متحدہ عرب امارات کی اسرائیل میں بڑی افطاری؛ یہودیوں کی بھی شرکت
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
متحدہ عرب امارات نے اسرائیلی دارالحکومت میں ایک گرینڈ افطاری کا اہتمام کیا جس میں دیگر مذہب کے افراد نے بھی شرکت کی۔
عرب میڈیا کے مطابق یہ افطار پارٹی متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں قائم سفارتخانے میں منعقد کی گئی۔
اس افطار کو بین المذاہب افطاری کا نام دیا گیا کیوں کہ اس میں یہودی، مسیحی اور دروز سمیت دیگر مذاہب کے ماننے والوں نے بھی شرکت کی۔
افطار میں اسرائیلی پارلیمان کے ارکان، حکومتی حکام اور معزز شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات نے 2021 میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے جس کے بعد سے ہر سال بین المذاہب افطار کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے سفیر کا کہنا ہے کہ یہ وہ موقع ہے جب تمام مذاہب کے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ جس سے رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: متحدہ عرب امارات
پڑھیں:
اقوام متحدہ نے رپورٹ میں اسرائیلی قیادت پر غزہ میں نسل کشی کا الزام عائد کردیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: اقوام متحدہ نے پہلی بار اپنی باضابطہ رپورٹ میں غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کو نسل کشی قرار دے دیا۔
اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن کی 72 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں منظم انداز میں قتلِ عام کیا، انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں، فلسطینیوں کو جبری بے دخل کیا اور حتیٰ کہ ایک فَرٹیلیٹی کلینک کو بھی تباہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی افواج گھروں، شیلٹرز اور محفوظ مقامات پر بمباری کر رہی ہیں، جس میں نصف سے زائد جاں بحق افراد خواتین، بچے اور بزرگ ہیں۔
رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں نہ صرف نسل کشی کی بلکہ دانستہ طور پر وہاں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کی کوشش بھی کی، اسرائیلی حکام اور فوج فلسطینی عوام کو جزوی یا مکمل طور پر ختم کرنے کے ارادے سے نسل کشی کر رہے ہیں۔
کمیشن کی سربراہ ناوی پیلی نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو، صدر اور سابق وزیر دفاع یواف گیلانٹ کے بیانات واضح شواہد فراہم کرتے ہیں کہ یہ اقدامات ریاستی پالیسی کے تحت کیے گئے، اس لیے اسرائیل کو اس نسل کشی کا براہِ راست ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل نے کمیشن کی تحقیقات کے آغاز سے ہی بائیکاٹ کیا تھا اور اب رپورٹ سامنے آنے کے بعد اسے ’’جھوٹا اور توہین آمیز‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں اب تک شہید فلسطینیوں کی مجموعی تعداد 64 ہزار 905 سے تجاوز کر گئی ہے جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہیں۔