چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان نام کا میزبان
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
’’ہم چند منٹ میں لینڈ کرنے والے ہیں امید ہے آپ کا سفر اچھا گذرا ہو گا، ہماری ایئر لائنز کو منتخب کرنے کا شکریہ، آئندہ بھی ہمیں خدمت کا موقع دیجیے گا‘‘.
پائلٹ کا یہ اعلان سن کر میں نے سکون کا سانس لیا کیونکہ آدھے راستے میں جہاز ہلتا جلتا ہی رہا تھا، اسے عرف عام میں ’’ٹربیولنس‘‘ کہتے ہیں، شاید موسم ہی ایسا تھا، گوکہ میں بظاہر آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا لیکن اندر ہی اندر ڈر بھی لگ رہا تھا.
جہاز کا سفر ہوتا ہی ایسے ہے، میرے برابر کی نشت پر بیٹھا نوجوان پہلے موبائل پر شاید کوئی فلم دیکھ رہا تھا لیکن جیسے ہی جہاز ہلنا شروع ہوا اس نے موبائل رکھ کر دعائیں پڑھنا شروع کر دیں.
گوکہ سفر اتنا خطرناک بھی نہ تھا لیکن اس سال اتنے فضائی حادثات ہوئے ہیں کہ ہر کوئی خوفزدہ ہی رہتا ہے، میرا سفر کراچی سے شروع ہوا، گذشتہ بار کی طرح اب بھی ایئرپورٹ کے اندر داخل ہونے کیلیے بھی لائن لگی تھی.
ایک پورٹر نے مجھ سے کہا کہ ’’آئیں آپ کی فاسٹ ٹریک سے انٹری کروا دوں‘‘ میں نے پوچھا کتنے پیسے لیں گے تو جواب ملا ’’جو دل چاہے دے دیجیے گا‘‘ میں جانتا تھا کہ زیادہ دیر نہیں لگے گی اس لیے انکار کر دیا.
اندر امیگریشن کاؤنٹرز پر پھر اتنا رش نظر آیا،ان میں بڑی تعداد عمرے کیلیے جانے والوں کی تھی، ایف آئی اے نے بہتر انتظامات کیے ہیں جس کی وجہ سے سب اپنی فلائٹ سے پہلے ہی کلیئر ہو جاتے ہیں.
جب میں یو اے ای پہنچا تو ایئرپورٹ پر ای گیٹ سے کلیئرنس میں چند منٹ ہی لگے، پہلے پاسپورٹ پھر آنکھیں اسکین اور آپ اپنا سامان لے کر باہر چلے جائیں، ساتھ میں امیگریشن کاؤنٹرز بھی ہیں، پہلی بار آنے والوں کو وہیں بھیجا جاتا ہے، ایئرپورٹ سے میں ہوٹل روانہ ہوا.
ٹیکسی ڈرائیور شاید مائیکل شوماکر کا فین تھا، اس نے 120 سے بھی زائد کی رفتار سے ڈرائیونگ کی ،اگر پاکستانی ٹیم بھی کھیلتے ہوئے اتنی اسپیڈ دکھاتی تو آج فائنل کھیل رہی ہوتی، ہوٹل میں سامان رکھ کر میں نے ایک اور ٹیکسی سے اسٹیڈیم کی راہ لی.
ڈرائیور پاکستانی بھائی تھا،اس نے اسٹیڈیم کے قریب اتار دیا، اب ایک طویل واک میری منتظر تھی، میں نے دوستوں کو مرعوب کرنے کیلیے اسٹیپس ایپ میں 10 ہزار اسٹیپس دکھانے کی منصوبہ بندی بھی کر لی تھی لیکن پاک بھارت میچ کی طرح اس بار بھی بچت ہو گئی.
وی آئی پی ایریا سے ایک بگی میں انڈین فیملی اوپر جا رہی تھی انھوں نے مجھے بھی ساتھ بٹھالیا اور میں آرام سے میڈیا سینٹر کے دروازے تک پہنچ گیا،انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ سب میچ دیکھنے کیلیے خاص طور پر انگلینڈ سے دبئی آئے ہیں.
اسٹیڈیم میں ہر جانب بلو شرٹس اور بھارتی پرچم ہی دکھائی دے رہے تھے لیکن پاک بھارت میچ جیسا ماحول نہیں تھا، ہماری ٹیم چاہے جتنی بھی کمزور ہو ہم وطن ایک آس لیے اسٹیڈیم آتے ہیں کہ شاید آج اچھی کارکردگی سامنے آ جائے،البتہ آج کل ٹیم زیادہ تر مایوس ہی کر رہی ہے.
میڈیا سینٹر میں حسب توقع بھارتی صحافی ہی نظر آئے، البتہ 4،5 پاکستانی بھی تھے، سبط عارف ایک پاکستانی چینل کے ساتھ کئی برس سے وابستہ ہیں، بہت ہی ذہین اور خوش اخلاق انسان ہیں، ان کے ساتھ کوئی بور نہیں ہو سکتا.
جس وقت راچن رویندرا نے جارحانہ بیٹنگ شروع کی اسٹیڈیم میں سناٹا طاری تھا، میں نے سبط عارف سے کہا کہ آج ہم لوگ دباؤ سے آزاد ہیں کیونکہ پاکستانی ٹیم نہیں کھیل رہی، البتہ نیوزی لینڈرز بھی اپنے ہی لگ رہے ہیں، ان کے عمدہ شاٹس ایسی ہی خوشی دے رہے جیسے اپنے بابر یا رضوان کھیل رہے ہوں لیکن جذبات پر قابو رکھنا ضروری ہے.
البتہ بھارتی میڈیا کے ساتھ ایسا نہ تھا وکٹیں گرنے پر شور کی آوازیں بھی آتی رہتیں، کراؤڈ ابتدا میں خاموش تھا لیکن جب بھارتی بولرز نے وکٹیں لینا شروع کیں تو جوش بڑھتا گیا، یہاں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں،اسٹیڈیم میں داخلے کے وقت بھی شائقین کو چیک کیا جاتا رہا، البتہ جیسے پہلے بتایا تھا کہ مسلح اہلکار کم ہی نظر آتے ہیں.
یہاں قانون کی مکمل پاسداری ہے لہذا لوگ احتیاط کرتے ہیں، انکلوڑرز میں بھی سیاہ پینٹ کوٹ،ٹائی اور سفید شرٹ میں ملبوس سیکیورٹی اہلکار شائقین پر نظر رکھے رہتے، جہاں انھیں کچھ غلط لگتا فورا پہنچ جاتے.
دبئی اسٹیڈیم میں بیٹھا میں یہی سوچ رہا تھا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ نے اپنی ٹیم کیلیے گھر سے دور بھی گھر جیسا ماحول حاصل کر لیا، کہنے کو چیمپئنز ٹرافی کا میزبان پاکستان تھا لیکن بھارت نے ہمیں لاہور میں اتنے اہم میچ کی میزبانی سے محروم کر دیا.
اگر پاکستان ٹیم فائنل کیلیے کوالیفائی نہ کرتی تب بھی میچ کے دوران قذافی اسٹیڈیم شائقین سے کھچا کھچ بھرا ہوتا، ہماری ٹیم کی ناقص کارکردگی نے بھی عوام کا دکھ بڑھا دیا، البتہ سوچیں کہ اگر ہم میزبان ہونے کے باوجود دبئی میں فائنل کھیلتے تو کتنا عجیب لگتا.
خیر بھارتی بیٹنگ کے دوران جب کپتان روہت شرما نے آتے ہی ماردھاڑ شروع کی تو اسٹیڈیم روہت، روہت کے نعروں سے گونج اٹھا، اپنی ٹیم کو فائنل تک لے جانے کے باوجود جس کپتان کو ریٹائرمنٹ کے مشورے اور موٹاپے کے طعنے مل رہے تھے اس نے ان باتوں کو نظرانداز کر کے اپنی ٹیم کو فتح دلانے میں اہم کردار ادا کیا.
گو کہ منتظمین کی طرف سے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا مگر مقامی صحافی رضیہ، عبداللہ و دیگر اپنے گھر سے روایتی پکوڑے، دہی بڑے، چاٹ وغیرہ بھی لے کر آئے تھے ڈائننگ ایریا میں زبردست افطار ہوا.
پی سی بی کے نمائندوں کی کمی محسوس ہوئی،صحافی یہی کہہ رہے تھے کہ پاکستان میزبان ہے اور کوئی یہاں موجود نہیں، اب میچ تقریبا ختم ہونے والا ہے، بھارتی ٹیم چیمپئن بن جائے گی،آتشبازی بھی ہو رہی ہے، یہ ایونٹ ہمارے لیے کئی سوال چھوڑ جائے گا، ہم میزبان ہو کر بھی ایونٹ میں چند روز کے مہمان ثابت ہوئے،اسٹیڈیمز بنا دیے ٹیم نہ بنا سکے.
افسوس اس بات کا ہے کہ غلطیوں سے کوئی سبق بھی نہیں سیکھا، نجانے معاملات میں کیسے بہتری آئے گی۔
Post Views: 1ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسٹیڈیم میں تھا لیکن رہا تھا
پڑھیں:
پانی‘ پانی اور پانی
انگریز نے 1849میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت ویران اور ناقابل کاشت تھا‘ دور دور تک بیابانی اور دھول ہوتی تھی یا پھر جنگل ہوتے تھے اور ان میں درندے پھرتے رہتے تھے‘ امیر تیمور نے 1398 میں ہندوستان پر حملہ کیا تھا‘ اس زمانے میں دیپال پور سے دہلی تک گھنے جنگل اور دلدلیں تھیں اور ان میں ہاتھیوں کے جھنڈ پھرتے تھے‘ امیر تیمور جیسا بے خوف شخص بھی ان گھنے جنگلوں سے گزرتے ہوئے خوف محسوس کر رہا تھا‘ یہ 6 سو سال پہلے تک پنجاب کی صورت حال تھی‘ انگریز اسے فتح کر کے پریشان ہو گیا‘ اس کی دو وجوہات تھیں‘ پنجاب لینڈ لاکڈ ہے۔
اس کے ساتھ کوئی سمندر نہیں لہٰذا حکومت کے پاس ریونیو کا کوئی بڑا سورس نہیں تھا اور دوسرا پنجاب کی فتح کے بعد دہلی میں 1857 کی جنگ آزادی شروع ہو گئی اور دہلی سے لے کر کولکتہ تک انگریز افسروں کو بچانے کی ذمے داری پنجاب پر آ پڑی‘ انگریز نے لاہور سے فوج بھجوائی اور اس نے انگریز سرکار اور اہلکاروں کی جان بچائی‘ 1857 کی جنگ نے انگریز کو مالی لحاظ سے کم زور کر دیا‘ ان حالات میں سرچارلس ایچی سن لیفٹیننٹ گورنر بن کر پنجاب آیا‘ وہ لاہور کا ڈپٹی کمشنر اور کمشنر بھی رہا‘ اس نے پورے پنجاب کا دورہ کیا اوروہ اس نتیجے پر پہنچا اگر پنجاب میں نئی نہریں بنا دی جائیں تو ہزاروں میل زمینیں کاشت ہو سکتی ہیں جس سے سرکار کا ریونیو بھی بڑھے گا اور پنجاب میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
پنجاب میں اس سے قبل فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں نہریں بنی تھیں‘ وہ 1351 سے 1388 تک ہندوستان کا بادشاہ رہا اور اس نے تاریخ میں پہلی بار ہندوستان میں نہریں بنائیں‘ وہ اس وجہ سے تاریخ میں فادر آف کینالز کے نام سے مشہور ہوا ‘ بہرحال قصہ مختصر چارلس ایچی سن کی اسٹڈی پر انگریز نے 1882 میں نہروں کے تین منصوبے شروع کیے‘ 1892 میں لوئر چناب کینال شروع ہوئی‘ گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ میں خانکی ہیڈ ورکس بنا اور اس نے گوجرانوالہ ڈویژن کو ہریالہ کر دیا ‘ 1906میں اپر چناب کا منصوبہ شروع ہوا اور یہ 1917میں مکمل ہو ئی‘ ہیڈ مرالہ اسی پراجیکٹ کا حصہ تھا‘ اس نہر نے پنجاب کی چھ لاکھ 48 ہزار ایکڑ زمین سیراب کر دی‘ اپر جہلم تیسرا پراجیکٹ تھا‘یہ 1915 میں شروع ہوئی اور 1917میں مکمل ہو گئی‘ یہ دریائے جہلم سے نکل کر دریائے چناب میں گرتی ہے اور اس سے ضلع گجرات کی بنجر زمینیں آباد ہوئیں‘ انگریز نے ان نہروں پر 9 کالونیاں بنائیں۔
ان میں 10 لاکھ لوگ آباد کیے‘ انھیں سرکاری زمینیں دیں اور یہ لوگ انھیں آباد کرتے چلے گئے‘ سندیانی کالونی ملتان میں تھی‘ سوہاگ کالونی ساہیوال میں تھی جب کہ چونیاں‘ لائل پور اور سرگودھا بھی انگریزوں کی کالونیوں پر آباد ہوئے‘ پنجاب میں اس وقت ایسے 50 شہر ہیں جنھوں نے ان نہروں کی وجہ سے جنم لیا تھا‘ یہ تین نہریں آگے چل کر دنیا میں آب پاشی کا سب سے بڑا نظام بنیں اور ان کی وجہ سے چھ ہزار چار سو 73 میل کا رقبہ کاشت کاری کے قابل ہوا اور اس سے مشرقی اور مغربی دونوں پنجاب کے کروڑوں لوگ مستفید ہوئے‘ اب سوال یہ ہے اگر انگریز 1892 میں یہ قدم نہ اٹھاتا یا اس زمانے کے لوگ نہروں کے خلاف مظاہرے شروع کر دیتے تو کیا آب پاشی کا یہ نظام بنتا اور اگر یہ نہ بنتا تو آج پاکستان میں کیا صورت حال ہوتی! کیا ہم 25کروڑ لوگوں کی ضروریات زندگی پوری کر پاتے؟۔
میں مزید آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں دنیا میں میٹھے پانی کے سب سے بڑے سورس قطب شمالی اور قطب جنوبی ہیں‘ دونوں قطبوں پر لاکھوں میل لمبے گلیشیئرز ہیں‘ سردیوں میں ان پر برفیں پڑتی ہیں اور گرمیوں میں یہ گلیشیئرز تھوڑے تھوڑے پگھل کر زیرزمین پانی میں بھی اضافہ کرتے ہیں اور دریاؤں میں بھی پانی بڑھاتے ہیں‘ پانی کا تیسرا بڑا سورس ہمالیہ‘ قراقرم اور کوہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلے ہیں‘ یہ تینوں سلسلے خوش قسمتی سے پاکستان میں جگلوٹ کے مقام پر اکٹھے ہوتے ہیں‘ قدرت کے اس عظیم جغرافیائی معجزے کی وجہ سے شمالی اور جنوبی قطبوں کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ گلیشیئرز ہیں‘ بیافو (Biafo) گلیشیئر پاکستان کا طویل ترین گلیشیئر ہے‘ اس کی لمبائی 67 کلومیٹر ہے اور یہ گلگت بلتستان میں قراقرم کے سلسلے میں واقع ہے۔
دریائے سندھ ہزاروں سال سے ان گلیشیئرز سے پانی لیتا ہے اور یہ پاکستان کی لائف لائین ہے‘ دریائے سندھ کے پانی کا سب سے بڑا سورس سیاچن گلیشیئر ہے‘ یہ 22 ہزار فٹ کی بلندی پر دنیا کا بلند ترین میدان جنگ ہے‘ اس پر 1984 سے بھارت اور پاکستان کی فوجیں موجود ہیں‘ سیاچن کی برفیں 2000 تک سخت ترین ہوتی تھیں لیکن فوجوں کی موجودگی‘ مسلسل گولہ باری اوربرف پر چولہے جلانے‘ کیمپس بنانے اور ہیلی کاپٹروں اوربھاری مشینری کی آمدورفت کی وجہ سے گلیشیئر نرم پڑ رہا ہے وہاں اب باقاعدہ پانی کے چھوٹے چھوٹے تالاب بن رہے ہیں اور گلیشیئر ٹوٹ کر بکھر رہا ہے یہاں تک کہ 2012ء میںگیاری کے مقام پر برف کا بہت بڑا تودہ فوجی کیمپ پر گر گیا اور 140 جوان شہید ہو گئے‘ سیاچن پاکستان کے لیے پانی کا بہت بڑا سورس ہے‘ ہمیں فوری طور پر اسے بھی بچانا ہو گا اور اس کے لیے سیاچن کی جنگ روکنا ہوگی۔
یہ یاد رکھیں پانی آنے والے وقتوں میں دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہو گا اور اس کی بنیاد پر جنگیں ہوں گی اور پاکستان کا شمار پانی کی کمی کے شکار پہلے دس ملکوں میں ہوتا ہے‘ ہم نے اگر خشک سالی سے بچنا ہے تو پھر ہمیں جنگی پیمانے پر پانی بچانے کی حکمت عملی بنانا ہو گی لیکن آپ المیہ دیکھیے‘ ہم سال کے آٹھ ماہ پانی کی کمی کا شکار رہتے ہیں اور مون سون کے چار مہینے ہم سیلابوں کا لقمہ بنتے ہیں یعنی ہم پانی کی کمی اور زیادتی دونوں کا شکار ہیں‘اب سوال یہ ہے ہم اس پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟ ہم پانی کے ذخائر کیوں نہیں بناتے اور ہم سیلاب کے پانی کو محفوظ کیوں نہیں کرتے؟یہ بلین ڈالر کا سوال ہے‘ہمیں چاہیے ہم فوری طور پر آبی گزر گاہوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیمز‘ تالاب اور خشک نہریں بنائیں تاکہ سیلاب کے دنوں میں پانی ان ذخائر کی طرف موڑ دیاجائے‘ اس سے زیر زمین پانی کی سطح بھی بلند ہو جائے گی اور خشک اور ویران علاقے بھی کاشت کے قابل ہو جائیں گے۔
دوسرا ہم مدت سے نئی نہروں کے منصوبے بنا رہے ہیں لیکن سیاسی افراتفری کی وجہ سے حکومتیں ان پر توجہ نہیں دے سکیں‘ 2023 میں آرمی چیف نے گرین پاکستان کا منصوبہ شروع کیا‘ اس کے تحت پاکستان میں چھ نہریں بن رہی ہیں اور ان نہروں سے ہزاروں میل کا علاقہ کاشت کے قابل بن رہا ہے لیکن یہ منصوبہ بھی اب سیاست کی نذر ہو رہا ہے‘ سندھ میں احتجاج شروع ہو گیا ہے‘ لوگ سڑکیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں‘ ان کا کہنا ہے پنجاب سندھ کا پانی چوری کر رہا ہے‘آپ اندازہ کریں انگریز نے 1892 سے 1917 تک موجودہ پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بنا دیا لیکن ہم 2025 میں ایک نہر کے لیے ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر بیٹھے ہیں‘ ملک ایک طرف پانی کی شدید قلت کا شکار ہے اور دوسری طرف ہم نہریں روکنے کے لیے سڑکیں بند کر رہے ہیں‘کیا یہ عقل مندی ہے؟ آپ تین ماہ بعد تماشا دیکھ لیجیے گا۔
جولائی اگست میں بارشیں شروع ہوں گی اور نہروں کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ سیلاب میں غوطے کھا رہے ہوں گے اور اسی فوج سے مدد کی اپیل کر رہے ہوں گے جس پر یہ اس وقت نہر بنانے کا الزام لگا رہے ہیں‘ یہ کھیل آخر کب تک چلے گا‘ ہم کب تک بنیادی ایشوز پر سیاست کرتے رہیں گے؟ پانی‘ نہریں اور ڈیمز ماہرین کے کام ہیں‘ عوام ان کی حساسیت نہیں سمجھ سکتے چناں چہ حکومتوں کو چاہیے یہ فوری طور پر ماہرین اکٹھے کریں‘ ملک کے لیے جامع واٹر پالیسی بنائیں اور ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کریں تاکہ ہم کم از کم پانی کے مسئلے سے تو نکل سکیں‘ پنجاب‘ سندھ‘ کے پی‘ بلوچستان اور کشمیر یہ سب پاکستان ہیں‘ کسی ایک صوبے کا فائدہ یا نقصان پورے ملک کا نقصان یا فائدہ ہو گا‘ ہم یہ حقیقت کیوں نہیں سمجھتے‘ ہم آخر کب تک حماقتوں کے جنگلوں میں بھٹکتے رہیں گے اور کب تک نفرت کے گندے تالاب میں غوطے کھاتے رہیں گے؟ ڈھلوانوں کا یہ سفر اب تو رک جانا چاہیے۔
نوٹ:کراچی کی ایک بزرگ خاتون کو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی‘ خواب میں روضہ رسولؐ سے متعلق ایک پیغام ہے‘ خاتون گھریلو عورت ہیں‘ عبادت گزار ہیں‘ ان کا سعودی حکومت کے ساتھ کوئی رابط نہیں اگر کسی صاحب کی سعودی ولی عہد تک رسائی ہو تو یہ مہربانی فرما کر خاتون کا خط ان تک پہنچا دیں‘ اس میں خاتون کی کوئی ذاتی حاجت شامل نہیں ‘ اگر کوئی صاحب اس سلسلے میں ان کی مدد کر سکتے ہوں تو وہ مہربانی فرما کر میرے نمبر 0300-8543103 پر واٹس ایپ کر دیں‘ میں ان کا خاتون سے رابطہ کرا دوں گا۔