وادی کشمیر میں پُرامن مظاہرین پر پولیس کا تشدد، اسمبلی میں ہنگامہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
اتوار کو قاضی گنڈ میں لاپتہ نوجوان کی لاش ملنے کے بعد اہل خانہ نے احتجاج کیا، تاہم پولیس نے انہیں منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج کیا، جس میں خواتین کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر اسمبلی میں پیر کے روز اس وقت شدید ہنگامہ آرائی ہوئی جب جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع میں قبائلی نوجوان کی ہلاکت اور پولیس کی مبینہ زیادتی کا معاملہ اٹھایا گیا۔ اتوار کو قاضی گنڈ میں لاپتہ نوجوان کی لاش ملنے کے بعد اہل خانہ نے احتجاج کیا، تاہم پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج کیا، جس میں خواتین کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ پولیس افسر کی جانب سے کئے گئے مبینہ ناروا سلوک کی سخت مذمت کی جا رہی ہے اور اس پر جموں کشمیر پولیس نے تحقیقات کا بھی حکم دے دیا ہے۔
اسمبلی اجلاس کے دوران سورنکوٹ کے ایم ایل اے چودھری محمد اکرم نے پولیس کارروائی پر سخت اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایک پولیس افسر نے مظاہرین پر بے رحمی سے لاٹھیاں برسائیں اور ایک خاتون کو ٹھوکر ماری، جو انتہائی شرمناک عمل ہے۔ انہوں نے قصوروار پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ نیشنل کانفرنس، کانگریس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ارکان نے بھی اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر احتجاج کیا اور پولیس کے طرز عمل پر برہمی کا اظہار کیا۔ نیشنل کانفرنس کے لیڈر نذیر گریزی نے کہا "کیا جموں کشمیر ایک پولیس ریاست بن چکی ہے، کیا پولیس کسی کو بھی گولی مار سکتی ہے، گرفتار کر سکتی ہے، کیا پولیس کے لئے کوئی قانون نہیں"ـ
ہنگامے کے دوران نیشنل کانفرنس کے ارکان اسمبلی جاوید چودھری، میاں مہر علی، جاوید مرچال اور ظفر علی نے اسمبلی اسپیکر کے چیمبر میں داخل ہونے کی کوشش کی، لیکن مارشلز نے انہیں روک دیا۔ دریں اثنا پولیس نے اس افسر کے خلاف انکوائری شروع کر دی ہے، جس پر مظاہرین کے خلاف طاقت کے بے جا استعمال کرنے کا الزام ہے۔ اس واقعے سے متعلق ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے۔ ادھر پولیس ترجمان کے مطابق سینٹرل کشمیر کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس کو اس معاملے کی تحقیقات کے لئے انکوائری آفیسر مقرر کیا گیا ہے، جو آئندہ 10 روز میں اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔
یاد رہے کہ ضلع کولگام چندیان پاجن گاؤں سے تعلق رکھنے والے دو بھائی، 25 سالہ ریاض احمد باجڑ اور 18 سالہ محمد شوکت باجڑ، اپنے ایک اور ساتھی مختار اعوان کے ہمراہ 14 فروری کو گھر سے شادی کی ایک تقریب میں شرکت کے لئے اشموجی نامی ایک گاؤں روانہ ہوئے تھے، تاہم وہ واپس نہیں ہوٹے اور لاپتہ ہوگئے۔ ریاض اور شوکت کی لاش ایک ندی سے برآمد ہوئی جبکہ مختار ہنوز لاپتہ ہے۔ اہل خانہ کے مطابق متوفی انتہائی غریب کنبے سے تعلق رکھتے ہیں اور مزدوری کرکے اپنے اور اہل و عیال کے لئے نان شبینہ جٹا رہے تھے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن نے ستمبر میں لاپتہ افراد کے 113 کیسز نمٹا دیئے
چیئرمین کی متحرک قیادت میں کمیشن نے گزشتہ 3 ماہ کے دوران 289 کیسز نمٹائے۔ کمیشن نے ہر ماہ 96 کیسز نمٹائے، لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے، کمیشن نے گمشدہ افراد کے اہلِ خانہ کی سہولت کیلئے خصوصی سیل بھی تشکیل دیا۔ اسلام ٹائمز۔ جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن نے ستمبر 2025ء میں لاپتہ افراد کے 113 کیسز نمٹا دیئے۔ جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن نے ستمبر 2025ء کے لیے اپنی رپورٹ جاری کر دی، مارچ 2011ء سے ستمبر 2025ء تک 10 ہزار 636 کیسز میں سے 8 ہزار 986 کیسز نمٹائے گئے۔ رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں کمیشن کا علاقائی دفتر صوبہ بلوچستان سے متعلق کیسز کو نمٹاتا ہے، بلوچستان میں ستمبر 2025ء کے دوران 14 لاپتہ افراد گھر واپس پہنچے۔
چیئرمین جسٹس (ر) سید ارشد حسین شاہ کی متحرک قیادت میں کمیشن نے گزشتہ 3 ماہ کے دوران 289 کیسز نمٹائے۔ کمیشن نے ہر ماہ 96 کیسز نمٹائے، لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے، کمیشن نے گمشدہ افراد کے اہلِ خانہ کی سہولت کیلئے خصوصی سیل بھی تشکیل دیا۔ سیل گمشدہ افراد کے بچوں کے ب فارم، پنشن فراہمی اور دیگر معاملات میں ریلیف فراہم کرتا ہے۔
تعلیم، صحت اور دیگر امور میں مدد کے لیے وفاقی، صوبائی حکومتوں کے اعلیٰ حکام کو ضروری ہدایات بھی جاری کر دی گئیں۔ کمیشن میں زیرِ تفتیش اور "جبری گمشدگی" قرار نہ دیئے گئے کیسز میں مسلسل معاونت کی فراہمی کیلئے تمام متعلقہ محکموں کے ساتھ مل کر منصوبہ بھی تیار کیا جا رہا ہے۔