اگر ایران ایٹمی ہتھیار بنانا چاہے تو امریکہ روک نہیں سکتا، آیت اللہ سید علی خامنہ ای
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
طلباء سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر کیطرف سے مذاکرات کی دعوت عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے، وہ دنیا کو فریب دیکر باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہم مذاکرات پر آمادہ ہیں، امن اور صلح چاہتے ہیں لیکن ایران راضی نہیں ہے، ایران مذاکرات پر کیوں آمادہ نہیں؟ یہ تم ہو جو پیچھے ہٹ جاتے ہو۔ اسلام ٹائمز۔ رہبر انقلاب اسلامی نے تہران میں رمضان المبارک کی مناسبت سے یونیورسٹی طلبہ سے ملاقات میں گفتگو کے دوران فرمایا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر یہ کہہ کر کہ ایران مذاکرات نہیں کرنا چاہتا عالمی رائے عامہ کو فریب دینا چاہتے ہیں۔
آج ہمارے عظیم بھائی موجود نہیں ہیں:
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طلبہ سے گفتگو میں فرمایا کہ گزشتہ سال جب یہ ملاقات ہوئی تھی اس وقت ہماری صورتحال مختلف تھی، پچھلے سال جب ہم نے آپ طلبہ سے ملاقات کی تو شہید رئیسی زندہ تھے، شہید سید حسن نصر اللہ رحمۃ اللہ علیہ ہمارے ساتھ تھے، شہید ہنیہ، شہید صفی الدین، شہید سنوار، شہید ضائف اور دیگر کئی نامور انقلابی شخصیات ہمارے درمیان موجود تھیں، جو اب موجود نہیں ہیں۔
انہوں نے فرمایا کہ ہمارے دشمنوں، مخالفوں اور حریفوں نے اپنی سطحی فکر کیوجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں ان واقعات سے منفی اور غلط تاثر لیا ہے، لیکن میں آپ کو پورے اعتماد کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ درست ہے کہ ہمارے بھائی بہت قیمتی تھے اور ان کی عدم موجودگی واقعی ہمارے لیے بڑا نقصان ہے، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس سال جب ہمارے پاس یہ لوگ نہیں ہیں تو اس کے باوجود پچھلے سال کے مقابلے ہم کچھ مسائل میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں اور کچھ مسائل میں ہم قوی تر نہیں ہیں تو کمزور بھی نہیں ہیں۔
دو ضروری عوامل:
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس مختلف پہلوؤں، مختلف جہتوں سے طاقت اور صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے، جو ہمارے پاس پچھلے سال نہیں تھی، بے شک ان پیاروں کی عدم موجودگی ایک نقصان ہے، مغربی ایشیائی خطے میں رونما ہونے والے واقعات تلخ اور تکلیف دہ ہیں، لیکن خدا کا شکر ہے، اسلامی جمہوریہ اپنی طاقت میں اضافہ، ترقی اور پیش رفت جاری رکھے ہوئے ہے، ان عظیم کرداروں کا کھو جانا بڑا نقصان ہے، لیکن اگر عظیم مقصد اور اس کے حصول کی کوشش یہ دو شرائط موجود ہیں تو مجموعی طور پر تحریک متاثر نہیں ہوگی۔
رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ ہجرت کے تیسرے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احد کی جنگ میں حضرت حمزہ جیسے شخص کو کھو دیا، حضرت حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ چھوڑ گئے، یہ صرف حمزہ نہیں تھے، ان لوگوں میں سب سے نمایاں حمزہ تھے اور پھر دوسرے بہادر لوگ، دوسرے ساتھی بھی بچھڑ گئے، لیکن ہجرت کے چوتھے اور پانچویں سال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہجرت کے تیسرے سال کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط تھے۔
انہوں نے فرمایا کہ ممتاز شخصیات کے چھن جانے کا مطلب کسی بھی طرح سے دھچکا لگنا، عقب ماندگی یا کمزوری نہیں ہے، اگر آپ کے پاس عظیم مقصد اور اس کے حصول کی کوشش جیسے دو عوامل موجود ہیں تو تحریک جاری رہتی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اگر یہ دو عوامل کسی قوم میں موجود ہوں تو اس کے باوجود کہ شخصیات کی موجودگی یا عدم موجودگی نقصان کا باعث ہوتی ہے، لیکن مجموعی تحریک کو نقصان نہیں پہنچتا۔
نئی نسل مسائل کو سمجھنے اور سب سے آگے کھڑے ہونے کے حوالے سے پچھلی نسل سے بہت بہتر ہے:
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے رمضان المبارک کی مناسبت سے طلباء سے ملاقات میں فرمایا کہ آج کی یونیورسٹی انقلاب سے پہلے کی یونیورسٹی سے اور انقلاب کے 20 سال بعد کی یونیورسٹی سے بہت مختلف ہے، آج یونیورسٹی آگے جا چکی ہے، اب بہت ترقی ہو چکی اور بہتری آ چکی ہے، مختلف مسائل کے بارے میں اس نسل کی سمجھ زیادہ عمیق اور گہری ہے اور موجودہ نسل میں مقاومت کا پہلو بھی مضبوط ہے، یہ اس کے برعکس ہے جو بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ ایرانی طلباء اور نوجوانوں کی نئی نسل 1960 کی دہائی کی طرح تیار نہیں ہے، ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ یہ آمادگی آج بھی موجود ہے، ہم نے اسے مختلف صورتوں میں مشاہدہ کیا ہے اور آج بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی نوجوان دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، وہ آمادہ ہیں، ان کی فہم و فراست بہتر ہے، اللہ کا شکر ہے۔
عالمی غنڈے اپنی رائے مسلط کرنا چاہتے ہیں:
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طلباء سے ملاقات میں فرمایا کہ آج دنیا کے غنڈے کہتے ہیں کہ ہر ایک کو ہماری اطاعت کرنی چاہیے اور اپنے مفادات پر ان غنڈوں کے مفادات کو ترجیح دینا چاہیے، لیکن اسلامی ایران واحد ملک ہے جس نے اس بات کو واضح طور پر رد کیا ہے۔
امریکی صدر عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینا چاہتا ہے:
رہبر معظم انقلاب نے طلباء سے ملاقات میں فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر کیطرف سے مذاکرات کی دعوت عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے، وہ دنیا کو فریب دیکر باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہم مذاکرات پر آمادہ ہیں، امن اور صلح چاہتے ہیں لیکن ایران راضی نہیں ہے، ایران مذاکرات پر کیوں آمادہ نہیں؟ یہ تم ہو جو پیچھے ہٹ جاتے ہو۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ ہم نے کئی سالوں تک بیٹھ کر بات چیت کی، اسی شخص نے تیار شدہ، مکمل، دستخط شدہ معاہدے کو اٹھا کر پھینک دیا اور اسے پھاڑ دیا، ہم جانتے ہیں کہ یہ مذاکرات کی دعوت کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ رکھتا ہے تو امریکہ اسے روک نہیں سکتا، یہ حقیقت ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں تو اس کی وجہ ہماری اپنی مرضی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: طلباء سے ملاقات میں انقلاب اسلامی نے رہبر معظم انقلاب اسلامی جمہوریہ میں فرمایا کہ نے فرمایا کہ مذاکرات پر امریکی صدر اللہ علیہ چاہتے ہیں نہیں ہیں انہوں نے کی کوشش نہیں ہے ہیں تو ہیں کہ
پڑھیں:
پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو۔
قطری دارالحکومت دوحا میں عرب اسلامی ہنگامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر عرب ٹی وی الجزیرہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اسحاق ڈار نے قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قوانین، اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور مسلم دنیا کی خودمختاری کے خلاف سنگین اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مسلم دنیا نے صرف بیانات پر اکتفا کیا تو 2 ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے ممالک اپنی عوام کی نظروں میں ناکام ٹھہریں گے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل ایک بے قابو ریاست بن چکی ہے جو ایک کے بعد دوسرے مسلم ملک کی خودمختاری کو چیلنج کر رہی ہے۔ آپ نے لبنان، شام، ایران اور اب قطر پر حملہ دیکھا۔ یہ روش ناقابلِ قبول ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ قطر اس حملے کے وقت امریکی اور مصری ثالثی کے ساتھ امن مذاکرات میں مصروف تھا اور اسی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے یہ حملہ کیا گیا۔
اسحاق ڈار نے 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف قراردادوں اور بیانات کا وقت نہیں ہے، اب ایک واضح لائحۂ عمل درکار ہے کہ اگر اسرائیل اپنی جارحیت نہ روکے تو کیا اقدامات کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے فوری طور پر صومالیہ اور الجزائر کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خصوصی اجلاس طلب کروایا اور جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کو بھی متحرک کیا ہے۔
انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ فوجی اقدام آخری راستہ ہوتا ہے جب کہ پاکستان کی ترجیح ہمیشہ امن، بات چیت اور سفارتکاری رہی ہے، تاہم اگر بات چیت ناکام ہو جائے اور جارحیت رکنے کا نام نہ لے تو پھر مؤثر عملی اقدامات ضروری ہوں گے ، جن میں اقتصادی پابندیاں، قانونی چارہ جوئی، یا علاقائی سیکورٹی فورس کی تشکیل بھی شامل ہو سکتی ہے۔
پاکستان کی جوہری طاقت کے تناظر میں سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ ہماری جوہری طاقت محض دفاعی صلاحیت ہے، کبھی استعمال نہیں کی اور نہ ہی ارادہ رکھتے ہیں، لیکن اگر ہماری خودمختاری پر حملہ ہوا، تو ہم ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے وہ کوئی بھی ملک ہو۔
اسرائیل کی طرف سے قطر پر حملے کو بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی سے تشبیہ دینے پر اسحاق ڈار نے اسے ایک توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ وہ آپریشن کیا تھا۔ پاکستان خود دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار اور سب سے بڑا فریق رہا ہے۔
بھارت سے متعلق گفتگو میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ کشمیر ایک تسلیم شدہ تنازع ہے جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ بھارت کا آرٹیکل 370 کا خاتمہ اور جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنا جیسے متنازع اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ انڈس واٹر ٹریٹی سے انخلا کا کوئی اختیار بھارت کو حاصل نہیں ۔ اگر بھارت نے پانی کو ہتھیار بنایا تو یہ اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس معاملے کو قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھتا ہے اور کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 7 تا 10 مئی کے درمیان پاک بھارت جھڑپوں میں پاکستان نے واضح دفاعی برتری دکھائی اور بھارت کا خطے میں سکیورٹی نیٹ کا دعویٰ دفن ہو گیا۔
افغانستان کے ساتھ تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ تجارت، معاہدوں اور ریلوے منصوبوں میں پیش رفت ہوئی ہے، لیکن افغانستان میں ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسے عناصر کی موجودگی ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یا تو ان دہشتگردوں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے یا افغانستان سے نکالا جائے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر جیسے تنازعات کی عالمی قراردادوں پر عمل نہیں ہو رہا، اگر اقوام متحدہ کے فیصلے محض کاغذی بن کر رہ جائیں تو پھر عالمی ادارے کی ساکھ کہاں بچتی ہے؟ انہوں نے زور دیا کہ سلامتی کونسل میں اصلاحات اور ایسے ممالک کے خلاف سخت اقدامات ضروری ہیں جو اس کے فیصلے نظرانداز کرتے ہیں۔
انٹرویو کے اختتام پر وزیر خارجہ نے زور دیا کہ اس وقت سب سے اہم اور فوری اقدام غیر مشروط جنگ بندی اور غزہ میں انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہر لمحہ قیمتی ہے، ہر جان کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔