وفاقی اینٹی کرپشن کورٹ نے ٹڈاپ اسکینڈل سے متعلق 3 مقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیراعظم اور موجودہ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کو تینوں مقدمات سے بری کر دیا،میڈیا سے گفتگومیں یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پنجاب حکومت گرفتار سینیٹرز کوپیش کرے ورنہ کل احتجاجا اجلاس کی صدارت نہیں کروں گا۔کراچی کی وفاقی اینٹی کرپشن کورٹ میں ٹڈاپ کرپشن کیس کی سماعت ہوئی، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ان کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل مکمل کیے۔عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران شواہد اور دلائل کا جائزہ لیا گیا، جس کے بعد یوسف رضا گیلانی کو مقدمات سے بری کرنے کا فیصلہ سنایا گیا۔عدالت نے یوسف رضا گیلانی کی 3 مقدمات میں بریت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں بری کر دیا۔عدالت نے سید یوسف رضا گیلانی کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے بری کردیا ہے، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بطور وزیراعظم فریٹ سبسڈی میں ملزموں کا ساتھ دیا اور قومی خزانے کو 6 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا۔واضح رہے کہ مجموعی طور پر ٹڈاپ کرپشن اسکینڈل کے 42 مقدمات زیر سماعت ہیں، ان میں سے 3 کیسز میں یوسف رضا گیلانی کا نام تھا۔عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ٹڈاپ کیس میں وعدہ معاف گواہ آج ملزم ہے اور ملک سے فرار ہے، مجھ پر کیس بنانے والے ہماری اتحادی حکومت کا حصہ ہیں۔انہوں نے کہاکہ میں ہمیشہ قانون کے مطابق چلتا ہوں، جو بھی کام کرتا ہوں آئین کے مطابق کرتا ہوں۔یوسف رضا گیلانی نے کہا کل کچھ ارکان کہہ رہے تھے کہ چیئرمین سینیٹ سیر سپاٹے کرتے ہیں، ایوان میں نہیں آتے، سینیٹ کا رکن پہلی بار نہیں بنا، کئی سالوں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں رہا ہوں۔چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اگر کوئی رکنِ سینیٹ جیل میں ہے تو رول کے مطابق میں پروڈکشن آرڈر جاری کرسکتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ کل ایک اور ممبر کو بھی اٹھا یا گیا ہے، پنجاب اور وفاق حکومت سے کہتا ہوں کہ دونوں ارکان کو پروڈیوس کریں، اگر نہ کیا تو میں پروڈکشن آرڈر جاری کروں گا۔انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت گرفتار سینیٹر کوپیش کرے، گرفتار سینیٹر کو کل پیش نہ کیاتو احتجاجااجلاس کی صدارت نہیں کروں گا۔یوسف رضاگیلانی نے کہاکہ میں نے ایک معزز رکن سینٹ کے پرڈکشن آرڈر جاری کئے تھے معزز رکن سینٹ کا آئینی حق ہے کہ وہ سیشن میں آئے گزشتہ روز جس معزز رکن سینٹ کو گرفتار کیاگیا ہے اسے بھی سینٹ میں لایا جائے، نہروں کا معاملہ میرٹ حل ہونا چاہیئے۔بعد ازاں وکیل فاروق ایچ نائیک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 2009 میں یہ ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ یوسف رضا گیلانی نے اپنے پی ایس کے ذریعے 50 لاکھ روپے رشوت لی ہے۔ اس وقت کی حکومت نے ایک ہی الزام پر 26 مقدمات قائم کیے تھے۔2013 سے یہ کیس چل رہا ہے۔  12 برس بعد فیصلہ آیا ہے۔ کسی گواہ نے یوسف رضا گیلانی کے خلاف بیان نہیں دیا۔انہوں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ آج یوسف رضا گیلانی سرخرو ہوئے ہیں۔ اور اس وقت کی حکومت نے جو جھوٹا کیس بنایا تھا، آج انہیں پتہ چلنا چاہیے کہ اس طرح کے جھوٹے کیسز بنانے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: یوسف رضا گیلانی نے چیئرمین سینیٹ گیلانی نے کہا انہوں نے کہا نے کہا کہ

پڑھیں:

جب عورت کا ’نہ‘ جرم بن جائے: ثنا یوسف کا قتل اور اِن سیل ذہنیت کا المیہ

ثنا یوسف چترال سے تعلق رکھنے والی ایک باہمت، تخلیقی اور خودمختار نوجوان لڑکی تھی جو سوشل میڈیا پر سرگرم تھی اور ایک بااثر ڈیجیٹل کریئیٹر کے طور پر ابھر رہی تھی۔ مگر بدقسمتی سے اس کی زندگی کا اختتام ایک ایسے المیے پر ہوا جو صرف ذاتی سانحہ نہیں بلکہ ایک گہری سماجی بیماری کی علامت ہے۔

ثنا کو ایک 23 سالہ نوجوان عمر حیات نے صرف اس لیے قتل کر دیا کہ اس نے اس کی دوستی کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: ٹک ٹاکر ثنا یوسف قتل کیس میں سنسنی خیز انکشافات: قاتل کا اعتراف، رینٹ کی گاڑی، تحائف ٹھکرانے کا رنج

یہ معاملہ محض ‘غیرت’ یا وقتی غصے کا نہیں بلکہ ایک زہریلی سوچ کی پیداوار ہے۔ وہ سوچ جو عورت کے انکار کو جرم اور مرد کی انا کو انصاف کا پیمانہ سمجھتی ہے۔ دنیا اس سوچ کو ان سیل (In Cel) کے نام سے جانتی ہے۔

اِن سیل کلچر: ایک خطرناک ذہنیت

‘ان سیل’ (Involuntary Celibate) یعنی ‘بغیر اپنی مرضی کے غیررومانوی زندگی گزارنے والے افراد’ کی اصطلاح مغرب میں ایک آن لائن کمیونٹی سے وابستہ رہی ہے، جو جنسی یا رومانوی تعلق سے محرومی کے باعث عورتوں کے خلاف شدید نفرت اور غصے میں مبتلا ہوتے ہیں۔

یہ لوگ عورتوں کے ‘نہ’ کو اپنی تذلیل سمجھتے ہیں اور اس انکار کو ‘انتقام’ کے قابل جرم مانتے ہیں۔ ان کی گفتگو، آن لائن فورمز، یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا گروپس میں عورت دشمنی عام سی بات ہے۔

اگرچہ پاکستان میں اس اصطلاح سے واقفیت عام نہیں لیکن اس کی روح اور ذہنیت ہمارے معاشرے میں کئی انداز سے موجود ہے:

مردانگی کو تسلیم کروانے کے لیے تعلق کا ‘حاصل ہونا’ ضروری سمجھا جاتا ہے؛

عورت کا انکار مرد کی تذلیل کے مترادف سمجھا جاتا ہے؛

خودمختار عورت کو ‘مغرور’ یا ‘قابلِ سزا’ قرار دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اسلام آباد میں قتل ہونے والی 17 سالہ سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف کون تھیں؟

یہ وہ معاشرتی سانچے ہیں جو عمر حیات جیسے نوجوانوں کی سوچ کی تشکیل کرتے ہیں۔ وہ شعوری طور پر خود کو ‘ان سیل’ نہ بھی سمجھتے ہوں، تب بھی ان کی سوچ اسی زہریلے سانچے سے جنم لیتی ہے۔

ثنا کا ‘نہ’ اور معاشرتی انا کا زخم

ثنا یوسف کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے تعلق سے انکار کیا، اپنی پسند اور اپنی آزادی کا استعمال کیا۔ عمر نے اس انکار کو نہ صرف انا کا مسئلہ بنایا، بلکہ اسے ‘سزا دینے’ کی حد تک پہنچا دیا۔ اس نے اسے قتل کیا ، وہ بھی دن دیہاڑے۔

یہ ردعمل محض ایک فرد کی نفسیاتی بے چینی نہیں تھی، بلکہ ایک پوری سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ سوچ جو عورت کو انسان نہیں، ایک شے یا ‘حق’ سمجھتی ہے۔

عمر، ان سیل تھا؟ شاید خود بھی نہ جانتا ہو

یہاں ایک بنیادی نکتہ سمجھنا ضروری ہے: عمر شاید کبھی Reddit یا 4chan پر نہ گیا ہو، نہ ہی ‘ان سیل’ کے نظریے سے واقف ہو۔ مگر اس کے طرزِ فکر میں وہ تمام علامات موجود تھیں جو ان سیل کلچر کی بنیاد ہیں:

عورت کا انکار ناقابلِ برداشت؛

تعلق پر ‘حق’ کا تصور؛

مسترد کیے جانے پر غصہ اور انتقام کی جبلّت۔

یہ بھی پڑھیے: بیگم جہاں آرا شاہنواز سے نسیم جہاں تک، جدوجہدِحقوقِ نسواں کی اَن کہی داستان

یہی وہ ذہنیت ہے جو ہمارے نوجوانوں میں غیر محسوس طریقے سے سرایت کرتی جا رہی ہے، کبھی واٹس ایپ گروپس، کبھی یوٹیوب پر ‘مردانہ طاقت’ کے نام پر ویڈیوز، اور کبھی روزمرہ لطیفوں اور گفتگو میں۔

سوشل میڈیا اور زہریلا مردانہ بیانیہ

سوشل میڈیا پر مردوں کے لیے مخصوص کئی وی لاگرز، ‘ریڈ پِل’ چینلز اور آن لائن گروپس موجود ہیں جو عورت کو ناقابلِ بھروسا، چالاک یا کمتر ثابت کرتے ہیں۔ وہ مرد کو یہ سکھاتے ہیں کہ عورت کو کیسے ‘جیتا’ جائے، کیسے ‘قابو’ میں رکھا جائے، اور کیسے اس کے انکار کو اپنی طاقت سے شکست دی جائے۔

یہی وہ بیانیہ ہے جو مسترد کیے جانے کو مرد کی شکست اور عورت کی غلطی بنا دیتا ہے اور آخر کار ثنا یوسف کے قتل جییسے سانحات کو جنم دیتا ہے۔

حل کہاں ہے؟

ہمیں فرد کو سزا دینے سے آگے بڑھ کر، اس ذہنیت کا احتساب کرنا ہوگا جو ہر گھر، ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور ہر کلاس روم میں جنم لے رہی ہے۔

عورت کے انکار کو حق تسلیم کرنا — یہ نصاب، میڈیا اور والدین کی تربیت کا حصہ ہونا چاہیے۔ مردوں کی جذباتی تربیت — لڑکوں کو یہ سکھانا کہ انکار زندگی کا ایک عام تجربہ ہے، نہ کہ انا کا زخم۔ سوشل میڈیا پر عورت دشمن مواد کی روک تھام — پلیٹ فارمز کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ان کے مواد سے حقیقی دنیا میں کیا اثرات پیدا ہو رہے ہیں۔ معاشرتی گفتگو کی اصلاح — ہر وہ جملہ، مذاق، یا تصور جو عورت کو کمتر یا مرد کو غالب ظاہر کرے، اسی ذہنیت کو فروغ دیتا ہے جس نے ثنا کو مارا۔ ثنا کی یاد، ایک سوال بن کر باقی ہے

ثنا یوسف کا قتل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عورتوں کی خودمختاری، انکار اور انتخاب کو صرف قانون نہیں، معاشرتی سوچ بھی خطرہ سمجھتی ہے۔ جب تک ہم اس سوچ کو جڑ سے نہیں اکھاڑتے، ‘نہیں’ کہنا کئی عورتوں کے لیے جان لیوا فیصلہ بنا رہے گا۔

یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب میں با اختیار خواتین کی کامیابیوں کی متاثر کن کہانیاں

اب وقت ہے کہ ہم خود سے سوال کریں:

کیا ہم واقعی عورتوں کے ‘نہ’ کہنے کے حق کا احترام کرتے ہیں؟

یا ہم اسے مرد کی شکست، اور سزا کے قابل جرم سمجھتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احسن بودلہ

ان سیل کلچر تشدد ثنا یوسف خواتین

متعلقہ مضامین

  • چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے پر مسلم لیگ ن کا حیران کن ردعمل آگیا
  • خواجہ سعد رفیق کی چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے پر تنقید
  • چیئرمین سینیٹ، اسپیکر کی تنخواہوں میں اضافہ، سینئر سیاستدان کا شدید ردعمل
  • چیئرمین سینیٹ اورسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ میں اضافہ، اب ماہانہ تنخواہ کتنی ہوگی؟ پتہ چل گیا
  • دنیا میں پاکستان کے بیانیے کو تسلیم کیا جا رہا ہے، یوسف رضا گیلانی
  • بھارت سندھ طاس معاہدے کو معطل نہیں کرسکتا، ایسا کیا تو جنگ تصور ہو گا، یوسف رضا گیلانی  
  • سپیکر قومی اسمبلی و چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ میں 500 فیصد اضافہ
  • وفاقی حکومت نے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 500فیصد اضافہ کردیا
  • جب عورت کا ’نہ‘ جرم بن جائے: ثنا یوسف کا قتل اور اِن سیل ذہنیت کا المیہ
  • بلاول بھٹو زرداری کی امریکی چیئرمین سینیٹ سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس سینیٹر ٹام کاٹن سے ملاقات،پاک بھارت کشیدگی کے دوران صدرٹرمپ کے کردار کی تعریف