کراچی:

منگھوپیر سے نامعلوم اغوا کاروں نے محنت کش کے چھوٹے بھائی کو اغوا کر کے رہائی کے لیے 6 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کر دیا اور صوبائی وزیر داخلہ سندھ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تفصیلات طلب کرلیں۔

منگھوپیر پولیس نے عمر گوٹھ الجنت سٹی کے قریب رہائشی رشید اللہ کی مدعیت میں اس کے چھوٹے بھائی کو اغوا کر کے تاوان طلب کرنے کا مقدمہ نمبر 190 سال 2025 بجرم دفعہ 365 اے کے تحت درج کرلیا۔

مقدمے میں درخواست گزار نے کہا کہ میرا چھوٹا بھائی 17 سالہ عابد اللہ نویں جماعت کا طالب علم ہے اور 5 مارچ کو وہ میرے ساتھ گھر پر موجود تھا کہ اس نے مجھے سے کہا کہ وہ عشا کی نماز پڑھنے عمر گوٹھ جامع مسجد عیدگاہ جا رہا ہوں اور وہ گھر سے رات 8 بجے نماز پڑھنے کے لیے نکلا جس کے بعد رات 10 بج کر 47 منٹ پر میرے چھوٹے بھائی عابد اللہ کے فون سے میرے فون پر کال آئی مگر دوسری طرف کوئی اور شخص تھا۔

انہوں  نے کہا کہ فون پر کہا گیا کہ آپ کا بھائی ہمارے پاس ہے اور 6 کروڑ روپے ہمیں دو تو بھائی کو چھوڑ دیں گے، پیسوں کا بندوبست 2 سے 3 دن میں کرو اور اپنی بتائی ہوئی جگہ پر آپ کو بلوائیں گے۔

درخواست گزار نے کہا کہ دھمکی دی گئی ہے کہ پیسے نہ دینے پر اگر پولیس کے پاس گئے یا پولیس کو اطلاع ملی تو بھائی کو قتل کردیں گے۔

مدعی کے مطابق اس اطلاع پر انہوں نے اپنے والد کو بتایا اور صلح مشورہ کے بعد تھانے میں رپورٹ کرنے آیا ہوں، میرا دعویٰ نامعلوم ملزم یا ملزمان پر میرے بھائی کو اغوا کر کے لے جانے اور 6 کروڑ روپے تاوان طلب کرنے کا ہے۔

منگھوپیر پولیس نے مقدمہ درج کر کے مزید تفتیش کے لیے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل پولیس کے حوالے کر دیا۔

وزیر داخلہ سندھ ضیاالحسن لنجار نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی ویسٹ اور ایس ایس پی اے وی سی سی دونوں سے علیحدہ علیحدہ تفصیلات طلب کرلیں۔

ترجمان کے مطابق وزیر داخلہ نے ہدایت جاری کی ہیں کہ اغوا کاروں کے خلاف جدید تیکنیک کا استعمال یقینی بنایا جائے اور مغوی نوجوان کی بازیابی کے لیے ٹیکنیکل بیسڈ اطلاعات کی بدولت کارروائی عمل میں لائی جائے۔

صوبائی وزیرداخلہ نے ہدایت کی ہے کہ اے وی سی سی اور ضلعی پولیس مشترکہ طور پر اغوا کاروں کی گرفتاری اور بچے کی بحفاظت بازیابی کو یقینی بنائیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کروڑ روپے بھائی کو کے لیے کہا کہ

پڑھیں:

شفیق غوری…مزدورحقوق کے علمبردار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

شفیق غوری ایک مخلص اور محنتی ٹریڈ یونینسٹ تھے جنہوں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی مزدوروں کی خدمت اور ٹریڈ یونین تحریک کے لیے وقف کر دی تھی۔ مزدوروں کے حقوق کے لیے ان کے جذبے نے انہیں اس میدان میں ایک ناگزیر شخصیت بنا دیا تھا۔
غوری صاحب ملک میں لیبر قوانین اور ٹریڈ یونین کے حقوق کے صف اول کے ماہرین میں سے ایک کے طور پر مشہور تھے۔ اس کی گہری معلومات ان کی قابلیت کی صرف ایک مثال تھی۔ وہ نہ صرف ایک غیر معمولی مذاکرات کار تھے، جو کارکنوں کے لیے سازگار شرائط ملازمت پر بات کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، بلکہ وہ مختلف اہم فورمز پر کارکنوں اور ٹریڈ یونینوں کی نمائندگی کرنے کے ماہر بھی تھے۔ لیبر قانون سازی اور سہ فریقی اداروں (جس میں حکومت، آجر اور کارکن شامل ہیں) کے بارے میں ان کی معلومات بہت گہری تھیں، جس کی وجہ سے وہ مزدوروں کی ہر سطح پر وکالت میں انتہائی موثر تھے۔ انہوں نے محنت کے محکموں اور متعلقہ سرکاری اداروں کی کارروائیوں اور پالیسیوں پر ہمیشہ گہری اور چوکنا نظر رکھی، جوابدہی اور کارکنوں کے تحفظ کے قوانین کی پابندی کو یقینی بنایا۔ محنت کش طبقے کو ایک طاقتور، باخبر آواز بلند کرنے والے کی حیثیت سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
شفیق غوری صاحب کے ساتھ تعلق تو بہت پرانا تھا مگر ان کے ساتھ مل کر کام اس وقت شروع ہوا جب ہم دونوں نے ویپکوپ کے عہدیداروں کے طور پر خدمات انجام دیں، یہ پلیٹ فارم صنعتوں اور ان کے کارکنوں دونوں کی بہتری کے لیے بنایا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر میں نے تجربہ کار رہنما ایس پی لودھی کے ساتھ مل کر 2001 اور 2003 کے درمیان انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ کا دوبارہ مسودہ تیار کرنے کا اہم کام انجام دیا۔

ایس پی لودھی صاحب کے انتقال کے بعد، میں نے اپنی توجہ شفیق غوری کے ساتھ مل کر کام کرنے پر مرکوز کر دی تاکہ مزدوروں سے متعلق متعدد قانون سازی کی تجاویز تیار کی جا سکیں۔ ہمارا سب سے گہرا تعاون ایک اہم چار رکنی کمیٹی میں ہوا، جہاں غوری صاحب اور میں نے مزدوروں کی نمائندگی کی، جبکہ یو آر عثمانی اور اے ایچ حیدری آجروں کی نمائندگی کرتے تھے۔ اس کمیٹی نے کئی سال بہت متحرک ہو کر کام کیا۔
اس عرصے کے دوران، میں نے غوری صاحب کے لیے بے پناہ عزت محسوس کی، انہیں ایک ایسے شخص کے طور پر پایا جس میں محنت کے قوانین، ان کی پیچیدہ تشریح اور ان کے مضمرات کا وسیع عملی تجربہ تھا۔ اگرچہ ہماری کوششیں ہمیشہ محنت کش طبقے کے حقوق کے لیے لابنگ اور مضبوطی سے آگے بڑھانے پر مرکوز تھیں، لیکن میں نے محسوس کیا کہ غوری صاحب جب محنت کشوں کے بنیادی اصولوں کی بات کرتے ہیں تو وہ غیر معمولی طور پر سخت اور غیر سمجھوتہ کرنے والے تھے۔ انہوں نے مسلسل مضبوط، حقائق پر مبنی دلائل اور ٹھوس مثالوں کے ساتھ میدان میں حصہ لیا، اس بات کو یقینی بنایا کہ محنت کش طبقے کی آواز کو بغیر کسی سمجھوتے کے سنا جائے۔ ان کی لگن تحریک کے لیے ایک زبردست اثاثہ تھی۔
اس سچے، مخلص اور دیانتدار ٹریڈ یونینسٹ کا انتقال تمام کارکنوں اور ان کی تنظیموں کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی تحریک کے لیے وقف کر دی، بے مثال دیانت اور ایمانداری کے ساتھ خدمت کی۔ ایک پرعزم وکیل اور مزدوروں کے حقوق کے محافظ کے طور پر شفیق غوری کی میراث محنت کش طبقے کو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

قمر الحسن گلزار

متعلقہ مضامین

  • کراچی: منگھوپیر سے فتنہ الخوارج کے انتہائی مطلوب 3 ملزم گرفتار
  • بھارتی ویمنز ٹیم نے پہلی بار ورلڈ کپ جیت لیا، جیتنے اور ہارنے والی ٹیموں کو کتنی انعامی رقم ملی؟
  • بھارتی ویمنز کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ جیت لیا، 1 ارب 25 کروڑ روپے انعام حاصل کیا
  • گندم کی قیمت 4700 روپے فی من مقرر کی جائے،سندھ آبادگار بورڈ کا مطالبہ
  • شفیق غوری…مزدورحقوق کے علمبردار
  • مظفرگڑھ: بڑے بھائی کا کلہاڑی سے حملہ، چھوٹا بھائی جاں بحق، ماں زخمی
  • خیبر، دہشتگردوں نے جرگہ مذاکرات پر مغوی پولیس اہلکار کو رہا کردیا
  • خیبر،جرگہ مذاکرات، دہشتگردوں نے مغوی پولیس اہلکار رہا کردیا
  • اداکارہ خوشبو خان کا ارباز خان سے طلاق کے بیان پر یوٹرن
  • میرے کیریئر کو سب سے زیادہ نقصان وقار یونس نے پہنچایا: عمر اکمل کا سابق ہیڈ کوچ پر سنگین الزام