مقبوضہ کشمیر میں خواتین بھارتی ریاستی دہشت گردی کا بدترین شکار
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
کل جماعتی حریت کانفرنس کی خواتین رہنمائوں کا کہنا ہے کہ آج جب دنیا خواتین کا عالمی دن منا رہی ہے لیکن مقبوضہ جموں و کشمیر کی خواتین دنیا کے سب سے بڑے نام نہاد جمہوری ملک بھارت کے ہاتھوں بڑے پیمانے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آج دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے تاہم بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں، پولیس اہلکاروں اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے کشمیری خواتین کو نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اور وہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔ آج ”خواتین کے عالمی دن“ کے موقع پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز اہلکاروں نے جنوری 2001ء سے اب تک 688خواتین شہید کی ہیں۔ رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ بھارت کی جاری ریاستی دہشت گردی کے دوران جنوری1989ء سے 22 ہزار 9 سو 81 خواتین بیوہ ہوئی ہیں جبکہ بھارتی فوجیوں نے 11 ہزار 2 سو 66 خواتین کو بے حرمتی اور آبرو ریزی کا نشانہ بنایا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ کنن پوشپورہ اجتماعی عصمت دری، شوپیاں کی سترہ سالہ آسیہ جان اور اس کی بھابھی نیلو فر کی اجتماعی آبروریزی، قتل اور کٹھوعہ کی آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کا اغواء، اجتماعی آبروریزی اور قتل کے المناک واقعات بھارتی فوجیوں کی طرف سے مقبوضہ علاقے میں خواتین پر مظالم کی واضح مثالیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے ہزاروں خواتین کے بیٹوں، شوہروں اور بھائیوں کو حراست کے دوران لاپتہ اور قتل کیا ہے۔ لاپتہ کشمیریوں کے والدین کی تنظیم "ایسوسی ایشن آف پرنٹس ڈس اپیڈ پرسنز“ (اے پی ڈی پی ) کے مطابق گزشتہ 35 برس کے دوران 8 ہزار سے زائد کشمیریوں کو دوران حراست لاپتہ کیا گیا ہے جموں خطے میں اکتوبر، نومبر 1947 میں ہونے والے قتل عام کے دوران ڈوگرہ فوجیوں اور ہندو انتہا پسندوں نے بڑی تعداد میں مسلم خواتین کو اغوا کیا اور ان کی عصمت دری کی۔
 
 بھارتی فوجیوں، پیرا ملٹری اور پولیس اہلکاروں نے 1989ء کے بعد کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے کیلئے کشمیری خواتین کی آبروریزی کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ہیومن رائٹس واچ کی 1993ء کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فورسز خواتین کی آبروریزی کو کشمیریوں کے خلاف انتقامی کارروائی کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ آبروریزی کے زیادہ تر واقعات محاصرے اور تلاشی کی کاروائیوں کے دوران پیش آتے ہیں۔کشمیر میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم نے مئی 2011ء میں کہا کہ 1990ء سے 2011ء تک ایک ہزار سے زائد خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، انشا طارق شاہ، صائمہ اختر، شازیہ اختر، افروزہ، عائشہ مشتاق، حنا بشیر بیگ، نصرت جان، شبروزہ بانو اور آسیہ بانو جیسی حریت رہنماﺅں اور کارکنوں سمیت تین درجن سے زائد خواتین اپنے حق خود ارادیت کی مطالبے کی پاداش میں جموں و کشمیر کی جیلوں کے علاوہ نئی دلی کی تہاڑ اور دیگر بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔ کشمیری نوجوانوں سے شادی کرنے والی آزاد جموں و کشمیر کی 400 کے قریب خواتین کو مقبوضہ علاقے میں سخت ناانصافی کا سامنا ہے کیونکہ بھارتی حکومت انہیں نہ تو شہریت کے حقوق دے رہی ہے اور نہ ہی آزاد جموں و کشمیر واپس جانے کے لیے سفری دستاویزات۔ ان کے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخلے سے محروم رکھا جاتا ہے۔
 
 رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیری خواتین کو اس وقت بدترین سیاسی اور سماجی دبائو کا سامنا ہے، غیر قانونی طور پر نظربند حریت رہنما ایاز اکبر کی اہلیہ رفیقہ بیگم کینسر کی وجہ سے 2021ء میں سری نگر میں انتقال کر گئیں۔ ایاز اکبر 17 جولائی سے تہاڑ جیل میں غیر قانونی نظربندی کا سامنا کر رہے ہیں۔ بھارتی جیلوں میں بند حریت رہنماﺅں، کارکنوں سمیت ہزاروں کشمیریوں کی مائیں، بیویاں اور بیٹیاں اپنے پیاروں کی گھروں کو واپسی کا انتظار کر رہی ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ کشمیری خواتین مسلسل بھارتی جبر کی وجہ سے متعدد نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ ہزاروں جبری گمشدگیوں کی وجہ سے خواتین کی ایک بڑی تعداد مسلسل غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں ۔ انہیں اپنے شوہروں کے بارے میں کچھ علم نہیں کہ آیا وہ زندہ ہیں یا شہید کیے جا چکے ہیں اور یہ خواتین ”آدھی بیواﺅں“ کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کئی مائیں اپنے لاپتہ بیٹوں کے انتظار میں دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں۔
 
 رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فورسز کی طرف سے پرامن مظاہرین پر پیلٹ چھروں کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے ہزاروں طلبہ و طالبات زخمی ہوئے ہیں جبکہ آنکھوں میں پیلٹ چھرے لگنے کی وجہ سے 19ماہ کی شیر خوار بچی حبہ جان، 2 سالہ نصرت جان، 17 سالہ الفت حمید، انشا مشتاق، 17سالہ عفرہ شکور، شکیلہ بانو، 11سالہ تمنا، 16سالہ شبروزہ میر، 35سالہ شکیلہ بیگم اور 31سالہ رافعہ بانو سمیت سینکڑوں بچے اور بچیاں اپنی آنکھوں کی بینائی کھو چکے ہیں۔ 10جولائی 2016ء کو سرینگر کے علاقے قمر واری میں بھارتی پولیس نے 4 سالہ زہرہ مجید کو پیلٹ گن سے نشانہ بنایا جس سے اس کے پیٹ اور ٹانگوں پر زخم آئے۔ دریں اثنا کل جماعتی حریت کانفرنس کی رہنماوں، یاسمین راجہ، فریدہ بہن جی اور حفظہ بانو نے کہا ہے کہ آج جب دنیا خواتین کا عالمی دن منا رہی ہے لیکن مقبوضہ جموں و کشمیر کی خواتین دنیا کے سب سے بڑے نام نہاد جمہوری ملک بھارت کے ہاتھوں بڑے پیمانے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ انھوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ کشمیری خواتین کی تکالیف اور مشکلات کا نوٹس لیں۔ 
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جموں و کشمیر کی بھارتی فوجیوں کشمیری خواتین کا شکار ہیں میں بھارتی خواتین کی کہ بھارتی خواتین کو کی وجہ سے گیا ہے کہ کے دوران عالمی دن کہ بھارت
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، 05 اگست 2019ء سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تیزی آئی
سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشاء کو مسلسل ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اور کشمیری بھی سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہندوتوا بھارتی حکومت کیطرف سے اگست 2019ء میں 370 اور 35 اے دفعات کی منسوخی کے بعد بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بڑے پیمانے پر تیزی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی فورسز نے اگست 2019ء سے اب تک مقبوضہ علاقے میں کئی خواتین سمیت 1 ہزار 43 افراد کو شہید کیا۔ شہید ہونے والوں میں اکثر نوجوان تھے۔ اس عرصے کے دوران 2 ہزار 6 سو 56 سے زائد افرار کو زخمی جبکہ 29 ہزار 9 سو 97 سے زائد کو شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ دریں اثنا بھارتی فورسز نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں میں گزشتہ ماہ(اکتوبر) میں 2 کشمیریوں کو ایک جعلی مقابلے میں شہید کیا۔بھارتی فوجیوں، پولیس، پیرا ملٹری اہلکاروں اور بدنام زمانہ تحقیقاتی اداروں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے)، سٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی (ایس آئی اے) کی ٹیموں نے محاصرے اور تلاشی کی 244 کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران 42 شہریوں کو گرفتار کیا، جن میں زیادہ تر سیاسی کارکن، نوجوان اور طلباء شامل ہیں۔
 
 گرفتار کیے جانے والوں میں سے بیشتر کے خلاف ”پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے“ جیسے کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ اس عرصے کے دوران 20 کشمیریوں کے مکان، اراضی اور دیگر املاک ضبط کی گئیں جبکہ دو کشمیری مسلم ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا۔ بھارتی فورسز اہلکاروں نے اکتوبر میں دو کشمیری خواتین کو بے حرمتی کا نشانہ بنایا۔ ادھر کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، نعیم احمد خان، ایاز اکبر، پیر سیف اللہ، معراج الدین کلوال، فاروق احمد شاہ ڈار، سید شاہد شاہ،، ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم، مشتاق الاسلام، ڈاکٹر حمید فیاض، شاہد الاسلام، بلال صدیقی، مولوی بشیر عرفانی، ظفر اکبر بٹ، نور محمد فیاض، عبدالاحد پرہ، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، رفیق احمد گنائی، فردوس احمد شاہ، سلیم ننا جی، محمد یاسین بٹ، فیاض حسین جعفری، عمر عادل ڈار، انسانی حقوق کے محافظ خرم پرویز اور صحافی عرفان مجید سمیت 3 ہزار سے زائد کشمیری جھوٹے مقدمات میں جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند ہیں جہاں انہیں طبی سمیت تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔
 
 سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے وادی کشمیر میں بھارت کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا دنیا جنوبی ایشیا میں ایک اور فلسطین جیسی صورتحال پیدا ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔ بی جے پی کی ہندو انتہا پسند بھارتی حکومت بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین پامالی کررہی ہے جس کا واحد مقصد کشمیریوں کی آزادی کی آواز کو دبانا ہے۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشاء کو مسلسل ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اور کشمیری بھی سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں نہتے لوگوں پر جاری بھارتی جبر و تشدد کا نوٹس لیں اور تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے بھارتی حکومت پر دباﺅ ڈالے۔