کچھ ذکر، ہم سے بچھڑے اداکاروں کا
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
یادش بخیر! پاکستان فلم و ٹی وی انڈسٹری کے متعدد فنکاروں نے خوب نام کمایا لیکن اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے، میرے کالم میں جن شوبز شخصیات کا ذکر آئے گا، ان سے بہت محبت کا رشتہ رہا۔ اداکار عابد علی بہت نرم دل اور تعلیم یافتہ شخص تھے ان کی پہچان پی ٹی وی کا ڈرامہ ’’وارث‘‘ تھا۔ راقم کی جب بھی ان سے ملاقات ہوتی بہت ہی شفقت سے پیش آتے۔
ایک دن ان سے ٹی وی اسٹیشن پر ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے ’’ تم ٹی وی ڈرامے میں کام کیوں نہیں کرتے، آخر اشتہارات میں بھی تو کام کر رہے ہو‘‘ اس زمانے میں ایک معروف پروڈکٹ کے اشتہار میں کام کر رہا تھا اور ایکسپریس میں کالم بھی لکھتا تھا۔
یہ 2004 کی بات ہے، پھر ان کا ایک انٹرویو ایکسپریس کے لیے بھی کیا، میں نے ہمیشہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی، کبھی سیریس نہیں دیکھا، میں انھیں پیار سے پی ٹی وی کا دلیپ کمارکہتا تھا وہ کافی عرصے سے جگر کی بیماری میں مبتلا تھے جب ملاقات ہوتی کہتے’’ م۔ش۔خ ! دعا میں بہت تاثیر ہوتی ہے، تم میرے لیے دعا کیا کروں‘‘ وہ کراچی کے ایک بڑے اسپتال میں داخل تھے اور راقم ان کی عیادت کرنے ہر دوسرے تیسرے دن ضرور جاتا۔
ڈاکٹر سید علی ارسلان کا شمار پھیپھڑوں کے مرض کے حوالے سے پاکستان میں ایک مستند نام ہے اور بہت اچھے لکھاری ہیں۔ ڈرامہ سیریل آدم، ابن آدم، راستہ دے زندگی کے مصنف بھی ہیں اور ’’راستہ دے زندگی‘‘ کو پی ٹی وی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
عابد علی کا انتقال لیاقت نیشنل اسپتال میں ہوا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر علی ارسلان نے ان سے بہت محبت کا ثبوت دیا۔ پاکستان کے معروف مصنف علی سفیان آفاقی کے وہ بھتیجے بھی ہیں اور آج کل بھی وہیں ہوتے ہیں۔
اداکار عابد علی 17 مارچ 1952 میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے، محبت کرنے والے اور زندہ دل شخص تھے۔ 1973میں پی ٹی وی سے فنی زندگی کا آغاز کیا اور سیریل ’’جھوک سیال‘‘ میں انھوں نے لاجواب پرفارمنس دی۔ عابد علی کی وجہ شہرت ڈرامہ سیریل وارث تھی ان کی معروف سیریل غلام گردش، مہندی، سمندر، دوسرا آسمان، دشت ایک حقیقت سو افسانے اور دیگر سپرہٹ ڈرامے قابل ذکر ہیں۔
عابد علی نے پہلی بیوی سے علیحدگی کے بعد ٹی وی کی اداکارہ رابعہ نورین سے شادی کی۔ 1985 میں ان کی اعلیٰ کارکردگی پر تحفہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ آج سے 10 سال قبل راقم پی ای سی ایچ میں رہا کرتا تھا اور میرے قریب ہی موسیقار نیاز احمد ان کا شمار معروف موسیقاروں میں ہوتا تھا اکثر ان سے رات میں تفصیلی ملاقات ہوتی تھیں وہ کشمیر روڈ کے لان میں واک کرتے تھے اور کبھی کبھی مجھے بھی لے جاتے تھے۔
29 مئی 2019 میں مختصر بیماری کے بعد اپنے رب کی طرف لوٹ گئے نثار بزمی اکثر ان سے ملاقاتیں کرتے اس سے ہماری نالج میں موسیقی اور شوبزنس کے حوالے سے معلومات میں اضافہ ہوتا، مہدی حسن، نور جہاں، مہناز، احمد رشدی اور رونا لیلیٰ جیسے گلوکاروں کے وہ موسیقار رہے، وہ ہم سے کہتے کہ موسیقی اب دم توڑ رہی ہے۔ پوپ موسیقی نے سب کچھ الٹا کر دیا ہے مگر وہ پوپ موسیقی سے بہت ناامید تھے کیونکہ اس سے نوجوان نسل کی تربیت بگڑتی جا رہی ہے ویسے تو وہ بھی پوپ موسیقی کو تسلیم کر چکے تھے انھوں نے راقم کو بتایا کہ پیٹ تو پالنا ہے لہٰذا اب میں کام کرتا ہوں مگر موسیقی کے حوالے سے میں نے اب خاموشی اختیار کر لی ہے۔
ذہین طاہرہ بڑی فنکارہ تھیں، پی ٹی وی کے ڈراموں سے قبل وہ کافی عرصہ ریڈیو سے وابستہ رہیں، ریڈیو سے نشر ہونے والے ایک ڈرامے میں راقم نے ان کے ساتھ کام بھی کیا مگر ذہین طاہرہ بڑی صداکار تھیں اور ان سے ہم نے صداکاری کے حوالے سے بہت کچھ سیکھا۔
زیادہ تر کردار ماں، دادی، نانی کے انھوں نے ادا کیے۔ ریڈیو کے ایک پروگرام ’’آپ سے باتیں‘‘ میں ہم بھی ایک کردار ادا کر رہے تھے اور آپ قارئین یقین کریں انھوں نے ہماری بہت مدد کی اور بولنے کا سلیقہ سکھایا وہ ہر ایک کی مدد ہر لحاظ سے کر دیا کرتی تھیں بہت سی بچیوں کے انھوں نے خلوص دل سے رشتے کروائے اور میں سمجھتا ہوں یہ بہت بڑی نیکی ہے اور مزے کی بات دیکھیں کہ وہ ہر قسم کے کرداروں میں بہت خوبصورت اداکاری کرتی تھیں۔
مزاحیہ کرداروں میں بھی وہ اپنی مثال آپ تھیں۔کراچی یونیورسٹی میں بھی کبھی کوئی پروگرام ہوتا تو ضرور شرکت کرتی، یونیورسٹی میں ایک مزاحیہ ڈرامے میں انھوں نے کمال کر دکھایا جس کی رپورٹ ہم نے روزنامہ ایکسپریس میں بھی لکھی اور لوگوں نے ذہین طاہرہ کو خراج تحسین پیش کیا۔
ذہین طاہرہ بھارتی شہر لکھنو میں پیدا ہوئیں اور 2019 میں رب کی طرف لوٹ گئیں۔اداکارہ روحی بانو بڑی آرٹسٹ تھیں مگر افسوس کہ گھریلو حالات کی وجہ سے وہ نفسیاتی مریضہ بن گئی تھیں جب کہ انھوں نے ٹی وی ڈراموں میں تاریخی کردار ادا کیے مگر دکھ اس بات کا ہے کہ وہ اپنے عروج کے زمانے میں ہی کچھ صدمات کی وجہ سے ذہنی توازن میں کمی ہونے کے بعد وہ اداکاری کے شعبے سے دور ہوتی چلی گئیں۔
1998 میں کراچی کے ایسٹرن اسٹوڈیو میں فلم ساز عتیق ایک فلم کا آغاز کرنے والے تھے جس کا مرکزی کردار روحی بانو نے کرنا تھا۔ اس حوالے سے ہم ایسٹرن اسٹوڈیوگئے۔ فلم ساز عتیق صاحب سے ہماری دوستی تھی وہاں روحی بانو سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔
روحی بانو بہت سنجیدہ اداکارہ تھیں مگر بہت بااخلاق اور تہذیب دار تھیں ان سے ہم نے ایک تفصیلی انٹرویوکیا۔ زندگی سے نہ جانے کیوں مایوس نظر آتی تھیں۔ میں نے سوال کیا کہ آپ کا یہ عروج ہے کیسا لگتا ہے۔ افسردہ لہجے میں کہا کہ جناب جب دل کی کلیاں پھول بنے سے پہلے مرجھا جائیں تو اس زندگی کا کیا فائدہ ہے انھیں شوبزنس سے بہت گلا تھا۔
معذرت کے ساتھ تمام شوبزنس سے عمر رسیدہ فنکاروں کو بہت شکایتیں ہیں کہ اس میں وفا نہیں یہ صرف عروج کو کیش کراتے ہیں اور جہاں یہ دیکھتے ہیں کہ اب ان کا چراغ گل ہونے والا ہے تو ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
رنگیلا، لہری، منور ظریف، ننھا، نرالا، مسعود اختر، وحید مراد، روحی بانو ان سب کو حالات نے زندہ ہونے کے باوجود اندر خانہ مار دیا تھا۔ گلاب چانڈیو، مانا کہ چھوٹی اسکرین کے اداکار تھے مگر بڑے فنکار تھے۔ ان سے اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں وہ ہر ملاقات میں افسردہ دل سے ملتے افسوس تو اس بات کا ہے کہ آج تک عروج پانے والے فنکاروں نے کبھی اپنے سینئرز کے لیے کچھ نہیں کیا نہ کوئی تنظیم بنائی۔
گلاب چانڈیو نے بتایا تھا کہ میں نے کئی فنکاروں دوستوں سے کہا کہ میں فنکاروں کے لیے ایک تنظیم بنانا چاہتا ہوں ’’آپ کی مدد‘‘ کے نام سے مگر ہر ایک نے ہنس کر ٹال دیا کسی فنکار کے انتقال کے بعد کچھ نام نہاد لوگ خراج عقیدت کے ڈھیر لگا دیتے ہیں مگر کبھی کسی نے ان کے اہل خانہ کے لیے کچھ نہیں کیا۔
بقول گلاب چانڈیو کے کہ تعزیتی اجلاس بڑی خوبصورتی سے تشکیل دیے جاتے ہیں۔ یہ کسی المیہ سے کم نہیں۔ راقم کی حکومت سے درخواست ہے کہ فنکاروں کے لیے سرکاری سطح پر ایک فنڈ قائم کیا جائے، جس کے ذریعے ان اداکاروں کے لواحقین اپنی زندگی کچھ بہتر طریقے سے گزار سکیں اس میں کوئی شک نہیں کہ فنکار بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں، رب ان سب کی مغفرت کرے جن کا کالم میں تذکرہ کیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے حوالے سے ذہین طاہرہ انھوں نے عابد علی میں بھی کے بعد سے بہت کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
مرد نے پارٹنر اور اسکی 3 سالہ بیٹی کو گلا گھونٹ کر قتل کیا، لپ اسٹک سے دیوار پر اعتراف جرم تحریر کیا
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع ودیشا کے علاقے گنج باسوڈا میں ہونے والی ایک ہولناک واردات نے نہ صرف اہل علاقہ کو بلکہ پوری ریاست کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
بھارتی میڈیا ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق ایک شخص نے اپنی پارٹنر اور اس کی 3 سالہ معصوم بیٹی کو مبینہ طور پر گلا گھونٹ کر قتل کر دیا، اور پھر لاشوں کے ساتھ پوری رات ایک ہی کمرے میں بیٹھا رہا۔ ملزم نے جائے واردات پر ہی لپ اسٹک سے دیوار پر خونچکاں انداز میں اپنا اعتراف جرم بھی تحریر کیا۔
یہ بھی پڑھیے زہریلے مشروم کھلا کر ساس، سسر سمیت 3 رشتہ داروں کا قتل، آسٹریلوی خاتون پر جرم ثابت
مقتولہ کی شناخت اور پس منظرپولیس کے مطابق، 36 سالہ رام سخی کشواہا نامی خاتون، جو اپنے شوہر سے علیحدہ ہو چکی تھیں، پچھلے چند مہینوں سے راجا عرف انوج وِشواکرما نامی شخص کے ساتھ بغیر شادی کیے رہ رہی تھیں۔ دونوں کے درمیان گھریلو ناچاقی اور جھگڑوں کی اطلاعات پہلے بھی سامنے آتی رہی تھیں، تاہم کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ تعلق اس قدر خطرناک رخ اختیار کرے گا۔
قتل کا طریقہ اور جائے وقوعہ کی ہولناکییہ واردات گنج باسوڈا کے وارڈ نمبر 8 کے ایک مکان میں پیش آئی۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق، ملزم نے پہلے پارٹنر کو اور بعد میں اس کی 3 سالہ بیٹی مانوی کو گلا دبا کر قتل کیا۔ قتل کے بعد، ملزم نے جائے وقوعہ سے فرار ہونے کے بجائے لاشوں کے قریب رات بھر گزار دی۔
اعتراف جرم، دیوار پر لپ اسٹک سے تحریر کیاواردات کی سب سے چونکا دینے والی بات وہ اعتراف جرم ہے جو ملزم نے دیوار پر لپ اسٹک سے لکھا۔ دیوار پر درج الفاظ تھے:
’میں نے اسے مار ڈالا… اُس نے مجھ سے جھوٹ بولا… اس کے کسی اور سے تعلقات تھے…‘
یہ بھی پڑھیے ٹک ٹاک اکاؤنٹ ڈیلیٹ نہ کرنے پر باپ نے 16 سالہ بیٹی کو قتل کردیا
پولیس ذرائع کے مطابق، یہ پیغام جرم کے فوراً بعد تحریر کیا گیا تھا، جس نے تفتیش کاروں کے لیے ایک اہم سراغ مہیا کیا۔ فرانزک ٹیم نے موقع واردات سے تمام شواہد اکھٹے کر لیے ہیں، جن میں لپ اسٹک پر انگلیوں کے نشانات، دیوار پر لکھائی کی نوعیت اور لاشوں کی پوزیشن شامل ہیں۔
پولیس کا بیان اور گرفتاریایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ASP) پرشانت چوبے نے میڈیا کو بتایا ’رام سخی کشواہا اپنے شوہر سے علیحدہ ہو چکی تھیں اور وہ انوج وِشواکرما کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ ہمارے ابتدائی شواہد کے مطابق، دونوں ماں بیٹی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا ہے۔ ملزم کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور مزید تحقیقات جاری ہیں۔‘
نفسیاتی پہلو: ملزم کی ذہنی حالت زیرِ تفتیشپولیس نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ ملزم کی ذہنی کیفیت کا جائزہ لینے کے لیے ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ جرم کے بعد غیر معمولی سکون، لاشوں کے پاس ساری رات گزارنا اور دیوار پر تفصیلی اعتراف لکھنا، اس کے ذہنی توازن پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔
علاقے میں خوف و ہراس اور عوامی ردعملاس واقعے نے گنج باسوڈا اور اس کے اطراف کے علاقوں میں شدید خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے۔ مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ کبھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ ان کے پڑوس میں ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ لوگوں نے مقتولہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور ملزم کو سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت جرم و سزا لپ اسٹک سے اعتراف جرم مدھیہ پردیش