جے یو آئی کے مفتی شاہ میر نے کلبھوشن یادیو کی گرفتاری میں آئی ایس آئی کی مدد کی، ٹائمز آف انڈیا کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
جمعہ کی رات جے یو آئی رہنما نماز عشاء کے تربت کی ایک مقامی مسجد سے نکلتے ہوئے موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد کے حملے کا شکار ہوئے۔ انہیں قریب سے متعدد گولیاں ماری گئیں اور وہ اسپتال میں دم توڑ گئے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے دعوی کیا ہے کہ بلوچستان میں ٹارگٹ کیے گئے عالم دین مفتی شاہ میر بزنجو نے کلبھوشن یادیو کو گرفتار کرایا تھا۔ یہی دعوی بھارت کے این ڈی ٹی وی نے بھی کیا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق جے یو آئی رہنما مفتی شاہ میر نے کل بھوشن یادیو کی گرفتاری میں پاکستان کی آئی ایس آئی کی مدد کی تھی۔ ان ذرائع ابلاغ نے بھارت کے پرانے موقف کو اگے بڑھاتے ہوئے دعوی کیا کلبوشن یادیو کو ایران سے اغوا کر کے لایا گیا تھا اور اس کام میں مفتی شاہ میر نے مدد کی تھی۔ مفتی شاہ میر بلوچستان کے ایک معروف دینی عالم تھے، ان پرماضی میں بھی دو مرتبہ قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں جس میں وہ معجزانہ طور پر بچ گئے۔
تاہم وہ جمعہ کی رات نماز عشاء کے تربت کی ایک مقامی مسجد سے نکلتے ہوئے موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد کے حملے کا شکار ہوئے۔ انہیں قریب سے متعدد گولیاں ماری گئیں اور وہ اسپتال میں دم توڑ گئے۔ ٹائمز آف انڈیا نے ہرزہ سرائی کی کہ جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے مفتی شاہ میر اسلحہ اور انسانی اسمگلنگ کا کاروبار کرتے تھے۔ این ڈ ی ٹی وی کے مطابق ٹائمز آف انڈیا نے الزام عائد کیا کہ شہید شاہ میرکے پاکستان ایجنسی آئی ایس آئی سے خفیہ رابطے تھے۔ بھارتی میڈیا نے یہ دعوی بھی کیا کہ شاہ میر عسکریت پسندوں کو بھارت میں داخل ہونے میں مدد بھی فراہم کرتے تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مفتی شاہ میر
پڑھیں:
گرفتاری کیلئے پولیس کی خصوصی ٹیم تشکیل، جیل جانے کیلئے تیار ہوں، علیمہ خان
انسداد دہشت گردی عدالت نے چھٹی مرتبہ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کے وارنٹ گرفتاری کردیے، علیمہ خان کی گرفتاری یا وارنٹ کی تکمیل کرانے کے لیے پولیس کی خصوصی ٹیم تشکیل دے دی گئی۔
نجی ٹی وی کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی نے 26 نومبر 2024 کے احتجاج کے مقدمے میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کے چھٹی مرتبہ وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
دوسری جانب علیمہ خان کی گرفتاری یا وارنٹ کی تعمیل کرانے کے لیے پولیس کی خصوصی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے، ایس ڈی پی او سٹی اظہر شاہ ٹیم کی قیادت کریں گے، ٹیم کچھ دیر میں اڈیالہ جیل روانہ ہو گی۔
علیمہ خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک تو کورٹس کے اندر کھڑے ہیں، کل ہم آکر کہیں پر بھی بیٹھ جائیں گے، ہم اپنی جانیں دے دیں گے لیکن عمران خان کے لیے لڑیں گے، یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ سوچیں کہ ہم ڈر جائیں گے، جیلوں میں ڈالنا ہے ڈال دو۔
علیمہ خان نے کہا کہ اگر آپ کو فکر ہے کہ ہم کہیں باہر رہ کر کیسز لڑیں گے یا بانی کا پیغام دیں گے، اگر آپ ڈرتے ہیں اور ہمیں جیلوں میں ڈالیں گے تو ہم تیار ہیں۔
علیمہ خان نے کہا کہ صبح کہا گیا کہ آپ عدالت جائیں گی تو آپ کو گرفتار کر لیا جائے گا، پہلے یہ بتائیں کہ یہی کیس ہے نا کہ پی ٹی آئی کا پیغام دیا ہے، آپ عمران خان سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ ہر حرکت سے اپنا خوف ظاہر کر رہے ہیں۔
علیمہ خان نے کہا کہ صرف پاکستان کے آگے نہیں باقی دنیا میں بھی آپ اپنا مذاق اڑا رہے ہیں، لوگوں کوبھی نظر آرہا ہے، آپ گرفتار کریں اور پھر بتائیں کہ کس چیز کے لیے عمران خان کے ایک اور فیملی ممبر کوگرفتار کیا، یہ خود پھنسے ہوئے ہیں ہمیں جیل میں ڈالیں، میری بہنیں بھی تیار ہیں وہ پیغام آپ کو دے دیں گی، اگر وہ نہیں ہوں گی تو ہمارے بچے کھڑے ہو جائیں گے، سب کو جیل میں ڈال دیں، انہوں نے کہا کہ ہم بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے یہ جنگ جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ 30 اکتوبر کو گزشتہ سماعت میں اے ٹی سی راولپنڈی میں علیمہ خان کا شناختی اور پاسپورٹ بلاک ہونے سے متعلق رپورٹس پیش کردی گئی تھی۔
پس منظر
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے 24 نومبر 2024کو بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا اور 25 نومبر کی شب وہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے۔
تاہم اگلے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں متعدد افراد، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
26 نومبر کی شب بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ چلے گئے تھے، مارچ کے شرکا بھی واپس اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔
احتجاج کے بعد وفاقی دارالحکومت اور راولپنڈی کے مختلف تھانوں میں پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق خاتون اول بشریٰ بی بی، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور و دیگر پارٹی رہنماؤں اور سیکڑوں کارکنان کے خلاف دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت متعدد مقدمات درج کیے گئے تھے۔
پی ٹی آئی کے 24 نومبر کے احتجاج اور پرتشدد مظاہروں پر مختلف تھانوں میں مقدمات انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کیے گئے تھے۔
مظاہرین پر سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے، مجمع جمع کرکے شاہراہوں کو بند کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔