یورپی عوام امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ میں پرعزم ہیں، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
پیرس:فروری کے بعد سے ، متعدد سوشل میڈیا پر “امریکی مصنوعات کے یورپی بائیکاٹ” کی بحث بڑی حد تک بڑھی ہے۔فن لینڈ کے معروف اخبار “کنٹری فیوچر” میں شائع ہونے والے ایک سروے کے مطابق تقریباً 50 فیصد فن لینڈ کے باشندے اب امریکہ پر اعتماد نہیں کرتے۔
سویڈن میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق، پانچ میں سے چار جواب دہندگان اپنی روزمرہ زندگی میں امریکی اشیا ء خریدنے سے گریز کرتے ہیں۔یورپ اور امریکہ طویل عرصے سے قریبی اتحادی رہے ہیں۔ اس بار، یورپی عوام امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ میں اتنے پرعزم کیوں ہیں؟وسیع تناظر میں ، اس کا تعلق گرین لینڈ کے بارے میں امریکی موقف ہے۔ کرسی صدارت پر براجمان ہونے سے قبل ہی ٹرمپ نے گرین لینڈ حاصل کرنے کی دھمکی دی تھی جو ڈنمارک کی انتظامیہ کے ماتحت ہے اور دعویٰ کیا تھا کہ طاقت کے استعمال سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ یورپی عوام کا ماننا ہے کہ یہ امریکہ کی جانب سے دوسرے ممالک کی خودمختاری میں غیر معقول مداخلت ہے۔یوکرین بحران ایک اور محرک ہے۔ جب امریکہ نے یورپ کو نظر انداز کرتے ہوئے روس کے ساتھ براہ راست بات چیت شروع کی تو فنانشل ٹائمز نے ایک مضمون میں کہا کہ یورپ “بچوں کی میز پر بیٹھا ہے۔
“اس کے علاوہ محصولات میں اضافہ بھی ایک سبب ہے جو یورپی لوگوں کی زندگیوں سے قریبی وابستہ ہے۔خودمختاری، سلامتی اور معیشت، یہ وہ تین بنیادی مفادات ہیں جنہیں یورپ سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے، امریکہ کی جانب سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں، ان کی تذلیل کی جا رہی ہے اور انہیں بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ظاہری طور پر یورپی “امریکی مصنوعات” کا بائیکاٹ کر رہے ہیں لیکن درحقیقت وہ یورپ میں امریکہ کی طرف سے پیدا کردہ “برائیوں” کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔اگر “امریکی ساختہ مصنوعات کا بائیکاٹ” شدت اختیار کرتا ہے تو سب سے زیادہ نقصان امریکی کمپنیوں کو ہوگا۔ اور بارہا جوابی اقدامات کے بعد، کثیر الجہتی تجارتی نظام بھی مکمل طور پر کمزور ہو سکتا ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امریکی مصنوعات
پڑھیں:
امریکہ نئے دلدل میں
اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ یمن پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کے آغاز میں مبالغہ آمیز دعوے کرنیوالے ڈونلڈ ٹرمپ کو اب یمن پر حملے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک عالمی سپر پاور کا یمن کے مجاہدین نے جس طرح مقابلہ کیا ہے، اس نے خطے سمیت عالمی سطح پر امریکی جنگی رعب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی صدارت کے پہلے سو دنوں میں ہونیوالی دیگر ناکامیوں کی فہرست میں یمن کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ تحریر: سید رضا میر طاہر
یمن کے خلاف امریکی فوجی آپریشن کے آغاز کے چند ہفتوں کے بعد امریکی میڈیا نے ٹرمپ انتظامیہ کی اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے آپریشن کے سنگین مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ 22 اپریل کو امریکی میگزین فارن پالیسی نے "حوثیوں کے خلاف ٹرمپ کی جنگ بے نتیجہ" کے عنوان سے ایک مضمون میں یمن میں انصار اللہ فورسز کے ٹھکانوں پر امریکی بحریہ کے غیر موثر حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے حوثیوں پر حملوں میں اضافے کے پانچ ہفتے بعد، ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے کئی بڑی مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یمن کے خلاف بیان بازی کے حقیقی نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ امریکی حملے اب تک اپنے دو بیان کردہ اہداف میں سے کسی ایک کو بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، یعنی بحیرہ احمر میں جہاز رانی کی آزادی کو بحال کرنا اور ڈیٹرنس کو دوبارہ قائم کرنا۔
امریکی حملوں کے باوجود بحیرہ احمر اور سویز کینال کے راستے جہاز رانی کم ہے، جس پر اب تک امریکہ کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے۔ یمنی ملیشیا نے بھی خطے میں اسرائیل اور امریکی جنگی جہازوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں اور ٹرمپ کے یمن کے "دلدل" میں داخل ہونے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل اور نیشنل ڈیفنس کونسل کے سربراہ مہدی المشاط نے 20 اپریل کو کہا ہے کہ یمن پر امریکی حملہ پہلے دن سے ہی ناکام ہوگیا ہے۔ امریکہ کو اس کے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والے اقدامات کی سزا دی جائے گی۔ ٹرمپ ہمیں اس دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں امریکہ کو اس دلدل میں رہنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیئے۔ امریکی عوام کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ٹرمپ نے امریکہ کو ناکامی سے دوچار کر دیا ہے۔
اس آپریشن پر اب تک امریکہ کو 1 بلین ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئی ہے جبکہ دوسری طرف مزاحمت جاری ہے اور یمنیوں نے اسرائیل اور امریکی جنگی جہازوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع ان حملوں کے بارے میں شفاف نہیں رہا ہے اور اس نے میڈیا کو بہت کم معلومات فراہم کی ہیں۔ یمن پر امریکی حملوں سے متعلق خفیہ معلومات کے افشا ہونے سے ملک کی عسکری قوتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ امریکہ کے ممتاز امریکی ذرائع ابلاغ نے بھی یمن کی فوج اور ہتھیاروں کی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے بارے میں امریکی محکمہ دفاع کے دعووں پر سوال اٹھایا ہے۔ اس حوالے سے CNN نے پینٹاگون کے ایک اہلکار کے حوالے سے خبر دی ہے کہ تحریک انصار اللہ کے پاس باقی ماندہ ہتھیاروں کی صحیح مقدار کا تعین کرنا مشکل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ انصار اللہ کے کچھ ٹھکانے تباہ ہوگئے ہیں، لیکن اس سے بحیرہ احمر میں حملے جاری رکھنے کی ان کی صلاحیت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ سی این این نے مذکورہ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ انصار اللہ اب بھی زیر زمین قلعہ بندی اور ہتھیاروں کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔ بہرحال ایسا لگتا ہے کہ یمن پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کے آغاز میں مبالغہ آمیز دعوے کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو اب یمن پر حملے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک عالمی سپر پاور کا یمن کے مجاہدین نے جس طرح مقابلہ کیا ہے، اس نے خطے سمیت عالمی سطح پر امریکی جنگی رعب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی صدارت کے پہلے سو دنوں میں ہونے والی دیگر ناکامیوں کی فہرست میں یمن کو بھی شامل کرنا ہوگا۔