پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کی متبادل انرجی کی نئی پالیسی مسترد کر دی
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
---فائل فوٹو
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی مرکزی ترجمان شازیہ مری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کی متبادل انرجی کی نئی پالیسی کو مسترد کر دیا ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے نیٹ میٹرنگ کے قوانین میں ظالمانہ تبدیلیاں قابلِ مذمت ہیں۔
شازیہ مری کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی والے صارفین کو 27 روپے فی یونٹ کے بجائے صرف 10 روپے فی یونٹ پر بجلی فروخت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، یہ عمل متبادل انرجی صارفین پر براہِ راست حملہ اور پاکستان کے قابلِ تجدید توانائی کے مستقبل سے غداری ہے۔
انہوں نے کہا کہ صارفین کو قومی گرڈ سے 65 روپے یا اس سے زائد فی یونٹ کے نرخوں پر بجلی خریدنے کے لیے پابند کیا جاتا ہے، وفاقی حکومت گرین انرجی پر جانے والے صارفین کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان سے کھلی جنگ کر رہی ہے، قیمتوں میں یہ 550 فیصد کا فرق ظالمانہ اور عام عوام کا معاشی استحصال ہے۔
اسلام آباد ای سی سی کی جانب سے منظور شدہ نئی.
شازیہ مری نے کہا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے پاور سیکٹر میں موجود مافیاز، کرپشن اور نااہل افراد کی سرپرستی جاری ہے، نیٹ میٹرنگ سے عام صارفین پر 90 پیسے فی یونٹ کا بوجھ پڑتا ہے، جو ایک کھلا دھوکا ہے، حقیقت یہ ہے کہ 18 روپے فی یونٹ ’آئیڈل کپیسٹی پیمنٹس‘ اور 600 ارب روپے سالانہ بجلی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی میں ضائع ہو رہے ہیں۔
شازیہ مری کا کہنا ہے کہ ان سنگین مسائل کو حل کرنے کے بجائے، وفاقی حکومت ملک کو توانائی میں خود کفیل بنانے والوں کو سزا دے رہی ہے، یہ پالیسی پاکستان کی شمسی توانائی کی صنعت کو تباہ کر دے گی، جس سے گھریلو اور تجارتی صارفین کے لیے شمسی توانائی ناقابل عمل ہو جائے گی، یہ عمل قابل تجدید توانائی میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکے گی، اور فرسودہ اور ناکام گرڈ پر انحصار بڑھا دے گی۔
پی پی رہنما نے کہا ہے کہ حکومتی عمل عوام کو ناقابل برداشت نرخوں پر بجلی خریدنے پر مجبور ہے جبکہ گرین انرجی کے مواقع ختم ہوں گے، بند کمروں میں بیٹھ کر بغیر مشاورت کے کیے جانے والے فیصلے عوام کے بجائے طاقت ور لابیوں اور فوسل فیول انڈسٹری کے مفادات کے تحفظ کا عندیہ دیتے ہے، وفاقی حکومت کا یہ اقدام پاکستان کی توانائی کی خودمختاری اور معاشی آزادی پر براہِ راست حملہ ہے، وفاقی حکومت اس ظالمانہ پالیسی کو فوری طور پر واپس لے، ہم ذمے دار افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اسلام آباد وفاقی وزیر برائے پاور ڈویژن سردار...
انہوں نے کہا کہ حکومتی فیصلہ قابلِ تجدید توانائی کے مستقبل کو تباہ کر رہا ہے، وفاقی حکومت نے اپنی عوام دشمن پالیسی واپس نہ لی تو ہم اس کے خلاف عدالتی، سیاسی اور عوامی سطح پر سخت مزاحمت کریں گے، یہ صرف ایک توانائی پالیسی نہیں، بلکہ عوام کے خلاف معاشی جنگ ہے جس پر ہم خاموش نہیں رہیں گے، حکومت کو ہمارے مستقبل کو تجارتی مفادات کے ہاتھوں فروخت کرنا بند کرنا ہو گا۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: وفاقی حکومت کی شازیہ مری کے بجائے فی یونٹ نے کہا
پڑھیں:
سی پیک توانائی منصوبوں کے بقایاجات 423 ارب تک محدود
اسلام آباد:حکومت نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت قائم پاور پلانٹس کے بقایاجات کو رواں مالی سال کے اختتام تک 423 ارب روپے تک محدودکر دیا ہے، جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں صرف 22 ارب روپے یا 5.5 فیصد اضافہ ہے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق سال 2025 کے اختتام تک پاکستانی حکومت کی جانب سے چینی بجلی گھروں کو مجموعی طور پر 5.1 کھرب روپے کی ادائیگیاں کی جا چکی ہیں، جو کہ کل واجب الادارقم کا 92.3 فیصد بنتی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اصل واجب الادا رقم 300 ارب روپے سے کم ہے جبکہ باقی رقم ادائیگیوں میں تاخیر پر لگنے والے سودکی مد میں ہے، حکومت اس وقت مقامی بینکوں سے 1.3 کھرب روپے کے نئے قرضے حاصل کرنے کے عمل میں ہے تاکہ سرکاری، نجی اور چینی توانائی منصوبوں کو بقایاجات کی ادائیگی ممکن بنائی جا سکے۔
ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے قرضے کے حصول کے بدلے بجلی گھروں سے سودمعاف کرانے کی شرط رکھی ہے، تاہم چینی کمپنیاں اپنے داخلی ضوابط کے باعث سود معاف کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتیں،2015 کے سی پیک توانائی فریم ورک معاہدے کے تحت پاکستانی حکومت پر لازم ہے کہ وہ بجلی کی قیمت صارفین سے وصول ہو یا نہ ہو، چینی کمپنیوں کو مکمل ادائیگیاں کرے گی۔
معاہدے کے تحت حکومت کو بجلی کے بلوں کا 21 فیصد ایک ریوالونگ فنڈ میں رکھنا تھا، مگر سابق حکومت نے اکتوبر 2022 میں اس فنڈ میں سالانہ صرف 48 ارب روپے مختص کیے اور ماہانہ اخراج صرف 4 ارب روپے تک محدود رکھا، جس کے باعث موجودہ بقایاجات 423 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔
چینی حکومت نے بارہا معاملے کو سفارتی ذرائع سے پاکستان کے سامنے اٹھایا ہے، وزیراعظم شہباز شریف آئندہ ماہ چین کا دورہ کریں گے جہاں اس مسئلے کو اجاگرکرکے سرمایہ کاری بحال کرنے کی کوشش کی جائیگی۔