مفت لیپ ٹاپ حاصل کرنے کے خواہشمند طالبعلموں کے لئے بڑی خبر
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
جدید اور مفت لیپ ٹاپ حاصل کرنے کی خواہشمند طلبا کے لئے بڑی خبر آگئی ، طلبا کے پاس آن لائن اپلائی کرنے کا آخری موقع ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات نے چیف منسٹر لیپ ٹاپ اسکیم کے حوالے سے طلبا کو اہم خبر دے دی۔
وزیر تعلیم پنجاب نے کہ چیف منسٹر لیپ ٹاپ اسکیم میں اپلائی کرنے کا آج آخری دن ہے، لیپ ٹاپ کیلئے اب تک 2.
انھوں نے بتایا کہ جدید لیپ ٹاپ کے خواہشمند بی ایس کے طلبا آج تک آن لائن اپلائی کر سکتے ہیں، اسکیم کے تحت 1 لاکھ 10 ہزار طلبہ میں جدید ترین لیپ ٹاپ تقسیم کے جائیں گے۔
صوبائی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ لیپ ٹاپ اسکیم کیلئے سرکاری یونیورسٹیوں کے بی ایس کے طلبا اپلائی کر سکیں گے، بی ایس کے پہلے اور دوسرے سمسٹر کے طلبا اسکیم کے اہل ہوں گے۔
خیال رہے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے صوبے کے نوجوانوں کو ڈیجیٹل طور پر بااختیار بنانے کا ایک اور وعدہ پورا کرتے ہوئے لیپ ٹاپ اسکیم کا اعلان کیا تھا۔
لیپ ٹاپ پروگرام کے لیے آن لائن اپلائی کریں
اہل طلباء اس لنک پر کلک کرکے آن لائن درخواست دے سکتے ہیں: cmlaptophed.punjab.gov.pk۔ مفت لیپ ٹاپ کے لیے درخواست دینے سے پہلے انہیں اپنی تفصیلات آن لائن جمع کرانے کی ضرورت ہوگی۔
کیا نجی کالجوں یا یونیورسٹیوں کے طلباء لیپ ٹاپ پروگرام کے لیے درخواست دینے کے اہل ہیں؟
نہیں، نجی کالجوں یا یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے طلباء لیپ ٹاپ اسکیم کے اہل نہیں ہیں۔
کیا لیپ ٹاپ پروگرام کے لیے درخواست کی فیس ہے؟
نہیں، لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے کوئی درخواست فیس نہیں ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: لیپ ٹاپ اسکیم اسکیم کے ا ن لائن کے طلبا کے لیے
پڑھیں:
ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔
عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔