داعش کمانڈر امریکہ اور پاکستانی قوم اللہ کے حوالے
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
اے کاش کہ داعش کمانڈر شریف اللہ کو امریکہ کے حوالے کر نے والوں نے سوچا ہوتا کہ وہ اپنے اس اقدام کے بعد پاکستانی قوم کو کس کے حوالے کریں گے؟ ڈی آئی خان،بنوں،اکوڑہ خٹک سے لے کر بلوچستان تک بے گناہ انسانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،یہ دہشت گرد قوم پرست ہوں،علیحدگی پسند ہوں،یا داعش ہو،خدا انہیں برباد کرے ،لیکن جان کی امان ملے تو عرض کروں داعش کمانڈر شریف اللہ کو امریکہ کے حوالے کر دینا بھی ’’آزادی‘‘کی روح سے متصادم ہے،خبروں کے مطابق ،اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت یابی اور وطن واپسی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران حال ہی میں پاکستان کی جانب سے امریکا کے حوالے کئے گئے داعش کمانڈر شریف اللہ کی امریکا حوالگی کا تذکرہ بھی ہوا۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت یابی اور وطن واپسی سے متعلق کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی جس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے، جبکہ درخواست گزار ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور امریکی وکیل ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے ۔ سماعت کے دوران جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کہتے ہیں امریکا کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں، آپ نے بغیر کسی معاہدے کے بندہ(شریف اللہ)پکڑ کر امریکا کے حوالے کر دیا، ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکا حوالگی سے متعلق آپ کو ان کیمرا آگاہ کرنے کا موقع بھی دیا گیا۔یاد رہے کہ پاکستان نے چند روز قبل ہی پاک افغان سرحدی علاقے سے گرفتار داعش کمانڈر شریف اللہ کو امریکا کے حوالے کیا ہے۔ شریف اللہ پر اگست 2021 ء میں افغان دارالحکومت کابل میں ایبی گیٹ دھماکے کی منصوبہ سازی کا الزام ہے، دھماکے میں 13 امریکی فوجی اور 170کے قریب افغان باشندے ہلاک ہوئے تھے۔دوسری جانب ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکا میں 87سالہ سزا کاٹ رہی ہیں اور امریکی جیل میں ان پر تشدد کیے جانے اور ان سے غیر انسانی سلوک کئے جانے کے سنگین الزامات بھی عائد کئے جاتے رہے ہیں۔جس امریکہ نے رسواکن ڈکٹیٹر پرویز مشرف اور اس کے بعد زرداری حکومت میں قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے کر کے سینکڑوں عورتوں اور بچوں سمیت ہزاروں پاکستانیوں کا قتل عام کیا،جس امریکہ کا سابق صدر جو بائیڈن، ایک نا تواں اور بے گناہ خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا کو معاف کرنے پر آمادہ نہ ہوا،اس امریکہ کے ایک دشمن کو اسی کے حوالے کر دینا کیا پاکستان کی غلامانہ پالیسیوں کو آشکارہ کرنے کے لئے کافی نہیں ہے ؟ ایک معاصر اخبار میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق، ’’کابل ایئر پورٹ حملے کے ماسٹر مائنڈ داعش کمانڈر شریف اللہ کو 70ممالک کی پولیس اور انٹیلی جنس ڈھونڈ رہی تھی۔ اسامہ بن لادن کے بعد یہ سب سے بڑی مین ہنٹ (Man Hunt ) تھی۔ یہ کہنا ہے، معروف عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر)آصف ہارون کا۔
رپورٹ کے مطابق کابل ایئر پورٹ پر سوا تین برس پہلے کئے جانے والے حملے کے بعد سے تاریخ کی دوسری بڑی مین ہنٹ شروع کی گئی، جس کا مقصد شریف اللہ عرف جعفر کو پکڑنا تھا ۔ مین ہنٹ کا مطلب کسی خطرناک مفرور کی بڑے پیمانے پر تلاش ہے، جس میں عوام کی مدد، پولیس، فوج، انٹیلی جنس اور جدید ٹیکنالوجی سمیت ہر قسم کے ذرائع کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ چھبیس اگست دو ہزار اکیس کوامریکی انخلا کے موقع پر کابل ائیرپورٹ حملے میں تیرہ امریکی فوجیوں سمیت ایک سو ستر افغان باشندے ہلاک ہوگئے تھے۔ آصف ہارون کے مطابق تب سے داعش کمانڈر شریف اللہ نا صرف امریکی خفیہ ایجنسیوں کا اہم ہدف تھا، بلکہ روس، برطانیہ، لیبیا، ایران ، ترکی، فرانس، جرمنی اور کینیڈا سمیت ستر ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس مین ہنٹ میں شامل تھیں۔ کیونکہ داعش اس وقت دنیا بھر کے لئے ایک سنگین خطرے کے طور پر ابھری ہے۔ شریف اللہ، داعش کے جس نیٹ ورک سے منسلک تھا، اس کی شاخیں درجنوں ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ تمام تر کوششوں کے باوجود یہ ستر ممالک شریف اللہ کو پکڑنے سے قاصر رہے اور آخرکار یہ کارنامہ پاکستان نے انجام دیا اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اپنا لوہا منوایا ،جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ مستقبل میں اس جنگ میں پاکستان ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہوگا۔ آصف ہارون کے بقول پاکستان نے شریف اللہ کو بلوچستان میں پاک افغان بارڈر کے ملحقہ علاقے سے گرفتار کرکے مکمل انٹیروگیشن کے بعد امریکہ کے حوالے کیا۔ ایئرپورٹ گیٹ خودکش حملے اور ماسکو حملے سمیت دہشت گردی کے دیگر واقعات کے اعترافات بھی وہ پاکستانی تفتیش کاروں کے سامنے کرچکا تھا، جسے امریکی انٹیلی جنس نے ری چیک کرکے درست قرار دیا۔ اور اب امریکی ایف بی آئی کی ٹیم اور ورجینیا کی عدالت کے روبرو بھی شریف اللہ نے یہ سارے اعترافات کرلئے ہیں۔ پاکستان میں انٹیروگیشن کے دوران داعش کمانڈر نے اپنے مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے بھی انکشافات کئے تھے، جس کی مزید تحقیقات اب امریکی حکام کریں گے۔ ’’یہ بات تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہے کہ امریکہ کے مخالفین کو پکڑنے میں ہم ہمیشہ سے مستعد رہے ہیں،ہاں البتہ لیاقت علی خان ، جنرل ضیاء الحق ،بے نظیر بھٹو ،مولانا یو سف لدھیانوی ،مفتی نظام الدین شامزئی ،مفتی جمیل خان،مولانا عبداللہ ،مولانا حسن جان ،مولانا نور محمدسے لے کر مولانا سمیع الحق اور مولانا حامد الحق تک سینکڑوں علماء و مشائخ کے قاتل کہاں ہیں؟آج تک یہ راز کوئی نہ جان سکا،تو کیوں ؟ سنا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے داعش کمانڈر شریف اللہ حوالے کرنے پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا ہے،اور یقینا ہماری حکومت اس ’’شکریہ‘‘پر پھولے نہ سما رہی ہو گی، کوئی شہباز حکومت سے پوچھ کر بتائے کہ انہوں نے پاکستانی قوم کو کس کے حوالے کر دیا ہے کہ اس قوم کے پیرو جوان ، علماء اور سیکورٹی اہلکار خون میں نہاتے چلے جا رہے ہیں۔‘‘
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: داعش کمانڈر شریف اللہ کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے کر انٹیلی جنس امریکہ کے امریکا کے کے مطابق کے بعد
پڑھیں:
یونیسکو رکنیت ترک کرنے کا امریکی فیصلہ کثیرالفریقیت سے متضاد، آزولے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے امریکہ کی جانب سے ادارے کی رکنیت چھوڑنے کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے کثیرالطرفہ نظام کے بنیادی اصولوں سے متضاد قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر کی جانب سے لیے گئے اس فیصلے سے ملک میں ادارے کے بہت سے شراکت داروں کو نقصان ہو گا جن میں عالمی ثقافتی ورثے میں شمولیت کے خواہش مند علاقوں کے لوگ، تخلیقی شہروں کا درجہ اور یونیورسٹیوں کی چیئر شامل ہیں۔
Tweet URLڈائریکٹر جنرل نے اس فیصلے کو افسوسناک اور متوقع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ادارہ نجی و تعلیمی شعبوں اور غیرمنفعی اداروں میں اپنے امریکی شراکت داروں کے تعاون سے کام جاری رکھے گا اور اس معاملے پر امریکہ کی حکومت اور کانگریس کے ساتھ سیاسی بات چیت کرے گا۔
(جاری ہے)
خود انحصاری اور غیرمعمولی کامآدرے آزولے کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ادارہ اپنے ہاں کئی بڑی اور بنیادی نوعیت کی اصلاحات لایا ہے اور اس نے مالی وسائل کے حصول کے ذرائع کو متنوع بھی بنایا ہے۔ 2018 سے جاری ادارے کی کوششوں کی بدولت امریکہ کے مہیا کردہ مالی وسائل پر انحصار میں کمی آئی جو اس وقت یونیسکو کے مجموعی بجٹ کا 8 فیصد ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے بعض اداروں کا 40 فیصد بجٹ امریکہ مہیا کرتا رہا ہے۔
اس وقت ادارہ مالیاتی اعتبار سے کہیں بہتر طور پر محفوظ ہے اور اسے رکن ممالک کی بڑی تعداد سمیت بہت سے نجی اداروں اور افراد کا مالی تعاون بھی میسر ہے جبکہ 2018 کے بعد اسے دیے جانے والے عطیات دو گنا بڑھ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں، اس موقع پر ادارہ اپنے عملے کی تعداد میں کمی بھی نہیں کر رہا۔
2017 میں بھی صدر ٹرمپ کی جانب سے یونیسکو کی رکنیت چھوڑنے کا فیصلہ آنے کے بعد ادارے نے ہر جگہ فروغ امن کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کیا اور اپنی ذمہ داریوں کی اہمیت ثابت کی۔
ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ اُس دوران ادارے نے عراقی شہر موصل کے قدیم حصے کی تعمیرنو کرائی جو ادارے کی تاریخ کا سب سے بڑا کام تھا۔ علاوہ ازیں مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات پر پہلا اور واحد عالمی معاہدہ بھی منظور کرایا گیا اور یوکرین، لبنان اور یمن سمیت جنگ سے متاثرہ تمام ممالک میں ثقافتی ورثے کی حفاظت اور تعلیم کے لیے پروگرام شروع کیے۔
یہی نہیں بلکہ، یونیسکو نے حیاتیاتی تنوع اور قدرتی ورثے کی حفاظت اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بھی اپنے اقدامات میں اضافہ کیا۔امریکی دعووں کی تردیدان کا کہنا ہےکہ امریکہ نے یونیسکو کی رکنیت چھوڑنے کی جو وجوہات پیش کی ہیں وہ سات سال پہلے بیان کردہ وجوہات سے مماثل ہیں جبکہ حالات میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے، سیاسی تناؤ کم ہو گیا ہے اور آج یہ ادارہ ٹھوس اور عملی کثیرالطرفہ طریقہ ہائے کار پر اتفاق رائے کا ایک غیرمعمولی فورم بن چکا ہے۔
امریکہ کی جانب سے رکنیت چھوڑنے کے موقع پر کیے گئے دعوے ہولوکاسٹ سے متعلق دی جانے والی تعلیم اور یہود مخالفت کو روکنے کے لیے یونیسکو کی کوششوں کی حقیقت سے بھی متضاد ہیں۔
یونیسکو اقوام متحدہ کا واحد ادارہ ہے جو ان موضوعات اور مسائل پر کام کرتا ہے اور واشنگٹن ڈی سی میں واقع امریکہ کے ہولوکاسٹ میموریل میوزیم، عالمی یہودی کانگریس بشمول اس کے امریکی شعبے اور امریکی یہودی کمیٹی (اے جے سی) جیسے اداروں نے بھی اس کام کو سراہا ہے۔
علاوہ ازیں، یونیسکو نے 85 ممالک کو ہولوکاسٹ اور نسل کشی کے بارے میں طلبہ کو آگاہی دینے اور اس سے انکار اور نفرت کے اظہار کو روکنے کے لیے درکار ذرائع اور اساتذہ کی تربیت کا اہتمام بھی کیا ہے۔آدرے آزولے نے کہا ہے کہ وسائل کی کمی کے باوجود یونیسکو اپنا کام جاری رکھے گا اور اس کا مقصد دنیا کے تمام ممالک کا اپنے ہاں خیرمقدم کرنا ہے جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔