چینی طرز کی جدیدکاری عالمی امن میں نئے اور بڑے کردار ادا کر سکتی ہے، سابق وزیراعظم لبنان
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
چینی طرز کی جدیدکاری عالمی امن میں نئے اور بڑے کردار ادا کر سکتی ہے، سابق وزیراعظم لبنان WhatsAppFacebookTwitter 0 15 March, 2025 سب نیوز
بیجنگ :لبنان کے سابق وزیر اعظم حسن دیاب نے چائنا میڈیا گروپ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ چینی طرز کی جدیدکاری نہ صرف ایک ارب 40 کروڑ چینی عوام کی بہتر زندگی کی امنگوں کو پورا کر سکتی ہے بلکہ عالمی امن اور ترقی میں بھی نئے اور بڑے کردار ادا کر سکتی ہے۔ ایک کھلا چین عالمی سطح پر تیزی سے اہم کردار ادا کر رہا ہے، اور حقائق نے ثابت کر دیا ہے کہ چینی جدیدکاری نہ صرف چینیوں کو فائدہ پہنچاتی ہے، بلکہ دنیا کے لئے نئے مواقع بھی فراہم کرتی ہے.
جب بھی وہ چین آتے ہیں، وہ بہت کچھ سیکھتے ہیں اور چینی ثقافت کے بارے میں اپنی تفہیم کو گہرا کرتے ہیں.ان کے مطابق آپ چین کے جوش و جذبے اور دنیا کی دیگر ثقافتوں اور خطوں کے لئے کھلے پن کی خواہش کو محسوس کرسکتے ہیں۔
مسئلہ فلسطین کے حوالے سے دیاب نے کہا کہ فلسطینیوں کے لیے واحد حل یہ ہے کہ وہ 1967 کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد مملکت قائم کریں جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ تنازعہ کے خاتمے کا واحد راستہ فلسطینیوں کے لئے ایک فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔ چین ہمیشہ لبنان کا دوست اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کا دوست رہا ہے۔ عالمی طاقت کی حیثیت سے چین تنازعات کے پرامن حل میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کر سکتی ہے
پڑھیں:
مقاومت کو غیر مسلح کرنیکا مطلب لبنان کی نابودی ہے، امیل لحود
العھد نیوز ویب سے اپنی ایک گفتگو میں سابق لبنانی صدر کا کہنا تھا کہ کیا یہ عاقلانہ اقدام ہے کہ ہم ایسے حالات میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی بات کریں جب دشمن نے گزشتہ مہینوں میں طے پانے والے معاہدے کی ایک شرط بھی پوری نہیں کی؟۔ اسلام ٹائمز۔ سابق لبنانی صدر "امیل لحود" نے "العھد" نیوز ویب سے بات چیت میں اسرائیل کے ساتھ 33 روزہ جنگ کی سالگرہ پر اپنی عوام کو مبارکباد دی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ مقاومت کی چنگاری اب بھی روشن ہے۔ اس سال مذکورہ جنگ کی سالگرہ ایک نئے پہلو کے ساتھ آئی ہے اور وہ پہلو یہ ہے کہ لبنان و خطے کے حالات نے ثابت کیا کہ صیہونی دشمن کو مقاومت کے بغیر روکنا ناممکن ہے۔ انہوں نے استقامتی محاذ کے ہتھیاروں پر جاری مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیا یہ عاقلانہ اقدام ہے کہ ہم ایسے حالات میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی بات کریں جب دشمن نے گزشتہ مہینوں میں طے پانے والے معاہدے کی ایک شرط بھی پوری نہیں کی؟۔ امیل لحود نے خبردار کیا کہ کیا اس بات کا یہ حل ہے کہ ہم تمام دفاعی طاقت دشمن کے حوالے کر دیں تاکہ وہ لبنان کو تباہ کر سکے؟۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہم نے 33 روزہ جنگ میں اس لیے فتح حاصل کی کیونکہ ہم نے اس دوران فوج، قوم اور مزاحمت کا سنہری فارمولا بنایا۔ یہ فارمولا آج بھی کارآمد ہے اور کل بھی رہے گا۔
اپنی گفتگو کے اختتام پر سابق صدر نے کہا کہ یہ پہلا سال ہے جب ہم 33 روزہ جنگ کی سالگرہ منا رہے ہیں اور شہید سید حسن نصر الله اپنی روح کے ساتھ ہمارے ساتھ موجود ہیں۔ قبل ازیں امیل لحود نے کہا تھا کہ اسرائیل ایک نئی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور شاید یہ سمجھتا ہے کہ وہ تعلقات کی بحالی کے مرحلے تک پہنچ جائے گا۔ یہی امر لبنان کے اندر کچھ لوگوں کو جھوٹے خواب میں مبتلا کر رہا ہے۔ حالانکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرارداد 425 ناقص طور پر بھی نافذ نہیں ہوئی جس کی وجہ سے مزاحمت کو میدان عمل میں کودنا اور طاقت کا توازن تبدیل کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ مزاحمت کا کردار جاری رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مقاومت نہ ہوتی تو سال 2000ء میں جنوبی علاقوں کی آزادی ممکن نہ ہوتی۔ اب بھی مقبوضہ علاقوں سے دشمن کو مقاومت ہی باہر نکال سکتی ہے۔ امیل لحود نے کہا کہ جو لوگ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا خواب دیکھ رہے ہیں، اُن کا خواب کبھی پورا نہیں۔