طلباء سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر کیطرف سے مذاکرات کی دعوت عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے، وہ دنیا کو فریب دیکر باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہم مذاکرات پر آمادہ ہیں، امن  اور صلح چاہتے ہیں لیکن ایران راضی نہیں ہے، ایران مذاکرات پر کیوں آمادہ نہیں؟ یہ تم ہو جو پیچھے ہٹ جاتے ہو۔ اسلام ٹائمز۔ رہبر انقلاب اسلامی نے تہران میں رمضان المبارک کی مناسبت سے یونیورسٹی طلبہ سے ملاقات میں گفتگو کے دوران فرمایا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر یہ کہہ کر کہ ایران مذاکرات نہیں کرنا چاہتا عالمی رائے عامہ کو فریب دینا چاہتے ہیں۔ 

آج ہمارے عظیم بھائی موجود نہیں ہیں: 
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طلبہ سے گفتگو میں فرمایا کہ گزشتہ سال جب یہ ملاقات ہوئی تھی اس وقت ہماری صورتحال مختلف تھی، پچھلے سال جب ہم نے آپ طلبہ سے ملاقات کی تو شہید رئیسی زندہ تھے، شہید سید حسن نصر اللہ رحمۃ اللہ علیہ ہمارے ساتھ تھے، شہید ہنیہ، شہید صفی الدین، شہید سنوار، شہید ضائف اور دیگر کئی نامور انقلابی شخصیات ہمارے درمیان موجود تھیں، جو اب موجود نہیں ہیں۔ 

انہوں نے فرمایا کہ ہمارے دشمنوں، مخالفوں اور حریفوں نے اپنی سطحی فکر کیوجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں ان واقعات سے منفی اور غلط تاثر لیا ہے، لیکن میں آپ کو پورے اعتماد کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ درست ہے کہ ہمارے بھائی بہت قیمتی تھے اور ان کی عدم موجودگی واقعی ہمارے لیے بڑا نقصان ہے، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس سال جب ہمارے پاس یہ لوگ نہیں ہیں تو اس کے باوجود پچھلے سال کے مقابلے ہم کچھ مسائل میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں اور کچھ مسائل میں ہم قوی تر نہیں ہیں تو کمزور بھی نہیں ہیں۔

دو ضروری عوامل:
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس مختلف پہلوؤں، مختلف جہتوں سے طاقت اور صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے، جو ہمارے پاس پچھلے سال نہیں تھی، بے شک ان پیاروں کی عدم موجودگی ایک نقصان ہے، مغربی ایشیائی خطے میں رونما ہونے والے واقعات تلخ اور تکلیف دہ ہیں، لیکن خدا کا شکر ہے، اسلامی جمہوریہ اپنی طاقت میں اضافہ، ترقی اور پیش رفت جاری رکھے ہوئے ہے، ان عظیم کرداروں کا کھو جانا بڑا نقصان ہے، لیکن اگر عظیم مقصد اور اس کے حصول کی کوشش یہ دو شرائط موجود ہیں تو مجموعی طور پر تحریک متاثر نہیں ہوگی۔

رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ ہجرت کے تیسرے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احد کی جنگ میں حضرت حمزہ جیسے شخص کو کھو دیا، حضرت حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ چھوڑ گئے، یہ صرف حمزہ نہیں تھے، ان لوگوں میں سب سے نمایاں حمزہ تھے اور پھر دوسرے بہادر لوگ، دوسرے ساتھی بھی بچھڑ گئے، لیکن ہجرت کے چوتھے اور پانچویں سال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہجرت کے تیسرے سال کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط تھے۔

انہوں نے فرمایا کہ ممتاز شخصیات کے چھن جانے کا مطلب کسی بھی طرح سے دھچکا لگنا، عقب ماندگی یا کمزوری نہیں ہے، اگر آپ کے پاس عظیم مقصد اور اس کے حصول کی کوشش جیسے دو عوامل موجود ہیں تو تحریک جاری رہتی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اگر یہ دو عوامل کسی قوم میں موجود ہوں تو اس کے باوجود کہ شخصیات کی موجودگی یا عدم موجودگی نقصان کا باعث ہوتی ہے، لیکن مجموعی تحریک کو نقصان نہیں پہنچتا۔ 

نئی نسل مسائل کو سمجھنے اور سب سے آگے کھڑے ہونے کے حوالے سے پچھلی نسل سے بہت بہتر ہے:
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے رمضان المبارک کی مناسبت سے طلباء سے ملاقات میں فرمایا کہ آج کی یونیورسٹی انقلاب سے پہلے کی یونیورسٹی سے اور انقلاب کے 20 سال بعد کی یونیورسٹی سے بہت مختلف ہے، آج یونیورسٹی آگے جا چکی ہے، اب بہت ترقی ہو چکی اور بہتری آ  چکی ہے، مختلف مسائل کے بارے میں اس نسل کی سمجھ زیادہ عمیق اور گہری ہے اور موجودہ نسل میں مقاومت کا پہلو بھی مضبوط ہے، یہ اس کے برعکس ہے جو بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ ایرانی طلباء اور نوجوانوں کی نئی نسل 1960 کی دہائی کی طرح تیار نہیں ہے، ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ یہ آمادگی آج بھی موجود ہے، ہم نے اسے مختلف صورتوں میں مشاہدہ کیا ہے اور آج بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی نوجوان دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، وہ آمادہ ہیں، ان کی فہم و فراست بہتر ہے، اللہ کا شکر ہے۔

عالمی غنڈے اپنی رائے مسلط کرنا چاہتے ہیں:
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طلباء سے ملاقات میں فرمایا کہ آج دنیا کے غنڈے کہتے ہیں کہ ہر ایک کو ہماری اطاعت کرنی چاہیے اور اپنے مفادات پر ان غنڈوں کے مفادات کو ترجیح دینا چاہیے، لیکن اسلامی ایران واحد ملک ہے جس نے اس بات کو واضح طور پر رد کیا ہے۔

امریکی صدر عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینا چاہتا ہے:
رہبر معظم انقلاب نے طلباء سے ملاقات میں فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر کیطرف سے مذاکرات کی دعوت عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے، وہ دنیا کو فریب دیکر باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہم مذاکرات پر آمادہ ہیں، امن  اور صلح چاہتے ہیں لیکن ایران راضی نہیں ہے، ایران مذاکرات پر کیوں آمادہ نہیں؟ یہ تم ہو جو پیچھے ہٹ جاتے ہو۔ انہوں نے مزید  فرمایا کہ ہم نے کئی سالوں تک بیٹھ کر بات چیت کی، اسی شخص نے تیار شدہ، مکمل، دستخط شدہ معاہدے کو اٹھا کر پھینک دیا اور اسے پھاڑ دیا، ہم جانتے ہیں کہ یہ مذاکرات کی دعوت کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ رکھتا ہے تو امریکہ اسے روک نہیں سکتا، یہ حقیقت ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں تو اس کی وجہ ہماری اپنی مرضی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: طلباء سے ملاقات میں انقلاب اسلامی نے رہبر معظم انقلاب اسلامی جمہوریہ میں فرمایا کہ نے فرمایا کہ مذاکرات پر امریکی صدر اللہ علیہ چاہتے ہیں نہیں ہیں انہوں نے کی کوشش نہیں ہے ہیں تو ہیں کہ

پڑھیں:

مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری

ڈاکٹر محمد حمید اللہ  دور جدید میں اسلامی قانون کے تصور جہاد پر کام کرنے والے اولین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اپنی شہرۂ آفاق کتاب The Muslim Conduct of State میں وہ ’جائز جنگوں‘ کی 5 قسمیں ذکر کرتے ہیں:

پہلے سے جاری جنگ کا تسلسل؛

دفاعی جنگیں؛

ہمدردانہ جنگیں؛

سزا کے طور پر لڑی جانے والی جنگیں؛ اور

نظریے کے لیے لڑی جانے والی جنگیں۔

ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی اکثر جنگیں پہلی قسم میں آتی ہیں کیونکہ جب ایک دفعہ مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو پھر صلح حدیبیہ تک ان کے درمیان کوئی امن کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق دفاعی جنگیں ہیں اس صورت میں لڑی جاتی ہیں جب یا تو دشمن نے مسلمانوں کے علاقے پر باقاعدہ حملہ کیا ہو یا اس نے ابھی حملہ تو نہ کیا ہو لیکن اس کا رویہ ’ناقابل برداشت‘ ہوچکا ہو۔  گویا ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق ’پیش بندی کا اقدام‘ (Pre-emptive Strike) دفاع میں شامل ہے اور غزوۂ بنی مصطلق، غزوۂ خیبر اور غزوۂ حنین کو اس کی مثال میں ذکر کرتے ہیں۔ اکثر مسلمان اہل علم کے نزدیک رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں پر جنگ مشرکین کی طرف سے مسلط کی گئی تھی، اس لیے وہ رسول اللہ ﷺ کی اکثر جنگوں کو دفاعی قرار دیتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر ، ڈاکٹر حمید اللہ کی ذکر کردہ پہلی 2 قسمیں اکثر اہل علم کے نزدیک ایک ہی قسم یعنی ’دفاع‘ ہے ۔

ریاست کا دفاع یا امت کا دفاع؟

ہمدردانہ جنگوں سے ڈاکٹر حمید اللہ  کی مراد وہ جنگیں ہیں جو مسلمانوں کے علاقے سے باہر مقیم مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ بہت سے اہل علم نے ان جنگوں کو بھی دفاع میں شامل سمجھا ہے۔ مثال کے طور پر شام سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے ’آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی‘ میں یہ موقف اختیار کیا ہے۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے بھی اپنی مشہور کتاب ’الجہاد فی الاسلام‘ میں ایسی جنگ کو ’مدافعانہ جہاد‘ کی ایک قسم کے طور پر ذکر کیا ہے۔ دفاع کے تصور پر اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ دفاع سے ڈاکٹر حمید اللہ کی مراد ’ریاست کا دفاع‘  ہے، جبکہ دیگر اہلِ علم کی مراد ’امت کا دفاع‘ ہے۔ معاصر دنیا میں مسلمان اصحابِ علم کے لیے سب سے بڑی الجھن یہی ہے کہ ریاست اور امت کے تصورات کو ایک دوسرے کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جائے؟

فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ حملے کی زد میں آئے ہوئے علاقے کے لوگ اگر حملے کے خلاف دفاع نہ کرسکتے ہوں تو ان کے مجاور علاقوں پر یہ فریضہ عائد ہوگا۔ پھر اگر وہ بھی دفاع کی اہلیت نہ رکھتے ہوں یا وہ فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی کریں تو ان کے بعد کے علاقوں پر فریضہ عائد ہوگا، یہاں تک کہ یہ فریضہ دنیا کے تمام مسلمانوں پر عائد ہوجائے گا۔ تاہم معاصر بین الاقوامی نظام چونکہ ’قومی ریاست‘ کے تصور پر قائم ہے، اس لیے امت کا تصور اس نظام کی بنیاد سے ہی متصادم ہے۔ آج جب امت 50 سے زائد ریاستوں میں بٹ گئی ہے، تو مظلوم مسلمانوں کے دفاع کا دینی فریضہ کیسے ادا کیا جائے؟

مظلوم کی مدد کےلیے جنگ

مظلوم کی مدد کے لیے کون سے طریقے اختیار کیے جائیں، اس کا انحصار حالات پر ہے۔ بعض اوقات محض اخلاقی مدد (مثلاً حملے کو ناجائز قرار دینا، حملے کی زد میں آئے ہوئے لوگوں کو مظلوم قرار دینا، دفاع کا فریضہ ادا کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنا وغیرہ) بھی کافی ہوتا ہے؛ اور بعض اوقات اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سفارتی مدد (جیسے بین الاقوامی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرنا، حملہ آوروں پر سیاسی دباؤ ڈالنا، اسے بین الاقوامی برادری میں تنہا کرنا وغیرہ ) بھی ضروری ہوتا ہے اور اس کے بغیر محض اخلاقی مدد سے کام نہیں چلتا۔ تاہم بعض حالات میں سفارتی اور سیاسی مدد بھی کافی نہیں ہوتی، بلکہ عملی مدد (جیسے مظلوموں تک ادویات کی رسائی، مہاجرین کی آباد کاری کے لیے کوشش کرنا، مزاحمت کرنے والوں کی مالی امداد، انھیں پناہ گاہیں فراہم کرنا وغیرہ) بھی لازم ہوجاتی ہے؛ اور بعض صورتوں میں باقاعدہ جنگ میں شرکت بھی ضروری ہوجاتی ہے۔ مختصراً یہ کہ مدد کی حیثیت فرض کفایہ کی ہو جاتی ہے اور  مدد کی مختلف صورتوں کو ضرورت کے مطابق اختیار کیاجائے گا۔

رہنما اصول اس سلسلے میں یہ ہے کہ کسی طور ظالموں کو واپس دھکیلنا اور مظلوموں کو بچانا ہے  اور  اس کے لیے جو اقدام ضروری ہو، وہ اٹھایاجائے گا۔ اگر حملے کا جواب بغیر فوجی مدد کے ممکن نہ ہو، تو محض اخلاقی یا سفارتی بلکہ مالی مدد سے بھی اعانت کا فرض ادا نہیں ہوگا۔ قرآن کے الفاظ اس معاملے میں بالکل واضح ہیں کہ مظلوموں کی مدد کے لیے فوجی طاقت استعمال کرنا بعض اوقات واجب ہوجاتا ہے اور یہ واجب صرف فوجی اعانت سے ہی ادا ہوتا ہے:

وَمَا لَكُمۡ لَا تُقَٰتِلُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلۡمُسۡتَضۡعَفِينَ مِنَ ٱلرِّجَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلۡوِلۡدَٰنِ ٱلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَآ أَخۡرِجۡنَا مِنۡ هَٰذِهِ ٱلۡقَرۡيَةِ ٱلظَّالِمِ أَهۡلُهَا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيّٗا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا (سورۃ النساء ، آیت75)

(تمھیں ہوا کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑرہے جو کمزور پاکر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی جانب سے ہمارا کوئی حامی اور مددگار پیدا کردے۔)

’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت‘

بعض ریاستوں اور ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اگر کسی ریاست میں انسانوں کے ایک بڑے گروہ کا قتل عام ہورہا ہو،  یا ان پر مظالم ڈھائے جارہے ہوں، تو ان کی مدد کے لیے کوئی دوسری ریاست مسلح کاروائی کرسکتی ہے۔ اسے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ مثال کے طو رپر 1998ء میں نیٹو نے سربیا پر جو بمباری کی اس کے لیے ایک جواز یہی ذکر کیا جاتا رہا۔ تاہم اکثر ریاستوں اور ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اس قسم کی کاروائی اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کرے، یا اس کی اجازت سے کوئی ریاست یا تنظیم کرے، تو وہ یقیناً جائز ہوگی مگر کوئی ریاست یا تنظیم اپنی جانب سے اس قسم کی کارروائی نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ریاست نے بھی اس قسم کی کاروائی میں تنہا  ’انسانی ہمدردی‘  کو ہی بنیاد نہیں بنایا، بلکہ دیگر جواز بھی ساتھ ساتھ فراہم کرنے کی کوشش کی، جیسے نیٹو کے رکن ممالک نے ایک جواز یہ پیش کیا تھا (جو قانوناً غلط تھا) کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے یہ کارروائی کررہے ہیں)۔

مسلمان ریاستوں کے درمیان اجتماعی دفاعی معاہدہ

ایک حل اس مسئلے کا یہ ہے کہ مسلمان ریاستیں آپس میں دفاعی معاہدات کرلیں اور یوں ان میں کسی ایک پر حملہ سب پر حملہ متصور ہو۔ اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ 51 کے تحت اس انتظام کی گنجائش ہے اور ’معاہدۂ شمالی اوقیانوس کی تنظیم‘ (NATO) اس انتظام کی کامیابی کی سب سے واضح دلیل ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے بھی ’نکاراگوا بنام امریکا‘ مقدمے کے فیصلے میں اس طریق کار کو جائز ٹھہرایا ہے۔ اس اجتماعی حق دفاع کے متعلق ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں قرب و بعد کی بات کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ کوئی سے دو یا زائد ممالک، جو مشترکہ مفاد رکھتے ہوں، آپس میں دفاعی معاہدہ کرکے اجتماعی حق دفاع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بحر شمالی اوقیانوس حائل ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس طریق کار سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

امت مسلمہ کے اجتماعی حق دفاع کے متعلق یہ بات اہم ہے کہ اس کی بنیاد کسی دفاعی معاہدے پر نہیں، بلکہ امت کے تصور پر ہے اور یہ امت پر اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے عائد کردہ فریضہ ہے۔ اس لیے اگر دو اسلامی ممالک میں دفاعی معاہدہ نہ بھی ہو، تو ان پر لازم ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں۔ تاہم موجودہ بین الاقوامی نظام اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر مسلمان ممالک آپس میں دفاعی معاہدات بھی کرلیں، تو وہ بہت سی پیچیدگیوں سے بچیں گے۔

تاہم ’اجتماعی حق دفاع‘ کے طریق کار کا فائدہ صرف ’ریاستیں‘  ہی اٹھاسکتی ہیں، جبکہ امت مسلمہ صرف مسلم ریاستوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ کئی ریاستوں میں مسلمان بطور اقلیت رہ رہے ہیں۔ نیز بعض علاقے ایسے ہیں جن پر طویل مدت سے کسی دوسری ریاست نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے۔ غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقے اس کی مثال ہیں۔ ان علاقوں میں آج جب مسلمان ظلم کا شکار ہیں،  تو ان کے دفاع کا فریضہ کیسے انجام دیا جائے؟ کیا ’اسلامی تعاون کی تنظیم‘ کے رکن 57 مسلمان ممالک صرف فلسطین کے دفاع کے لیے ایسا معاہدہ نہیں کرسکتے؟ واضح رہے کہ یہ تنظیم وجود میں ہی تب آئی تھی جب القدس پر اسرائیل کے قبضے کے بعد مسجد اقصیٰ کو جلانے کی مذموم کوشش کی گئی اور اس تنظیم کے منشور میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اس تنظیم کا ہیڈکوراٹر عارضی طور پر جدہ میں ہوگا اور القدس کی آزادی کے بعد وہیں اس کا ہیڈ کوارٹر ہوگا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد ہے، حافظ نعیم الرحمان
  • غزہ میں فلسطینیوں کیخلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہئے، ترکیہ
  • پہلگام میں بدترین دہشتگردانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں، جماعت اسلامی ہند
  • ایران مذاکرات میں سنجیدہ ہے، رافائل گروسی
  • بغداد، ایران-امریکہ مذاکرات کی حمایت کرتا ہے، فواد حسین
  • ملک کو بنانا ریپبلک بنا دیا،عدلیہ سمیت ہر ادارے کو تباہ کر دیا گیا،عمران خان
  • مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری
  • مودی حکومت وقف کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کررہی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
  • پی ٹی آئی کو کرش کرنے کے لیے ملک کو بنانا ریپبلک بنا دیا گیا ، بانی پی ٹی آئی
  • ’طعنہ دینے ہمارے ووٹوں سے ہی صد بنے‘بلاول بھٹو کی حکومت پر سخت تنقید سے متعلق رانا ثنا اللہ کا ردعمل