھائی عابد اللہ کے فون سے میرے فون پر کال آئی مگر دوسری طرف کوئی اور شخص تھا۔
انہوں نے کہا کہ فون پر کہا گیا کہ آپ کا بھائی ہمارے پاس ہے اور 6 کروڑ روپے ہمیں دو تو بھائی کو چھوڑ دیں گے، پیسوں کا بندوبست 2 سے 3 دن میں کرو اور اپنی بتائی ہوئی جگہ پر آپ کو بلوائیں گے۔
درخواست گزار نے کہا کہ دھمکی دی گئی ہے کہ پیسے نہ دینے پر اگر پولیس کے پاس گئے یا پولیس کو اطلاع ملی تو بھائی کو قتل کردیں گے۔
مدعی کے مطابق اس اطلاع پر انہوں نے اپنے والد کو بتایا اور صلح مشورہ کے بعد تھانے میں رپورٹ کرنے آیا ہوں، میرا دعویٰ نامعلوم ملزم یا ملزمان پر میرے بھائی کو اغوا کر کے لے جانے اور 6 کروڑ روپے تاوان طلب کرنے کا ہے۔
منگھوپیر پولیس نے مقدمہ درج کر کے مزید تفتیش کے لیے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل پولیس کے حوالے کر دیا۔
وزیر داخلہ سندھ ضیاالحسن لنجار نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی ویسٹ اور ایس ایس پی اے وی سی سی دونوں سے علیحدہ علیحدہ تفصیلات طلب کرلیں۔
ترجمان کے مطابق وزیر داخلہ نے ہدایت جاری کی ہیں کہ اغوا کاروں کے خلاف جدید تیکنیک کا استعمال یقینی بنایا جائے اور مغوی نوجوان کی بازیابی کے لیے ٹیکنیکل بیسڈ اطلاعات کی بدولت کارروائی عمل میں لائی جائے۔
صوبائی وزیرداخلہ نے ہدایت کی ہے کہ اے وی سی سی اور ضلعی پولیس مشترکہ طور پر اغوا کاروں کی گرفتاری اور بچے کی بحفاظت بازیابی کو یقینی بنائیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کروڑ روپے بھائی کو کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
قازقستان میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر سخت پابندی عائد، 10 سال قید کی سزا کا قانون نافذ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
۔آستانہ : قازقستان نے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا کے خلاف سخت قانون نافذ کرتے ہوئے ان پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق قازقستان نے خواتین اور کمزور طبقات کے تحفظ کے لیے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے، منگل کے روز نافذ ہونے والے ایک نئے قانون کے تحت اب زبردستی شادی پر مجبور کرنے والوں کو 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
قازق پولیس کے مطابق یہ قانون خواتین اور نوجوانوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے اور جبری شادیوں جیسے غیر انسانی رواج کو روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے، اب اغوا کاروں کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، چاہے وہ متاثرہ کو رہا کریں یا نہ کریں۔
پولیس نے واضح کیا کہ ماضی میں دلہن کے اغوا کے واقعات میں ملزم اگر متاثرہ کو اپنی مرضی سے رہا کر دیتا تھا تو وہ قانونی کارروائی سے بچ سکتا تھا، لیکن اب اس قانون نے ایسی تمام رعایتوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، قازقستان میں جبری شادیوں سے متعلق درست اعداد و شمار کا فقدان ہے کیونکہ ملکی فوجداری قانون میں اس جرم کے لیے کوئی مخصوص دفعہ موجود نہیں تھی۔ تاہم، ایک رکن پارلیمان نے رواں سال انکشاف کیا کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران پولیس کو اس نوعیت کی 214 شکایات موصول ہوئیں، جو اس سماجی مسئلے کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
یہ قانون اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا جب 2023 میں خواتین کے حقوق کا معاملہ قازقستان میں سرخیوں کی زینت بنا۔ ایک سابق وزیر کے ہاتھوں اپنی اہلیہ کے قتل کے دلخراش واقعے نے معاشرے میں گہری بحث چھیڑ دی تھی، جس کے بعد خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قانون نہ صرف جبری شادیوں اور اغوا جیسے جرائم کی روک تھام کرے گا بلکہ قازق معاشرے میں خواتین کے وقار اور خودمختاری کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس قانون کی حمایت کریں اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دیں تاکہ متاثرین کو بروقت انصاف مل سکے۔