حرمین شریفین انتظامیہ کا زائرین کو آب زم زم سے متعلق اہم پیغام سامنے آ گیا
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
سعودی عرب میں ادارہ امور حرمین شریفین نے زائرین حرم سے اپیل کی ہے کہ آب زم زم کا استعمال احتیاط سے کریں، پانی پینے کے بعد استعمال شدہ گلاسوں کو مخصوص مقام پرڈالیں اورکولر کے ڈھکنوں کو نہ کھولیں۔
سعودی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ادارہ امور حرمین کی جانب سے مسجد الحرام آنے والے زائرین کو ہدایات کی گئی ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے رمضان المبارک میں آب زم زم کی مستقل فراہمی کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔20 ہزار کولرز زم زم کی مستقل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مسجد الحرام کے مختلف مقامات پر رکھے گئے ہیں جن میں گلاس بھی موجود ہیں، استعمال کئے گئے گلاسوں کو رکھنے کی جگہ بھی مخصوص کی گئی ہے۔
ادارہ حرمین کے مطابق مسجد الحرام میں وضو کے لیے جگہیں مخصوص ہیں، جہاں سے وضو کیا جاسکتا ہے، اس بات کا خیال رکھا جائے کہ آب زم زم کی سہولت پینے کے لیے ہے۔واضح رہے کچھ زائرین آب زم زم کے کولروں سے وضو کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جگہ گیلی ہو جاتی ہے اور دوسروں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
دوسری جانب سعودی عرب میں حرمین شریفین انتظامیہ کی جانب سے زائرین کو بے مثال طبی خدمات کی فراہمی جاری ہے، بیرونی ممالک سے آنے والوں کے لئے مقدس شہروں میں بہترین طبی سہولتوں کے ساتھ دواخانے موجود ہیں۔رپورٹ کے مطابق سعودی ہلال الاحمر نے ”کارڈیک الیکڑک شاک ڈیوائس“ مسجد الحرام کے 15 مقامات پرنصب کردی ہیں، تاکہ طبی ٹیمیں بلا کسی تاخیر کے فرسٹ ایڈ کی فراہمی ممکن بنا سکیں۔
ماہ رمضان میں عمرہ زائرین بڑی تعداد میں مسجد الحرام پہنچتے ہیں، ان کی دیکھ بھال اور انہیں فوری صحت خدمات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ہلال الاحمر کی ٹیمیں ہمہ وقت موجود ہوتی ہیں۔مسجد الحرام میں ہلال الاحمر کے متعدد یونٹس موجود ہیں جبکہ زیادہ رش والے مقامات پر بھی ہنگامی امدادی ٹیمیں مکمل طبی امدادی سامان کے ساتھ زائرین کی خدمت کے لئے چوکس رہتی ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مسجد الحرام کے لیے
پڑھیں:
لانڈھی جیل سے 225 قیدیوں کا فرار،زلزلہ نہیں،جیل انتظامیہ کی غفلت اور ناقص سیکورٹی اصل وجہ قرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-02-23
کراچی (خصوصی رپورٹ\محمد علی فاروق) کراچی کی لانڈھی (ملیر) جیل سے 225 خطرناک قیدیوں کے فرار کے واقعے کی تحقیقات مکمل کرلی گئیں، جن میں چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ محض زلزلے کے جھٹکوں کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ جیل انتظامیہ کی سنگین غفلت، ناقص سیکورٹی اور پیشگی منصوبہ بندی کی کمی اس اجتماعی فرار کی اصل وجوہات تھیں۔ واقعہ 2 جون 2025ء کی درمیانی شب اس وقت پیش آیا جب زلزلے کے جھٹکوں کے دوران قیدیوں نے جیل کی باڑ توڑ کر فرار کا راستہ اختیار کیا۔ مختلف سنگین جرائم میں ملوث 225 قیدی جیل سے نکلنے میں کامیاب ہوئے جن میں سے ضلعی پولیس نے اب تک 188 قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرلیا ہے تاہم 37 قیدی تاحال مفرور ہیں اور ان کی تلاش کے لیے خصوصی ٹیمیں سرگرم ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جیل میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کی کوئی تیاری نہیں تھی۔ انکوائری کمیٹی نے انکشاف کیا کہ جیل کے داخلی و خارجی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں سنگین خامیاں پائی گئیں۔ سیکورٹی کیمرے غیر فعال تھے جبکہ ڈیوٹی پر موجود عملہ اپنی جگہ سے غیر حاضر تھا۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ قیدیوں کا اجتماعی فرار کسی قدرتی آفت نہیں بلکہ ناقص نگرانی، بدانتظامی اور مبینہ ملی بھگت کا نتیجہ تھا۔ انکوائری کمیٹی نے تین افسران کو براہِ راست ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ سپرنٹنڈنٹ ارشد حسین شاہ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ذوالفقار پیرزادہ اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ عبداللہ خاصخیلی کو غفلت اور ناقص سیکورٹی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ واقعے کا مقدمہ شاہ لطیف ٹاؤن تھانے میں سرکاری افسر مولا بخش بستو (اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ ملیر جیل) کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ ایف آئی آر نمبر 25/1639، سیریل نمبر 11667 کے تحت مقدمہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 223، 225، 119، 166، 217، 34، اور 129 کے تحت قائم کیا گیا۔ مزید تفتیش کی ذمہ داری سی آئی سی ملیر ڈویژن کے انچارج کو سونپی گئی ہے۔ محکمہ داخلہ سندھ نے 10 اکتوبر 2025ء کو نامزد افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کا حکم جاری کیا جبکہ وفاقی و صوبائی سطح پراعلیٰ سطحی انکوائری کی ہدایت بھی دی گئی۔ ذرائع کے مطابق جیل کے سیکورٹی سسٹم اور کمانڈ انفرا اسٹرکچر کاازسرِنو آڈٹ کیا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں اس نوعیت کے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔ لانڈھی جیل سے 225 قیدیوں کے فرار کا یہ واقعہ ناصرف کراچی کی سیکورٹی کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ملک کی جیلوں کے نظام میں پائے جانے والی بدانتظامی، کرپشن اور تربیت کی کمی کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ یہ کیس اس وقت کراچی کے سب سے بڑے سیکورٹی اسکینڈلز میں شمار کیا جا رہا ہے۔