گراں فروشی پر قابو پانے کے حکومتی دعوے محض اخباری بیانات ثابت ہوئے، علامہ مبشر حسن
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
سوشل میڈیا ٹیم کی افطار سے گفتگو کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم رہنما نے کہا کہ رمضان المبارک کے تقدس کے پیش نظر غیر مسلم ممالک اشیائے خورد و نوش کے نرخوں میں نمایاں کمی کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کھانے پینے کی چیزیں مہنگی کرکے روزہ داروں سے روٹی کا لقمہ بھی چھین لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ کراچی ڈویژن کے پولٹیکل سیکرٹری علامہ مبشر حسن نے کہا ہے کہ رمضان المبارک کے دوران گراں فروشی پر قابو پانے کے حکومتی دعوے محض اخباری بیان ثابت ہوئے ہیں، اشیائے خورد و نوش اور پھلوں کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں نے عام آدمی کو مشکلات میں جھکڑا ہوا ہے، ضلعی انتظامیہ نے عوام کو لوٹنے کی گراں فروشوں کوکھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کے تقدس کے پیش نظر غیر مسلم ممالک اشیائے خورد و نوش کے نرخوں میں نمایاں کمی کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کھانے پینے کی چیزیں مہنگی کرکے روزہ داروں سے روٹی کا لقمہ بھی چھین لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار صوبائی آفس میں سوشل میڈیا ٹیم کی افطار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔
علامہ مبشر حسن کا مزید کہنا تھا کہ رمضان المبارک کے دوران ملک کے تمام شہروں میں پرائس مجسٹریٹ بازاروں کا دورہ کریں اور چیزوں کی کوالٹی اور قیمتوں کا جائزہ لیا جائے، گراں فروشوں کو جگہ پر جرمانے کیے جائیں تو عوام کو اس مہنگائی کی اس اذیت سے نجات مل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذخیرہ اندوزوں کا بھی محاسبہ ہونا چاہیئے جو خود ساختہ مہنگائی کا باعث بنتے ہیں، روزمرہ اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنا حکومت کے انتظامی اداروں کی ذمہ داری ہے، ضلعی انتظامیہ کی دانستہ غفلت نے ناجائز منافع خوروں کے حوصلوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے، اگر ادارے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سرانجام دیں تو پھر طے شدہ نرخوں سے زائد قیمت پر خریدو فروخت کی کسی کو جرات نہیں ہوگی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہ رمضان المبارک کے
پڑھیں:
تنزانیہ میں اپوزیشن کا انتخابات کیخلاف ماننے سے انکار؛ مظاہروں میں 700 ہلاکتیں
تنزانیہ میں عام انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ملک گیر مظاہروں کا اعلان کیا تھا جو بدستور جاری ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چند روز قبل ہونے والے جنرل الیکشن میں صدر سمیعہ صولوہو حسن نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔
تاہم ان انتخابات میں صدر سمیعہ کے مرکزی حریف یا تو قید میں تھے یا انہیں الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا تھا۔ جس سے نتائج میں دھاندلی کے الزامات کو تقویت ملی تھی۔
اپوزیشن جماعت چادیما نے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے شفاف الیکشن کا مطالبہ کیا اور مظاہروں کا اعلان کیا تھا۔
جس پر صرف تنزانیہ کے دارالحکومت دارالسلام میں پُرتشدد مظاہروں کا سلسلہ تیسرے دن بھی جاری ہے۔ شہروں میں جھڑپوں کے دوران سیکڑوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔
اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس تشدد میں اب تک 700 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ حکومت نے تاحال کسی سرکاری اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کی گئی۔
مظاہرین نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا پولیس اور فوج نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور گولیاں چلائیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مظاہرین کی ہلاکتوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کو غیر ضروری طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کم از کم ایک سو ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
دارالسلام اور دیگر حساس علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں اور فوج کو سڑکوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال کو قابو میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور امن و امان کی بحالی اولین ترجیح ہے۔