محکمہ داخلہ پنجاب کا تعلیمی نصاب میں گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ آگاہی شامل کرنے کی تجویز
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
لاہور:
محکمہ داخلہ پنجاب نے اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو ایک مراسلہ ارسال کیا ہے، جس میں تجویز دی گئی ہے کہ بچوں کو جنسی استحصال اور نامناسب رویوں سے محفوظ رکھنے کے لیے تعلیمی نصاب میں "گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ" آگاہی شامل کی جائے۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ حالیہ مہینوں میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر ایک جامع اور مؤثر آگاہی مہم کی ضرورت محسوس کی گئی ہے تاکہ بچوں کو اپنی حفاظت کے بارے میں تعلیم دی جا سکے اور وہ نامناسب رویوں کو پہچاننے اور رپورٹ کرنے کے قابل ہو سکیں۔
محکمہ داخلہ نے تجویز دی ہے کہ ابتدائی کلاسز کے نصاب میں ایک خصوصی ماڈیول شامل کیا جائے جو بچوں کو "گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ" کے حوالے سے آگاہ کرے اور انہیں ممکنہ استحصال اور بدسلوکی سے محفوظ رکھنے میں مدد دے۔
حکومت پنجاب نے متعلقہ اداروں کو ہدایت دی ہے کہ اس حساس معاملے پر فوری کارروائی کی جائے تاکہ بچوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس حوالے سے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو بھی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر آگاہی مہم چلائے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو اس حوالے سے شعور دیا جا سکے۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن اور پنجاب اسمبلی کی رکن سارہ احمد کا کہنا ہے کہ بچوں کو اس اہم موضوع پر تعلیم دینا نہایت ضروری ہے تاکہ وہ کسی بھی نامناسب رویے کو پہچان کر اس کی اطلاع دے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو پہلے ہی "گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ" کے حوالے سے آگاہی مہم جاری رکھے ہوئے ہے اور رمضان المبارک کے بعد اس میں مزید تیزی لائی جائے گی۔
سارہ احمد نے مزید کہا کہ جنسی استحصال کا شکار بچے زندگی بھر ذہنی اور جذباتی صدمے کا سامنا کرتے ہیں، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ انہیں ابتدا سے ہی اس بارے میں آگاہی دی جائے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اس مہم کے ذریعے بچوں کو محفوظ بنایا جائے گا اور معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جائے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حوالے سے بچوں کو کہ بچوں
پڑھیں:
ریاست کو شہریوں کی جان بچانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہو گا: لاہور ہائیکورٹ
لاہور (خبر نگار) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواستگزار کو فوری طور پر پولیس پروٹیکشن دینے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو اسے پولیس پروٹیکشن اس کا حق ہے۔ 10صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین میں شہریوں کی جان کا تخفظ مشروط نہیں بلکہ اسے ہر قیمت پر بچانا ہے۔ قرآن پاک میں بھی ہے کہ جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ ریاست کو اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہوگا۔ درخواست گزار کے مطابق وہ قتل کے متعدد کیسز میں بطور گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کا سٹار گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق مقدمے میں نامزد ایک ملزم کا پولیس مقابلہ ہو گیا، مقتول کی فیملی اسے دھمکیاں دے رہی ہے۔ آئی جی پنجاب نے رپورٹ جمع کرائی کہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے درخواستگزار کو دو پرائیوٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی، ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کی تحت پولیس پروٹیکشن کی 16مختلف کیٹگریز بنائی گئی ہیں، جن میں وزیر اعظم، چیف جسٹس، چیف جسٹس ہائیکورٹ، بیوروکریٹس سمیت دیگر شامل ہیں، پالیسی کے پیرا چار میں معروف شخصیات کو پولیس پروٹیکشن دینے کا ذکر ہے۔ آئی جی پولیس مستند رپورٹ پر 30 روز تک پولیس پروٹیکشن دے سکتا ہے، غیر ملکیوں اور اہم شخصیات کو سکیورٹی دینے کیلئے پنجاب سپشل پروٹیکشنز یونٹ ایکٹ 2016 لایا گیا۔ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، آرٹیکل 4 کے تحت ہر پولیس افسر پر شہریوں کے تحفظ کی قانونی ذمہ داری عائد ہے، اضافی پولیس کی تعیناتی صوبائی پولیس افسر کی منظوری سے مشروط ہوگی۔ درخواست گزار کاروباری ہونے کے ناطے سنگین دھمکیوں کے پیش نظر پولیس تحفظ کا حق رکھتا تھا، ایف آئی آرز میں گواہ ہونے کے باعث اسے پنجاب وِٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت بھی تحفظ دیا جا سکتا تھا، پنجاب کے تمام قوانین اور پالیسیز شہری کے تحفظ کے حق کی ضمانت دیتے ہیں۔ درخواست گزار کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب ہے۔ پولیس کسی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے۔ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے، حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔