30 برس سے جامع مسجد دہلی میں روزے داروں کو افطاری کرانے والی ہندو خاتون کی دلچسپ کہانی
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
نئی دہلی: رمضان کے مقدس مہینے میں ہر روز دوپہر کے بعد نیہا بھارتی دہلی کی تاریخی جامع مسجد پہنچتی ہیں، جہاں وہ روزہ داروں کے لیے افطار کا اہتمام کرتی ہیں۔
27 سالہ نیہا بھارتی ایک ہندو خاتون ہیں، جو گزشتہ تین برسوں سے روزے داروں کے لیے افطار فراہم کر رہی ہیں۔ ان کے اس اقدام کو ان کے والدین کی مکمل حمایت حاصل ہے، جو ہندوستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی کشیدگی کے ماحول میں امن و بھائی چارے کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔
نیہا بھارتی کا کہنا ہے کہ "میں چاہتی تھی کہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچے کہ آج بھی ہندو مسلم اتحاد زندہ ہے۔ کئی لوگ بھائی چارے کی شاندار مثالیں قائم کر رہے ہیں اور اچھے کام کر رہے ہیں۔"
نیہا کے اس نیک عمل میں ہندو اور مسلمان دونوں ان کی مدد کرتے ہیں۔ کئی ہندو افراد بھی افطار کے لیے عطیات دیتے ہیں، اور نیہا کے ساتھ مل کر جامع مسجد میں روزے داروں کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں۔
ان کے ساتھ کام کرنے والی رمشہ نور، جو آغاز سے ہی نیہا کا ساتھ دے رہی ہیں، کہتی ہیں کہ "یہ ایک مثبت پیغام ہے، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے کہ وہ گھروں سے باہر نکلیں اور دوسروں کی مدد کریں۔ پہلے ہم دو لڑکیاں تھیں، اب ہماری ٹیم میں پانچ لڑکیاں شامل ہیں۔"
اناس احمد، جو نیہا کے اس افطار اہتمام میں ہمیشہ شامل ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ نیہا کی طرف سے افطار لینا ایک الگ ہی روحانی خوشی دیتا ہے۔
وہیں زید قریشی اور محمد افروز نے بھی نیہا کے کام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ "یہ ہندو مسلم اتحاد کی بہترین مثال ہے۔ نیہا محبت بانٹ رہی ہیں اور بھائی چارے کا پیغام دے رہی ہیں، اللہ انہیں اجر دے گا۔"
نیہا بھارتی کا نیک عمل سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو رہا ہے، جہاں لوگ اسے بھائی چارے، مذہبی ہم آہنگی اور محبت کی شاندار مثال قرار دے رہے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھائی چارے رہی ہیں نیہا کے کے لیے
پڑھیں:
1984 سکھ نسل کشی: کمال ناتھ کی موجودگی چھپانے پر دہلی حکومت کی بازپرس کا مطالبہ
دہلی کے وزیر اور اکالی دل کے رہنما منجندر سنگھ سرسا نے سابق وزیراعلیٰ مدھیہ پردیش کمال ناتھ کی 1984 کے سکھ مخالف فسادات میں مبینہ موجودگی سے متعلق پولیس رپورٹ عدالت میں پیش نہ کیے جانے پر دہلی ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ عدالت حکومت کو ہدایت دے کہ وہ 1 نومبر 1984 کو گوردوارہ رکاب گنج صاحب میں ہونے والے سانحے کی رپورٹ عدالت میں پیش کرے، جس میں سابق اے سی پی گوتم کول نے اس وقت کے پولیس کمشنر کو کمال ناتھ کی جائے وقوعہ پر موجودگی کے بارے میں رپورٹ دی تھی۔
مزید پڑھیں: گولڈن ٹیمپل پر آپریشن بلیو اسٹار کو 41 برس مکمل، بھارتی سکھوں کے زخم آج بھی تازہ
درخواست گزار کے وکیل، سینئر ایڈووکیٹ ایچ ایس پھولکا نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ کمال ناتھ کی موقع پر موجودگی پولیس ریکارڈ اور متعدد اخبارات میں دستاویزی طور پر درج ہے، لیکن حکومت نے جنوری 2022 میں جمع کرائی گئی اپنی اسٹیٹس رپورٹ میں ان شواہد کو شامل نہیں کیا۔
واضح رہے کہ دہلی ہائیکورٹ نے 27 جنوری 2022 کو حکومت کو معاملے میں اسٹیٹس رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت کی تھی، جس پر مرکز نے حلف نامہ جمع کرایا، تاہم اس میں کمال ناتھ کے کردار پر کوئی بات شامل نہیں تھی۔
مزید پڑھیں: ہیوسٹن میں سکھوں اور کشمیریوں کا بھارت کے خلاف مظاہرہ
درخواست کے مطابق یکم نومبر 1984 کو گوردوارہ رکاب گنج صاحب کے احاطے میں دو سکھ، اندر جیت سنگھ اور منموہن سنگھ، کو ایک مشتعل ہجوم نے زندہ جلا دیا، جس کی قیادت مبینہ طور پر کمال ناتھ کر رہے تھے۔
اس واقعے میں 5 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی، تاہم کمال ناتھ کو نامزد نہیں کیا گیا۔ بعد ازاں ٹرائل کورٹ نے یہ قرار دے کر تمام ملزمان کو بری کر دیا کہ وہ موقع پر موجود ہی نہیں تھے۔ عدالت نے اس درخواست کی سماعت کے لیے 18 نومبر کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
1984 کے سکھ مخالف فسادات سابق وزیراعلیٰ مدھیہ پردیش کمال ناتھ منجندر سنگھ سرسا