سپریم کورٹ: خصوصی اینٹی کرپشن ہاٹ لائن قائم، کوئی رشوت مانگے اطلاع دیں، فوری کارروائی ہو گی: چیف جسٹس
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے اہم اقدام اٹھاتے ہوئے خصوصی اینٹی کرپشن ہاٹ لائن قائم کر دی۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ اینٹی کرپشن ہاٹ لائن قائم کرنے کا مقصد عدلیہ کے احتساب اور فوری انصاف کی فراہمی کیلئے حائل رکاوٹیں دور کرنے کے عزم کی توثیق ہے۔ چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی بدعنوانی سے پاک ماحول کو فروغ دینے اور انصاف کے اصولوں کی پاسداری کیلئے پرعزم ہیں۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ تقریباً پانچ ماہ میں 7633 نئے مقدمات دائر ہوئے، 11779 مقدمات پر فیصلے ہوئے۔ نئے ججوں کی سپریم کورٹ میں تعیناتی سے مقدمات کے فیصلوں میں مزید تیزی آئے گی۔ اس میں کہا گیا کہ بطور چیف جسٹس پاکستان یقین دلاتا ہوں سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا مقدمہ کا فیصلہ بہت جلد میرٹ پر ہوگا۔ کوئی سرکاری یا غیر سرکاری شخص کیس فکس کرنے، نقل کے حصول یا کسی بھی کام کیلئے رشوت طلب کرے تو فوراً اطلاع دیں۔ اعلامیہ کے مطابق میں چیف جسٹس پاکستان رشوت اور سفارش کے متعلق عدم برداشت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں۔ بطور چیف جسٹس پاکستان آپ کو یقین دلاتا ہوں رشوت طلب کرنے والے کی اطلاع دینے والے کا نام خفیہ رکھا جائے گا۔ رشوت کی شکایت کی فوراً شنوائی ہوگی۔ مزید کہا گیا کہ وٹس ایپ نمبر 03264442444 پر رشوت مانگے جانے کی شکایت درج کرائیں، سپریم کورٹ کی اینٹی کرپشن کا اہلکار آپ کے ساتھ رابطے میں رہے گا اور آپ کو گاہے بہ گاہے شکایت کے متعلق معلومات فراہم کرے گا۔ اینٹی کرپشن ہاٹ لائن رشوت، جانبداری یا کسی قسم کی بدعنوانی کی اطلاع دینے کیلئے ایک محفوظ اور خفیہ پلیٹ فارم ہے۔ اعلامیے کے مطابق ہاٹ لائن پر سپریم کورٹ میں رشوت کی شکایت دینے والے کیلئے محفوظ پلیٹ فارم ہے جس میں انتقامی کارروائی کا کوئی ڈر نہیں۔ اطلاع دینے والے کی شناخت کو محفوظ رکھا جائے گا اور بے نام رہنے کے اختیار کو مکمل تسلیم کیا جائے گا۔اعلامیے میں کہا گیا کہ اینٹی کرپشن ہاٹ لائن 24گھنٹے مکمل فعال رہے گی تاکہ شہری کسی بھی وقت واقعات رپورٹ کر سکیں۔ ہاٹ لائن کے متعدد ذرائع یعنی فون، آن لائن پورٹل، ای میل اور ٹیکسٹ میسجز شامل ہیں۔ ہاٹ لائن اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں دستیاب ہوگی۔ اس میں کہا گیا کہ ہاٹ لائن پر موصول تمام شکایات کا جائزہ ایک غیر جانبدار افسر لیتا ہے جو براہ راست چیف جسٹس پاکستان کو رپورٹ کر تا ہے، ہر شکایت کا بغور سراغ لگا کر تفتیش کی جاتی ہے، سادہ نوعیت کے کیس کیلئے تیس دنوں میں جبکہ پیچیدہ نوعیت کے کیس کیلئے ساٹھ دنوں میں فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کا یہ اقدام اعلیٰ عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو مزید مستحکم کرنے کی کاوشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ سپریم کورٹ اعلامیہ میں شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس پلیٹ فارم کو استعمال کریں تاکہ غلط رویوں کا خاتمہ ممکن ہو اور شفافیت و میرٹ کو یقینی بنایا جائے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: اینٹی کرپشن ہاٹ لائن چیف جسٹس پاکستان میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ
پڑھیں:
جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔
سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔
وکیل عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپےٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس ہر چھوٹ ہوتی ہے۔
جسٹس جمال خان نے ایڈیشنل اٹارنی جزل سے مکالمہ کیا کہ یہ تو آپ محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں، عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکھٹا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکھٹا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں۔
عاصمہ حامد نے دلیل دی کہ جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے ختم نہیں ہوتا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے۔
عاصمہ حامد نے کہا کہ مالی سال کا پروفیٹ موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔