’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ لیکن اُن خواتین کو کیا کہیے جو لگا دیتی ہیں دوسری خواتین کی زندگی کو زنگ؟ جی ہاں عورت جہاں خوبصورت جذبات، احساسات اور نزاکت سے بھرہور ہے وہیں اس کا ایک روپ حسد، بے حسی اور احساس کمتری کا بھی ہے۔
ایک ساس جو بہو کو اپنے ہاتھوں سے بیاہ کر لاتی ہے۔ خود اُس سے حسد، کینہ اور نفرت کرنے لگتی ہے۔ بیٹا جب بہو کےلیے تحفہ لاتا ہے یا اُسے باہر گھمانے لے کر جاتا ہے تو ساس کو بہت برا لگتا ہے۔ مگر اپنا داماد اگر ان کی بیٹی کی فرمائشیں پوری کرے تو ان کا دل داماد کے صدقے قربان ہونے کو چاہتا ہے۔
بہو کے آنے جانے پر پابندی لگانے والی ساس یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ وہ بھی کبھی بہو تھی، آزادی اور خودمختاری کی خواہش اس کے دل میں بھی پنپتی تھی۔
خاندان کو اتفاق اور محبت پر درس دیتی ہوئی نند اپنے ہی سسرال سے بیزار دکھائی دیتی ہے۔ بھائی کی دولت کو اپنا حق سمجھتی ہے مگر اپنا شوہر اگر اپنی بہن کو کوئی تحفہ دے تو اسے گراں گزرتا ہے۔
بھابی جو اپنے بہن بھائیوں میں تو قہقہے لگا کر خوش ہوتی ہے لیکن اپنی دیورانی یا جیٹھانی سے مقابلے بازی میں اس گھر کے قہقہے چھین لیتی ہے۔ مال و دولت یا اولاد کی تعلیم و ترقی میں اُن سے برتری کی خواہش رکھتی ہے۔ اور انہیں نیچا دیکھنا چاہتی ہے۔ دیورانی یا جیٹھانی کی تعریف اس کے دل میں کانٹے کی طرح چھبتی ہے۔
اور ہاں اُن ہمسائی صاحبہ کو بھی یاد رکھیے گا جو محلے کا سی سی ٹی وی کیمرہ ہوا کرتی ہیں۔ کس کی کب کہاں لڑائی ہوئی اور کون کہاں گیا؟ سب پر نظر رکھتی ہیں۔ غرض ہمسائیوں کی پریشانی انہیں سکون دیتی ہے۔
تعویز گنڈوں میں پڑ کر گھر خراب کروانے والی پھوپھیوں، چاچیوں، تائی اور خالاؤں کا اپنا ہی لیول ہے۔
گھریلو خواتین کی منفیت کو تو شاید ہم جہالت سمجھ کر پس پشت ڈال دیں۔ مگر ان اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کو کیا کہیں جو دفاتر میں اپنی کولیگز کو نیچا دکھانے کی منصوبہ بندی اور سازشیں کرتی ہیں۔ ان کی ترقی یا تعریف انہیں کسی طور قبول نہیں ہوتی۔
پھر آتی ہیں وہ خواتین جو دوسری خواتین کے شوہر پر ڈورے ڈالنا اپنا حق یا ہنر سمجھتی ہیں۔ ان مرد حضرات کی دولت یا شہرت ان لالچی خواتین کو اپنی جانب کھینچنے میں مقناطیسی طاقت رکھتی ہے۔ وہ اس عورت کے گھر کو ایک سیکنڈ میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جسے اس مظلوم عورت نے برسوں کی قربانیوں سے بنایا ہوتا ہے۔
پھر آتی ہے جناب وہ دوست یا کزن جو دوستی کا نقاب پہنے آپ کا سوشل امیج خراب کرنے کی خواہاں ہوتی ہے۔
وہ ماں جو ایکسڑا میریٹل افیئرز میں کھو کر اپنی اولاد سے بے نیاز ہوجاتی ہے۔ وہ وقت جس پر اس کی اولاد کا حق تھا وہ ایک دلدل میں گزار دیتی ہے۔
ان سب خواتین کو نکال کر واقعی عورت ذات بے حد حسین ہے۔ اس کی مثال وہ خواتین ہیں جن کی زندگی کو مشعل راہ بنا کر ایک عورت علمی، عملی، معاشی اور معاشرتی طور پر باکمال ہوجاتی ہے۔ جن میں حضرت خدیجہؐ، حضرت فاطمہؐ اور حضرت زینبؐ کا نام سرفہرست ہے۔ ان کے علاوہ فاطمہ جناح، مدر ٹریسا، ڈاکٹر روتھ فاؤ اور ان جیسی تمام باکمال خواتین شامل ہیں۔ یہ خواتین نہ صرف خواتین کے لیے رول ماڈل ہیں بلکہ ان کا علم اور عملی کمالات انسانیت کے عروج کی ایک عظیم داستان ہے۔
ان خواتین نے نہ صرف ایک احسن مقصد کےلیے اپنی زندگیوں کو وقف کیا بلکہ اپنی ذات کو انسانیت کےلیے بہترین مثال بنایا۔
وہ خاتون جس کا مقصد حیات عظیم نہیں ہوتا وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں اُلجھ کر رہ جاتی ہے۔ کہتے ہیں ناں خالی دماغ شیطان کی آماجگاہ ہے۔ لہٰذا خواتین کو چاہیے کہ اپنے ذہن کو علم کی روشنی اور اپنے عمل کو بہترین مقاصد کےلیے وقف کریں۔
یہاں مجھے نپولین کا وہ قول یاد آگیا کہ ’’تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا‘‘۔
اگر ہمیں اچھی قوم بننا ہے تو اپنی خواتین کو مثبت ذہنی سرگرمیوں سے روشناس کروا کر انسانیت کی معراج پر لے جانا ہوگا۔ اس چھوٹی سی زندگی میں مقصد اگر عظیم ہوگا تو آپ کا نام صدیوں یاد رکھا جائے گا ورنہ آپ جیسے کئی آئے اور آج ان کا نام و نشان باقی نہیں ہے۔ لہٰذا وہ رنگ اپنائیں جو قوس قزح کی طرح حسین اور محبت کے رنگ جیسا پکا ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خواتین کو
پڑھیں:
اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-5
غلام حسین سوہو
یہ مضمون اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ تعلیمی کارکنوں کی اندرونی تحریک کو کس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ اس جمی ہوئی بے حسی کا مقابلہ کیا جا سکے جو ایک خطرناک اور ہر طرف پھیلی ہوئی بلا کی طرح پروان چڑھ چکی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اس آفت سے ناآشنا ہیں جس نے ہماری قومی اساس کو خود انحصاری اور خوشحالی کے لیے کھوکھلا کر دیا ہے۔
“I hope when the going gets tough, the tough get going” کے مطابق اگر ہم کامیاب ہو گئے تو ہم تدریسی شعبے کو قربانی، ہمدردی اور مسلسل نشوونما کی بنیاد پر ایک باوقار پیشے میں بدل سکیں گے۔ لوگ استاد کے کردار کو محض تدریسی ذمے داری نہیں بلکہ طلبہ کو علم کی بھول بھلیوں میں رہنمائی کرنے، تجسس کی آگ جلانے، مہارتیں، قابلیتیں اور باوقار کردار حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اسی پیمانے پر جب ہم یہ سوال کرنے کی ہمت کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور تعلیمی رجحانات کس طرف بڑھ رہے ہیں، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ٹیکسٹ بْک، رٹے بازی اور مبہم تعلیمی منتقلی کا کلچر حاوی ہے۔ جدید بورڈز، اسمارٹ کلاس رومز اور ہائی ٹیک لیب کے باوجود تعلیمی ترقی جمود کا شکار ہے۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کی موجودگی یا غیر موجودگی کا نہیں بلکہ جذبے، لگن اور جدت کی کمی کا ہے۔
یہ موجودہ کلچر گھوڑے کی لاش کو پیٹنے کے مترادف ہے، جہاں تعلیم حوصلہ افزا نہیں بلکہ مایوس کن ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اساتذہ کو زیادہ پیشہ ورانہ خودمختاری دی جائے تو وہ اپنے کام کو ذاتی ذمے داری سمجھیں گے۔ مثال کے طور پر اگر اساتذہ کو نصابی کتب اور باندھے ہوئے وسائل سے ہٹ کر اپنی تدریسی حکمت ِ عملیاں بنانے اور نافذ کرنے کی آزادی دی جائے تو وہ طلبہ کو ذمے دار شہری اور روزگار کے قابل بنانے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ اسی طرح معاونتی نظام بھی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ اساتذہ اپنی فلاح و بہبود کو ترجیح دے سکیں، مثلاً وسائل میں سہولت، رعایتیں اور انتظامی بوجھ میں کمی۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معزز اساتذہ اپنی علمی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بعض کا ماننا ہے کہ ہاں، مگر عملی رکاوٹیں جیسے نصاب کی تکمیل کے لیے وقت کی کمی، وسائل کی قلت اور ناکافی تحریک انہیں مزید ترقی سے روکتی ہے۔ دوسری طرف کچھ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اساتذہ میں پائی جانے والی بے حسی پورے نظام تعلیم کو کمزور کر سکتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم ایسا احتسابی کلچر پیدا کریں جو ہمدردی پر مبنی ہو۔ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ احتساب کا مطلب صرف سزا نہیں بلکہ نشوونما اور بہتری ہے۔ اساتذہ کو بااختیار بنانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کریں اور اجتماعی ذمے داری کا ماحول پیدا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی کلچر میں جذبے، جدت اور لگن کی کمی ہے۔ ہمیں ایسے کلچر کی ضرورت ہے جہاں استاد خود کو تبدیلی کے ایجنٹ سمجھیں اور نئے تجربات کرنے سے نہ گھبرائیں۔ اسی طرح طلبہ پر مرکوز تدریسی طریقے مثلاً تحقیق پر مبنی اور منصوبہ جاتی تدریس اساتذہ میں تدریس کی خوشی دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔
’’سماج اکثر یہ خواب دیکھتا ہے کہ اساتذہ کو اپنے آپ کو روشنی کے نگہبان سمجھنا چاہیے — ایسے افراد جو دوسروں کی راہوں کو روشن کرنے کے لیے اپنی قربانی پیش کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کے لیے ہمدردی اور نرمی پر زور دینا لازمی ہے۔ جذباتی ذہانت کی تربیت اساتذہ کو یہ سکھا سکتی ہے کہ طلبہ کے ساتھ بامعنی تعلقات کیسے قائم کیے جائیں، اعتماد اور تعاون کا ماحول کیسے پیدا کیا جائے۔
’’میٹا کوگنیٹو مہارتوں کی پرورش اساتذہ کو یہ قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی تدریسی حکمت ِ عملیوں کا تنقیدی جائزہ لیں اور طلبہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ضروری تبدیلیاں کریں‘‘۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی، واضح تدریسی طریقے اور عملی تربیت کو ملانا ضروری ہے تاکہ طلبہ کو صاف اور منظم رہنمائی ملے۔ اسی طرح مضمون پر مبنی تربیت اساتذہ کے علمی اثاثے کو گہرا کرتی ہے جس سے وہ زیادہ مؤثر اور دلچسپ اسباق فراہم کر سکیں۔
کامیاب تعلیمی نظام کا انحصار مسلسل سیکھنے، ہمدردی اور جدت پر ہے۔ اس طرح ہم اپنے اساتذہ کو حقیقی روشنی کے نگہبان میں بدل سکتے ہیں جو قربانی، نرمی اور غیر متزلزل لگن کے ساتھ اپنے کردار کو نبھائیں۔ جب ہم ان کی ترقی میں سرمایہ کاری کریں گے اور ان کو ضروری سہولتیں فراہم کریں گے تو ہم ایسا ماحول تشکیل دیں گے جہاں استاد اور طلبہ دونوں ترقی کریں اور آئندہ نسلوں کی زندگیوں کو روشن، بااختیار اور بہتر بنائیں۔
(مصنف ایک ماہر ِ تعلیم ہیں جنہوں نے مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جن میں: سینئر ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈی جی ایجوکیشن، ایف ڈی ای اسلام آباد۔ ڈائریکٹر (سرٹیفکیشن) NAVTTC۔ ڈائریکٹر (آپریشنز اینڈ لیگل) STEVTA۔ ریجنل ڈائریکٹر وفاقی محتسب حیدرآباد۔ چیئرمین، بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی)